ایشیا کپ 2022ء سے متعلق دلچسپ اعداد و شمار
متحدہ عرب امارات کے نیوٹرل مقام پر سری لنکا کی میزبانی میں ٹی20 فارمیٹ میں کھیلا گیا 15واں ایشیا کپ دلچسپ مقابلوں کے باعث شائقین کی بھرپور توجہ کا مرکز رہا۔ اس ٹورنامنٹ میں نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستانی ٹیم سپر فور مرحلے میں بھارت کی مضبوط اور افغانستان کی جارح ٹیم کو شکست دے کر فائنل میں تو پہنچی مگر سری لنکا کو نہ ہراسکی۔
سری لنکا نے چھٹی مرتبہ ایشیا کپ چمپیئن شپ جیتی ہے جبکہ سب سے زیادہ مرتبہ اس کے ٹائٹل جیتنے کا ریکارڈ اب بھی بھارت ہی کے پاس ہے جو 7 مرتبہ چمپیئن بنا، جن میں 6 ون ڈے اور ایک ٹی20 ایشیا کپ شامل ہے۔
یہ ٹی20 فارمیٹ میں کھیلے جانے والا ایشیا کپ کا دوسرا ٹورنامنٹ تھا۔ پہلا ٹورنامنٹ 2016ء میں بنگلہ دیش میں منعقد ہوا تھا جو بھارت نے جیتا تھا۔
15ویں ایشیاکپ میں حصہ لینے والی پاکستانی ٹیم دیگر ٹیموں کی نسبت نوجوان اور کم تجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ اس ٹیم کے صرف 2 کھلاڑی افتخار احمد اور محمد نواز 2016ء کے ٹی20 ایشیا کپ میں قومی ٹیم کا حصہ تھے، جبکہ بھارت کی موجودہ ٹیم کے 5 اور بنگلہ دیش کے 6 کھلاڑیوں نے پچھلے ٹی20 ایشیا کپ میں حصہ لیا تھا۔
اس مرتبہ جب قومی ٹیم اسکواڈ کا اعلان کیا گیا تو مڈل آرڈر بیٹسمینوں کے انتخاب پر ماہرین اور شائقین نے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس ٹیم کے صرف 3 ابتدائی بیٹسمین بابر اعظم، محمد رضوان اور فخر زمان ہی اپنی فارم اور فٹنس کی بنیاد پر قابلِ اعتماد سمجھے گئے جبکہ مڈل آرڈر میں شعیب ملک، شان مسعود اور سرفراز احمد جیسے منجھے ہوئے کھلاڑیوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ شعیب ملک کو محض عمر کی بنا پر ترجیح نہیں دی گئی حالانکہ وہ 40 سال کی عمر میں بھی بہترین فارم اور فٹنس رکھتے ہیں اور دیگر کھلاڑیوں کے مقابلے میں بے حد تجربہ کار بھی ہیں۔
دوسری طرف فاسٹ باؤلر شاہین شاہ آفریدی کا ان فٹ ہونا بھی پاکستان کے لیے بڑی بدقسمتی تھی اور حسن علی بھی فارم اور فٹنس کے مسائل سے دوچار تھے۔ تاہم نو عمر فاسٹ باؤلر نسیم شاہ اور محمد حسنین نے ان کی کمی کو کافی حد تک محسوس نہیں ہونے دیا اور حارث رؤف کے ساتھ مل کر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ اسپنرز محمد نواز اور شاداب خان بھی مؤثر ثابت ہوئے۔ فائنل سے پہلے ایک میچ میں حسن علی اور عثمان قادر کو بھی موقع دیا گیا مگر دونوں ہی ناکام رہے۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ کپتان بابر اعظم، جو موجودہ دور کے بہترین بیٹسمینوں میں شمار کیے جاتے ہیں وہ اس ٹورنامنٹ میں بُری طرح ناکام ہوئے اور 6 میچوں میں صرف 68 رنز ہی بنا سکے۔ فائنل میں ان کی مایوس کن کارکردگی نے ٹیم کے مورال کو بھی متاثر کیا۔ دوسری طرف ان کے ساتھی محمد رضوان نے اگرچہ ایونٹ میں سب سے زیادہ 281 رنز تو بنائے مگر ان کا اسٹرائیک ریٹ کافی پریشان کن ہے۔ سب سے زیادہ رنز بنانے کی فہرست میں رضوان کے بعد بھارت کے سابق کپتان ویراٹ کوہلی رہے جنہوں نے 5 میچوں میں ایک سنچری اور دو نصف سنچریوں کی مدد سے 276 رنز بنائے۔
سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی
پورے ایونٹ میں صرف یہی 2 کھلاڑی ہیں جنہوں نے 200 یا اس سے زائد رنز بنائے۔ ٹی20 طرز پر منعقد ہونے والے ایشیا کپ میں کوہلی سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کُل 10 میچ کھیلے اور 429 رنز بنائے لیکن رضوان کے پاس یہ اعزاز ہے کہ وہ ٹی20 فارمیٹ میں کھیلے جانے والے کسی ایک ایشیا کپ میں سب سے زیادہ رنز بنا چکے ہیں۔
ٹی20 ایشیا کپ کی ایک اننگ میں سب سے زیادہ انفرادی اسکور کا ریکارڈ بھی کوہلی کے پاس ہے جو انہوں نے افغانستان کے خلاف دبئی میں 122 رنز بنا کر قائم کیا۔ یہ ایشیا کپ میں اب تک کسی بھی کھلاڑی کی جانب سے واحد انفرادی سنچری تھی اور کوہلی کے ٹی20 انٹرنیشنل کیریئر کی بھی پہلی سنچری تھی۔
اننگ میں سب سے زیادہ اور سب سے کم رنز کا ریکارڈ
اس میچ میں بھارت نے مقررہ 20 اوورز میں صرف 2 وکٹوں کے نقصان پر 212 رنز بنائے جو نہ صرف اس ٹورنامنٹ کا بلکہ ٹی20 ایشیا کپ میں کسی بھی ٹیم کی جانب سے سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ ہے، جبکہ ایک اننگ میں سب سے کم ٹوٹل کا ریکارڈ بھی اسی ٹورنامنٹ میں قائم ہوا جب پاکستان نے ہانگ کانگ کو شارجہ میں صرف 38 رنز پر آوٹ کرکے 155 رنز سے میچ جیت لیا، اور یہ رنز کے لحاظ سے سب سے بڑے مارجن کی کامیابی بھی ہے۔
وکٹوں اور رنز کے اعتبار سے جیت کے ریکارڈ
تاہم وکٹوں کے لحاظ سے سب سے بڑی فتح حاصل کرنے کا ریکارڈ بھارت کے پاس ہے جو اس نے 2016ء کے ٹی20 ایشیا کپ میں متحدہ عرب امارات کو 9 وکٹوں سے شکست دے کر قائم کیا تھا۔ سب سے کم رنز سے جیتنے کا ریکارڈ سری لنکا کے پاس ہے جس نے گزشتہ ٹی20 ایشیا کپ میں متحدہ عرب امارات کو صرف 14 رنز سے ہرایا تھا، جبکہ سب سے کم وکٹوں سے کامیابی حاصل کرنے کا ریکارڈ حالیہ ٹورنامنٹ میں پاکستان نے افغانستان کو شارجہ میں صرف ایک وکٹ سے ہراکر قائم کیا۔
سب سے زیادہ چھکوں اور چوکوں کا ریکارڈ
اس ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ چھکے لگانے والے بیٹسمین افغانستان کے رحیم اللہ گرباز رہے جنہوں نے 5 میچوں میں 12 چھکے لگائے، جبکہ سب سے زیادہ چوکے پاکستانی اوپنر رضوان کے تھے جنہوں نے 6 میچوں میں 21 چوکے لگائے، لیکن اگر چوکوں اور چھکوں کے مجموعی ریکارڈ کی بات کریں تو وہ کوہلی کے پاس ہے جنہوں نے 20 چوکے اور 11 چھکے لگاکر حاصل کیا۔
سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر
ایشیا کپ 2022ء میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر بھارت کے پیسر بھوونیشور کمار ہیں جنہوں نے 5 میچوں میں 11 وکٹیں حاصل کیں۔ ایک اننگ میں بہترین باؤلنگ کا مظاہرہ کرنے والے باؤلر بھی وہی تھے۔ انہوں نے افغانستان کے خلاف دبئی میں صرف 4 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں۔ یہ ان کے ٹی20 انٹرنیشنل کیرئیر کے بھی بہترین فگرز ہیں۔
ان کے علاوہ، 2 باؤلرز نے ایک، ایک بار اننگ میں 4 وکٹیں حاصل کیں۔ ان میں پاکستان کے شاداب خان نے ہانگ کانگ کے خلاف صرف 8 رنز کے عوض اور سری لنکا کے پرامود مدھو شان نے پاکستان کے خلاف فائنل میں 9 رنز کے بدلے 4، 4 شکار کیے۔
سب سے بڑی شراکت داریوں کے ریکارڈ
اس ٹورنامنٹ میں 2 سنچری شراکتیں بھی قائم ہوئیں۔ پہلی شراکت داری پاکستان کے محمد رضوان اور فخر زمان کے درمیان ہانگ کانگ کے خلاف شارجہ میں قائم ہوئی جس میں 116 رنز بنائے گئے جبکہ دوسری شراکت داری بھارت کے کے ایل راہول اور کوہلی نے افغانستان کے خلاف 119 رنز پر مشتمل بنائی۔
ایونٹ میں حاصل ہونے والے انفرادی سنگ میل
ان کےعلاوہ، کچھ کھلاڑیوں نے ایشیا کپ 2022ء کے دوران انفرادی سنگ ہائے میل بھی عبور کیے۔ جیسے فائنل میں پاکستان کے پیسر حارث رؤف نے سری لنکن آل راؤنڈر ونندو ہاسارنگا کو آوٹ کرکے اپنے ٹی20 انٹرنیشنل کیریئر کی 50 وکٹیں مکمل کیں۔ وہ اس سنگ میل کو پہنچنے والے پاکستان کے 10ویں باؤلر ہیں۔ حارث نے اب تک کُل 41 میچ کھیل کر 23.94 کی اوسط سے 50 وکٹیں حاصل کی ہیں۔
3 کھلاڑیوں نے اس ٹورنامنٹ کے دوران اپنے ٹی20 انٹرنیشنل کیریئر کے 100 میچ مکمل کیے۔ سب سے پہلے بھارت کے سابق کپتان ویراٹ کوہلی نے دبئی میں 28 اگست کو پاکستان کے خلاف کھیل کر اپنے میچوں کی سنچری مکمل کی۔ پھر بنگلہ دیش کے کپتان شکیب الحسن نے 30 اگست کو شارجہ میں افغانستان کے خلاف کھیل کر یہ سنگ میل عبور کیا اور بعد میں افغانستان کے کپتان محمد نبی نے پاکستان کے خلاف شارجہ میں 7 ستمبر کو یہ اعزاز حاصل کیا۔ وہ یہ سنگ میل عبور کرنے والے افغانستان کے پہلے کھلاڑی ہیں۔
اب تک ٹی20 میچوں کی سنچری کرنے والے کھلاڑیوں کی تعداد 16 ہوگئی ہے۔ ان میں آئرلینڈ اور بنگلہ دیش کے 3، نیوزی لینڈ، بھارت اور پاکستان کے 2 اور انگلینڈ، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز اور افغانستان کے ایک، ایک کھلاڑی شامل ہیں۔
میچوں کے نتائج اور ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ ایک دلچسپ اور کامیاب ٹورنامنٹ تھا، جو ایشیا کپ کا 15واں اور ٹی20 فارمیٹ میں دوسرا ایڈیشن تھا۔ اب ایشیا کپ کا 16واں ٹورنامنٹ ون ڈے فارمیٹ میں آئندہ سال کھیلا جائے گا، جس کی میزبانی کا اعزاز پاکستان کو، دوسری مرتبہ حاصل ہوگا۔ اس سے قبل اس نے ایشیا کپ کی میزبانی 2008ء میں کی تھی۔
مشتاق احمد سبحانی سینیئر صحافی اور کہنہ مشق لکھاری ہیں۔ کرکٹ کا کھیل ان کا خاص موضوع ہے جس پر لکھتے اور کام کرتے ہوئے انہیں 40 سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔ ان کی 4 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔