عوامی عہدوں پر غیر اعلانیہ تعیناتیاں باعث تشویش ہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ عوامی عہدوں پر غیر اعلانیہ تعیناتیاں باعث تشویش ہیں جو جانبدارانہ حمایت اور مداخلت کے امکان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دوسری جانب جسٹس سید منصور علی شاہ نے فیصلے میں مشاہدہ کیا کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی کونسل آف کمپلینٹس (سی او سی) کے چیئرپرسن اور ارکان جیسے عہدوں کے لیے اعلانیہ انتخاب کا عمل مقابلے کی فضا کو فروغ دیتا ہے اور بہترین امیدواروں کی تلاش میں مدد کرتا ہے۔
جسٹس سید منصور علی شاہ سپریم کورٹ کے اس 2 رکنی بینچ کے رکن ہیں جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کر رہے ہیں، اس بینچ نے اے آر وائی کمیونیکیشنز لمیٹڈ کے خلاف پیمرا کی جانب سے دائر کی گئی اپیل کی سماعت کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کے 8 فروری کے حکم کو برقرار رکھا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سرکاری عہدوں پر تقرریوں کے قوانین میں خلاف ورزی کا مرتکب
یہ تنازع اس سوال کے گرد گھومتا ہے کہ چیئرپرسن اور سی او سی جیسے عوامی عہدوں کے ارکان کی اعزازی تعیناتی اسامیوں کی تشہیر کے بعد کی جاتی ہے یا نہیں۔
جسٹس سید منصور علی شاہ نے مشاہدہ کیا کہ آئینی تقاضا ہے کہ پبلک سیکٹر کی تعیناتیاں اعلانیہ اور مسابقتی عمل کے ذریعے کی جائیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پیمرا آرڈیننس اور سی او سی رولز 2010 کے تحت سی او سی میں تعیانتی کے لیے عوامی اشتہارات کی ضرورت نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: نئے عہدوں کے قیام کا معاملہ، وزارت اطلاعات اور پیمرا میں ٹھن گئی
توقع کی جاتی ہے کہ سی او سی معاشرے کے معزز، اہل اور تجربہ کار اراکین پر مشتمل ہو گا جو پیمرا کے تعاون سے آزادانہ طور پر کام کریں گے اور براڈکاسٹ میڈیا اور ڈسٹری بیوشن سروس فراہم کرنے والوں کے خلاف موصول ہونے والی شکایات پر کارروائی کریں گے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ایگزیکٹو جائزے کے دوران کسی بھی موزوں امیدوار سے سی او سی میں خدمات انجام دینے کی ممکنہ پیشکش کے لیے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سرکاری جائزے کے دوران شناخت کیے گئے یا اشتہار کے جواب میں درخواست دینے والے تمام امیدواروں کا ایک معروضی معیار کے مطابق جائزہ لیا جائے گا جو کہ طرز عمل، ساکھ، دیانتداری اور پیشہ ورانہ مہارت پر مبنی ہوگا اور پھر ان میں سے سب سے زیادہ اہل امیدواروں کا انتخاب کیا جائے۔