• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ سے 11 ہزار سے زائد سرکاری دستاویزات برآمد

شائع September 3, 2022
ایف بی آئی نے 8 اگست کو سابق صدرکی فلوریڈا کی رہائش گاہ پر چھاپا مارا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
ایف بی آئی نے 8 اگست کو سابق صدرکی فلوریڈا کی رہائش گاہ پر چھاپا مارا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے 8 اگست کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فلوریڈا کی رہائش گاہ پر تلاشی کےدوران11 ہزار سے زیادہ سرکاری دستاویزات اور تصاویر کے ساتھ ساتھ ان 48 خالی فولڈرز کو بھی برآمد کیا جنہیں کلاسیفائیڈ قرار دیا گیا تھا جن کا عدالتی ریکارڈ کے مطابق جائزہ لیا گیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی خبر کے مطابق امریکی ڈسٹرکٹ جج ایلین کینن کی جانب سے دستاویزات ‘ان سیل’ کرنے کا فیصلہ ایک روز بعد سامنے آیا ہے جب کہ انہوں نے قبضے میں لیے گئے مواد اور دستاویزات کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی ماسٹر مقرر سے متعلق سابق صدر کی درخواست پر ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا اور محکمہ انصاف کے 2 اعلیٰ کاؤنٹر انٹیلی جنس پراسیکیوٹرز کے زبانی دلائل سنے تھے۔

جج ایلین کینن نے فوری طور پر اسپیشل ماسٹر کے تقرر سے متعلق فیصلہ فیصلہ موخر کر دیا اور محکمہ انصاف کی جانب سے دائر کردہ 2 فائلوں کو غیر سیل شدہ کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کی ٹیم نے تحقیقات کے دوران ‘خفیہ کاغذات منتقل کیے ہیں’

دوران سماعت ڈونلڈ ٹرمپ کے مقرر کردہ سابق امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار نے اسپیشل ماسٹر کے تقرر کی افادیت پر سوال اٹھایا۔

فاکس نیوز پر ایک انٹرویو کے دوران ولیم بار نےکہا کہ میرے خیال میں اس موقع پر جبکہ ایف بی آئی پہلے ہی دستاویزات کا جائزہ لے چکا ہے خصوصی ماسٹر کا تقرر کان وقت کا ضیاع ہے۔

ولیم بار نے دسمبر 2020 کے آخر میں عہدہ چھوڑ دیا تھا، انہوں نے سابق صدر کے ان جھوٹے دعوؤں کی مخالفت کی جن میں ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ صدارتی انتخابات میں ان کے خلاف دھاندلی کی گئی۔

انٹرویو میں ولیم بار نے مزید کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس دستاویزات کو اپنی رہائش گاہ پر رکھنے کی کوئی معقول وجہ تھی جب کہ انہیں کلاسیفائڈ قرار دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر پر چھاپے کے بعد سیاسی کشیدگی میں اضافے کا خدشہ

انہوں نے مزید کہا ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوں جس میں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے تمام دستاویزات کو ڈی کلاسیفائڈ کردیا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ناممکن ہے۔

جمعے کے روز جاری کردہ ریکارڈز ڈونلڈ ٹرمپ کی مار-ا-لاگو اسٹیٹ کے اندر سے ملنے والے 33 باکسز اور دیگر اشیا کے بارے میں کچھ مزید تفصیلات فراہم کرتا ہے۔

ایف بی آئی کا چھاپا ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف جاری مجرمانہ تحقیقات کےدوران سامنے آیا تھا۔

ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر قومی دفاع کی معلومات کو غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھا اور تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذہ ‘غیر جمہوری اور سیاسی ہتھیار ہے’، وکلا

جاری کردہ ریکارڈز سے پتا چلتا ہے کہ کلاسیفائڈ دستاویزات کو بعض اوقات کتابوں، رسالوں اور اخباری تراشوں جیسی دیگر اشیا کے ساتھ ملایا جاتا تھا۔

چھاپے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ سے ایف بی آئی کو غیر کچھ تحائف اور کپڑے بھی برآمد ہوئیں۔

رائٹرز کی جانب سے رپورٹ کی گئی حکومتی انوینٹری کے مطابق 11 ہزار حکومتی دستاویزات اور تصاویر میں سے 18 آئٹمز ٹاپ سیکرٹ، 54 آئٹمز سیکرٹ اور 31 دستاویزات کو کانفیڈینشل قرار دیا گیا تھا۔

ٹاپ سیکریٹ قرار دی گئی دستاویزات، ملک کے اہم ترین رازوں پر مشتمل دستاویزات ہوتی ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکی سینیٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کا آغاز

ملنے والے ریکارڈز میں 90 خالی فولڈرز بھی تھے جن میں سے 48 کو کلاسیفائیڈ قرار دیا گیا تھا، یہ واضح نہیں ہے کہ فولڈرز کیوں خالی تھے، کیا ان میں موجود ریکارڈ غائب کردیا گیا تھا۔

گزشتہ روز سماعت کے دوران جج نے اشارہ دیا کہ وہ امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں کو اجازت دینے کے لیے تیار ہو سکتی ہیں کہ وہ قومی سلامتی کو پہنچنے والے نقصان کے خدشے کے پیش نظر دستاویزات کا جائزہ لے سکیں، اگرچہ اس جائزے کے لیے اسپیشل ماسٹر مقرر کیا جائے۔

محکمہ انصاف نے اس سے قبل عدالتی فائلنگ میں کہا تھا کہ اس کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ خفیہ دستاویزات کو ایف بی آئی سے جان بوجھ کر چھپایا گیا جب کہ اس نے جون میں ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر سے انہیں برآمد کرنے کی کوشش کی تھی۔

محکمہ انصاف نے اسپیشل ماسٹر کے تقرر کی بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ زیر بحث ریکارڈ کا ڈونلڈ ٹرمپ سے کوئی تعلق نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024