• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

حکومت کے پاس 13 مہینے ہیں، ہوسکتا ہے میرے پاس اتنا وقت نہ ہو، مفتاح اسمٰعیل

شائع September 2, 2022
مفتاح اسمٰعیل کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے — فوٹو: اسکرین شارٹ
مفتاح اسمٰعیل کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے — فوٹو: اسکرین شارٹ

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس 13 مہینے ہیں، ہوسکتا ہے میرے پاس اتنا وقت نہ ہو۔

کراچی میں تقریب خطاب سے کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ میں اس طرح کام کرتا ہوں کہ میں زندگی بھر یہاں پر ہوں، پاکستان تو رہے گا نہ، اسی طرح کام کرنا ہے کہ اگلے پانچ سال کے لیے منصوبہ بندی کر کے جائیں، اس کے بعد آنے والوں کی مرضی ہے، مجھے نہیں پتا کہ کتنے دن رہوں گا لیکن حکومت کی سوچ ہے کہ اگلے 6 سال تک رہیں گے، ان شا اللہ اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی بھی پاکستانی ٹیکس ادا کرنے کا خواہشمند بالکل بھی نہیں ہے، کیونکہ ہم ٹیکس درآمدی چیزوں پر لگاتے ہیں جس کی وجہ سے چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں اور پاکستانی مینوفیکچرر پاکستان سے بہت زیادہ نفع کما سکتے ہیں۔

'ہم برآمدات کا نہیں سوچتے'

انہوں نے کہا کہ میرے وزیر خزانہ بننے سے پہلے فروری میں ایک بڑا کاروباری گروپ میرے پاس آیا اور کہا کہ ہم پاکستان میں پولی پروپلین کی فیکٹری لگانا چاہتے ہیں، پاکستان میں یہ نہیں بنتا، ان کا کہنا تھا جب فیکٹری لگ جائے گی تو 20 فیصد ڈیوٹی لگا کر تحفظ چاہیے اور کہا کہ ہم چین سے مسابقت نہیں کر سکتے، لہٰذا ہم پاکستانی برآمدات کا نہیں سوچتے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل، نواز شریف کے ساتھیوں کی تنقید کی زد میں

مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش نے گارمنٹس بنا بنا کر خود کو امیر کرلیا، بنگلہ دیش کی آبادی ہم سے زیادہ تھی، آج ان کی آبادی 15، 16 کروڑ اور ہماری 23 کروڑ ہے، ہم خاندانی منصوبہ بندی کی بات کریں تو اسلام خطرے میں آجاتا ہے، اگر دنیا میں 10 بچے اسکول سے باہر ہیں تو اس میں سے ایک بچہ ہمارا ہے۔

انہوں نے پریزینٹیشن میں بتایا کہ گزشتہ برس 5.97 فیصد شرح نمو تھی، گزشتہ برس ہمارا تجارتی خسارہ 49.4 ارب ڈالر کا سب سے زیادہ خسارہ تھا جو جی ڈی پی کا 15 فیصد تھا، گزشتہ برس ہمارا مالیاتی خسارہ 5 ہزار 260 ارب روپے کا تھا۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 2013 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت میں آئی تھی تو ہمیں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاس جانا پڑا تھا، اس وقت 7 ارب ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تھے جو چند ماہ بعد کم ہوکر 2 ارب ڈالر رہ گئے تھے، وہاں سے اس کو اٹھانا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب آئی ایم ایف کا پروگرام ختم ہوا تو ہم بدنظمی میں آگئے، دیگر وجوہات تھیں اور کرنسی کو مستحکم رکھنا تھا، اس کے بعد کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (سی اے ڈی) 19 ارب ڈالر کا ہوگیا جو جی ڈی پی کا 6 فیصد کے برابر تھا، یہ پرویز مشرف کے دور میں 8 فیصد جتنا برا نہیں تھا، ایک بار پھر دنیا بھر میں کوئی بھی اس کو فنانس کرنے پر رضامند نہیں تھا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کچھ عرصے تک ادھر اُدھر سے کوششیں کرتی رہی لیکن انہوں نے آئی ایم ایف میں جانے سے پہلے ایک سال لگا دیا۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا سرپلس تنازع کے حل کیلئے مفتاح اسمٰعیل، تیمور خان جھگڑا کی ملاقات طے

مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ڈسپلن میں آئے، شرح نمو بھی تھوڑی کم ہوئی، اس کے بعد کووڈ-19 آگیا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے بریک دے دیا اور دنیا نے ساڑھے 4 ارب ڈالر کی ادائیگیاں بھی مؤخر کردیں، اس دور میں حکومت کو فنانس کا اتنا نقصان نہیں ہوا، اس کے بعد شرح نمو میں اضافہ لے کر آئے، ترقی کی رفتار 5 فیصد سے اوپر گئی تو گزشتہ برس ساڑھے 5 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم حکومت میں آئے تو زرمبادلہ کے ذخائر 10.3 ارب ڈالر کے تھے جبکہ گزشتہ برس 2، 4 ارب ڈالر اور رواں مالی سال میں 21 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا تھیں جس کی وجہ سے ہمیں نظر آرہا تھا کہ ملک دیوالیہ ہوگا، اور آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑا تھا تو وہ بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

'ہم نے درآمد کے متبادل کا ایک ماڈل پکڑا ہوا ہے'

ان کا کہنا تھا کہ ہم بہت زیادہ سوچتے نہیں ہیں، ہم نے درآمد کے متبادل کا ایک ماڈل پکڑا ہوا ہے، ہم اس ماڈل پر کام کرتے ہیں اور برآمدات کے فروغ کے لیے کام نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر مرکزی بینک نے ٹرم لون 1 فیصد پر دیے تھے، ایک پاکستانی نے 90 ارب روپے کا قرضہ لیا، کُل 570 ارب روپے کا قرضہ دیا گیا تھا، جتنے بھی یوتھ پروگرام وغیرہ کرتے ہیں یہ سب ملا کر بھی 90 ارب روپے نہیں بنتے، حکومت کی سوچ ٹھیک ہوتی ہے کہ یہ پیسے دے کر معیشت چلے گی، ہوتا یہ ہے کہ ہم کسی کو بولتے ہیں کہ یہ 200 کروڑ روپے لے لو اور ایک فیکٹری لگاؤ اور جب فیکٹری لگ جائے تو 20 ہزار روپے کی کسی کو نوکری دے دینا، حکومت کے پاس ہمیشہ سے یہ ماڈل رہا ہے، یہ ماڈل پائیدار نہیں ہے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ وہ فیکٹری امپورٹ بیسڈ پر لگتی ہے جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ جاتا ہے، پھر جب آپ کو 20 ہزار روپے کی نوکری دینی پڑتی ہے تو معیشت کو آہستہ کرنا پڑتا ہے، جب معیشت کو آہستہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے اسی 20 ہزار روپے والے کی نوکری چلی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روپے کی بےقدری میں سیاسی صورتحال کا بڑا ہاتھ ہے، مفتاح اسمٰعیل

انہوں نے کہا کہ ہم امیر لوگوں کو مزید امیر کرکے شرح نمو بڑھاتے ہیں تو مسئلہ ہو جاتا ہے، امیر لوگ درآمدی اشیا زیادہ استعمال کرتے ہیں، مثال کے طور پر پیسے والا گاڑی چلاتا ہے، پیٹرول استعمال کرتا ہے، گاڑی اور پیٹرول دونوں درآمد کیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا، اس کے مطابق سیلز ٹیکس کی شرح کو 10.5 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد تک بڑھائیں گے، اور پیٹرولیم لیوی ہر مہینے 4، 4 روپے بڑھا کر 30 روپے تک لے کر جانی تھی، ہم نے کہا کہ سیلز ٹیکس ہٹا دو میں پیٹرولیم لیوی 30 کی جگہ ہر مہینے 5 روپے بڑھا کر اپریل تک 50 روپے تک بڑھاؤں گا، آج پیٹرول پر لیوی 30 روپے کی جگہ 37 روپے کر دی کیونکہ ڈیزل کی قیمت مزید بڑھ گئی تھی اور معاہدے کے تحت اس پر 15 روپے لیوی ہونی چاہیے تھی جو 7.5 روپے عائد ہے، ہم نے مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل پر بھی لیوی نہیں لگائی، اس وقت ہم ڈیزل کو مہنگا نہیں کرسکتے۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کو قرض جاری کرنے کی منظوری دے دی

مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ میں شرمندہ ہوں کہ جب میں وزیر خزانہ ہوں اس دور میں مہنگائی ہو رہی ہے، ہم اس بات سے انکار نہیں کر رہے کہ 47 سال میں سب سے زیادہ مہنگائی ہے لیکن جب آپ کے پاس 10 ارب ڈالر ہوں اور 20 ارب ڈالر باہر دینے ہوں اور 10 ارب ڈالر کی درآمدات کرنا ہوں اور 35 ارب ڈالر کا خرچہ ہو تو سامنے ڈیفالٹ نظر آرہا تھا۔

'سخت اقدامات نہ کرتے تو 2 مہینے میں دیوالیہ ہو جاتے'

انہوں نے کہا کہ ایک لمحے کے لیے سری لنکا کا سوچیں، وہاں پر پیٹرول 470 روپے فی لیٹر ہے جبکہ وہاں پر بلیک میں 3 ہزار روپے فی لیٹر پیٹرول مل رہا ہے، ان کے ہسپتالوں میں ادویات کے پیسے نہیں ہیں۔

وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ سری لنکا میں پکانے کی گیس لینے کے لیے قطار میں 2 دن انتظار کرنا پڑتا ہے، میں آپ کو قسم کھا کر بتا رہا ہوں کہ اگر ہم سخت اقدامات نہ کرتے تو 2 مہینے میں دیوالیہ ہو جاتے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024