• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

پانی سے پھیلنے والی ’واٹر بورن ڈیزیز‘ کیا ہے؟

متاثرین نہ صرف سیلاب میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بلکہ وہ آلودہ پانی کو پینے سمیت اس سے غذا تیار کرنے پر بھی مجبور ہیں۔
شائع September 1, 2022 اپ ڈیٹ September 2, 2022

شدید بارشوں کے بعد اس وقت سیلاب سے پاکستان کا تقریباً ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، جہاں لوگ آلودہ پانی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

سندھ اور بلوچستان میں سیلاب سے متاثر ہونے والے 55 اضلاع کے متاثرین نہ صرف سیلابی پانی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بلکہ وہ بعض اوقات آلودہ پانی کو پینے سمیت غذا کی تیاری کے لیے استعمال کرنے پر بھی مجبور ہیں۔

سیلاب سے متاثرہ زیادہ تر علاقوں میں متاثرین کو محفوظ رفع حاجت کی سہولیات بھی دستیاب نہیں اور پانی میں نہ صرف انسانی فضلہ بلکہ مردہ جانوروں کی باقیات بھی شامل ہیں، جس کی وجہ سے ملک بھر میں مختلف بیماریاں پھوٹنے کا امکان ہے۔

پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کو ’واٹر بورن ڈیزیز‘ کہا جاتا ہے اور اس سے متاثر ہونے والے افراد کو اگر بروقت طبی امداد فراہم نہ کی جائے تو اس کے انتہائی خطرناک نتائج بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

ایسی بیماریوں کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ تیزی سے دیگر افراد میں بھی پھیلتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت بڑی آبادی کو متاثر کرلیتی ہیں۔

پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کو اکثر بیکٹیریا یا وائرس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو صرف آلودہ پانی سے پھیلتی ہیں۔

گزشتہ دو دہائیوں سے حکومتوں اور عالمی طبی اداروں نے پانی سے پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے اربوں روپے کے منصوبے شروع کر رکھے ہیں، تاہم تاحال ادارے اور حکومتیں پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کو روکنے میں ناکام ہیں۔

ہم ذیل میں ان چند بیماریوں سے متعلق آگاہی دے رہے ہیں جو آلودہ پانی سے پھیلتی ہیں۔

کالرا (ہیضہ)

ہیضہ مون سون کے موسم میں ہونے والی خطرناک بیماریوں میں سے ایک ہے، اسے کالرا اور گیسٹرو بھی کہا جاتا ہے۔ ہیضہ کچھ خطرناک بیکیریاز (خوردبینی جاندار) کی وجہ سے ہوتا ہے جو خراب کھانوں، گندے پانی اور حفظان صحت کی کمی کے باعث پھیلتے ہیں. اس کی علامات میں پتلا فضلہ اور قے آنا شامل ہیں, جس کی وجہ سے جسم سے بہت زیادہ پانی کا ضیاع اور پٹھوں میں کھچاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔

ہیضے کے مریض کو فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انسانی جسم میں نمکیات کی کمی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

ڈائریا/ اسہال

یہ بیماری بھی آلودہ پانی سمیت تالابوں اور سوئمنگ پولز میں موجود پانی سے بھی پھیلتی ہے، اس بیماری سے انسانی جسم کو غذا پہنچانے والے کچھ راستے سخت متاثر ہوتے ہیں، جس سے انسان کو متلی ہونے سمیت پیٹ میں درد رہتا ہے جب کہ اس سے وزن میں بھی نمایاں کمی ہوجاتی ہے، انسانی جسم کے بخارات نکلنے سے مریض نڈھال ہوجاتا ہے۔

پیچش

یہ بیماری بھی آلودہ پانی کے استعمال اور اس کے درمیان رہنے سے ہوتی ہے، اس میں مریض کو پیچش ہونے سمیت پیٹ میں درد کی شکایت رہتی ہے۔ اس مرض کے شکار شخص کو بخار، پٹھوں میں کھچاؤ اور جلد میں خارش اور جلن بھی محسوس ہوتی ہے۔

یہ عین ممکن ہے کہ کسی شخص کو آلودہ پانی سے ڈائریا، کالرا اور پیچش بیک وقت متاثر کریں یا پھر تینوں مرضوں میں سے دو مرض ایک ساتھ مریض پر حملہ کردیں۔

ٹائیفائڈ/ بخار

ٹائیفائڈ آلودہ پانی میں پائے جانے والے بیکٹیریا 'سلمونیلا' کی وجہ سے ہوتا ہے. یہ بیماری آلودہ کھانے یا کسی متاثرہ شخص کے فضلے سے آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے ہوتی ہے. اسکی علامات میں کچھ دنوں تک تیز بخار، پیٹ میں شدید درد، سر درد اور قے آنا شامل ہے. اس بیماری کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کا جراثیم علاج کے بعد بھی پتے میں رہ جاتا ہے. اس بیماری کی تشخیص خون کا نمونہ لے کر ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے. اس کی احتیاطی تدابیر میں صاف پانی کا استعمال، اچھے اینٹی بیکٹیریل صابن کا استعمال اور بہتر نکاسی آب کا انتظام شامل ہے. اس کے لئے مختلف اینٹی بایوٹیکس کا استمال کیا جاتا ہے۔

ہیپاٹائٹس اے (پیلا یرقان)

ہیپاٹائٹس اے کا شمار ان خطرناک وبائی بیماریوں میں ہوتا ہے جو جگر میں انفیکشن پیدا کرتی ہیں. آلودہ پانی اور کھانے کا استعمال اس بیماری کی بنیادی وجہ بنتا ہے کیونکہ ان میں ہیپاٹائٹس اے کا وائرس موجود ہوتا ہے. پھلوں اور سبزیوں پر بیٹھنے والی مکھیاں بھی اس بیماری کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس بیماری کی علامات جگر میں سوزش کی نشان دہی کرتی ہیں جن میں آنکھوں، جلد اور پیشاب کا پیلا ہونا (جسے جوانڈس یا پیلا یرقان بھی کہا جاتا ہے)، معدے میں درد، بھوک کا ختم ہونا، متلی ہونا، بخار اور پتلے فضلے آنا شامل ہیں. اس کی تشخیص کے لئے خون کا ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔

ڈینگی / بخار

ڈینگی بخار وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس وائرس کو پھیلانے میں 'ایڈیس ایگیپٹی' مچھر اہم کردار ادا کرتا ہے. اس مچھر کی پہچان یہ ہے کہ اس کے جسم پر سفید اور کالی لکیریں ہوتی ہیں اور یہ دوسرے مچھروں سے عموما بڑا ہوتا ہے. یہ مچھر صبح اور شام کے وقت کاٹتا ہے. ڈینگی بخار کو "ریڑھ کی ہڈی کا بخار" بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی نشانیوں میں جوڑوں اور پٹھوں میں شدید درد، آنکھوں کے پیچھے درد، سر درد، بخار اور جسم پر سرخ نشانات بننا شامل ہیں۔

ملیریا/ بخار

ملیریا ان بیماریوں میں سے ہے جس کی وجہ گندے پانی میں پیدا ہونے والی مادہ مچھر 'انوفیلیس' ہے. مون سون کے موسم میں پانی کے جل تھل کی وجہ سے اس مچھر کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اسی کے ساتھ ہی ملیریا کی وبا پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ ہوجاتا ہے۔

انفلوئنزا (وبائی زکام)

وبائی زکام مون سون کے موسم کے علاوہ سرد موسم اور سیلاب جیسی صورتحال میں پھیلنے والی عام بیماری ہے. یہ نزلہ زکام "انفلوئنزا " کی وجہ سے ہوتا ہے اور چونکہ یہ وائرس کھلی فضا میں موجود ہوتا ہے اس لئے ایک فرد سے دوسرے میں بآسانی منتقل ہوجاتا ہے. انفلوئنزا وائرس ہوا کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے اور ناک، گلے اور پھیپڑوں کو متاثر کرتا ہے. اس بیماری کی نشانیوں میں بہتی ہوئی ناک، جسم اور گلے میں شدید درد اور بخار شامل ہیں۔