• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ: 'شہباز گل معافی مانگنے کیلئے تیار'، ضمانت پر فیصلہ محفوظ

شائع August 29, 2022
شہباز گل نے گزشتہ ہفتے ضمانت کے لیے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی تھی — فوٹو: ڈان نیوز
شہباز گل نے گزشتہ ہفتے ضمانت کے لیے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی تھی — فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کی درخواست ضمانت پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا جبکہ شہباز گل کے وکیل نے کہا ہے کہ ان کے مؤکل بیان پر معافی مانگنے کے لیے تیار ہیں۔

یاد رہے کہ شہباز گل نے گزشتہ ہفتے ضمانت کے لیے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو نجی نیوز چینل ‘اے آر وائی’ پر متنازع بیان دینے کے بعد اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل کی ضمانت کیلئے درخواست، عدالت کا پولیس کو ریکارڈ پیش کرنے کا حکم

اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں شہباز گل کی درخواست ضمانت پر ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے سماعت کی۔

دوران سماعت انسپکٹر ارشد ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہوئے۔

جج نے استفسار کیا کہ ملزم کی جانب سے کون پیش ہوا ہے اور مدعی کی جانب سے کون ہے جس پر پولیس نے جواب دیا کہ ملزم شہباز گل کے وکیل برہان معظم موجود ہیں جبکہ پراسیکیوٹر آرہے ہیں۔

وکیل برہان معظم نے استدعا کی کیا ہم ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں ہمارے خلاف کیا شہادت ہے جس پر عدالت نے پولیس کو ملزم کے خلاف ریکارڈ وکیل کو دکھانے کا حکم دیا۔

مزید پڑھیں: بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ: شہباز گل نے درخواست ضمانت دائر کردی

پولیس نے استدعا کی آپ وکلا کو ہدایت دیں ایک یا دو وکلا ریکارڈ دیکھ لیں، یہ تصاویر نہ بنائیں۔

پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے کہا کہ ہم ضمنی نہیں دکھا سکتے، باقی ریکارڈ دکھا دیتے ہیں جس پر جج نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ ضمنی نہ دکھائیں ان کو باقی ریکارڈ دکھا دیں۔

شہباز گل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے 161 کا بیان نہیں دکھایا، 12 گواہان لکھے ہوئے ہیں، آپ سے استدعا ہے کہ 161 کے بیان دکھانے کا حکم جاری کریں جس پر جج نے کہا کہ تفتیشی کدھر ہے، اس کو بلائیں، آپ وکلا کو 161 کا بیان دکھائیں، کس نے کیا بیان دیا ہے۔

ملزم شہباز گل کا بیان نہ دکھانے پر وکلا نے اعتراض کیا، وکلا نے کہا کہ پولیس ملزم کا بیان نہیں دکھا رہی، باقی سارے بیانات دکھا دیے ہیں جس پر عدالت نے پولیس کو ملزم کا پہلا بیان دکھانے کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز توسیع کی استدعا مسترد

وکیل نے کہا کہ 8 اگست کو علام مرتضی چانڈیو کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوتا ہے، اس دوران ملزم شہباز گل کے وکیل برہان معظم نے مقدمے کا متن پڑھنا شروع کردیا، فورسز کے افسران پر تقسیم کرنے کا الزام لگایا گیا، مدعی سٹی مجسٹریٹ نے شہباز گل پر بغاوت کا الزام لگایا ہے، مقدمے کے بعد بیان میں مزید 5 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے۔

وکیل نے کہا کہ شہباز گل نے بغاوت کے متعلق کبھی سوچا ہی نہیں، ٹرانسکرپٹ کے مختلف جگہوں سے پوائنٹ اٹھا کر مقدمہ درج کیا گیا، الزام ایسے ادارے پر لگائے جارہے ہیں جو رات کو سڑکوں پر جاتے ہیں، اس سارے بیان پر کسی جگہ پر غلطی فہمی پیدا ہوئی ہے، شہباز گل اس غلط فہمی کو دور کرنے پر تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز گل معافی مانگنے پر بھی تیار ہیں لیکن یہ حق کس طرح ملا مختلف پوائنٹ اٹھا کر بغاوت کا الزام لگا دیا گیا، کمرہ عدالت میں شہباز گل کے بیان اور اینکر کے سوال سے متعلق ویڈیو چلائی گئی، شہباز گل اتنا پاگل تو نہیں وہ ملک کے خلاف بات کرے گا، ‏شہباز گل نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ بریگیڈیئر رینک سے نیچے والے اپنے جنرلز کی بات نہ مانیں۔

برہان معظم ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ پاگل نہیں ہیں، ایسی بات کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، ‏شہباز گل کی گفتگو میں نواز شریف اور مریم نواز مخاطب تھے، ان کے اسٹریٹجک میڈیا سیل کو کہا جاتا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف پروپیگنڈا کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست، مداخلت نہیں کر سکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ

دوران سماعت وکیل نے 15 منٹ کے وقفے کی استدعا کردی۔

شہباز گل کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران پی ٹی آئی رہنما اسد عمر، علی نواز اعوان، سیف اللہ نیازی ، صداقت عباسی بھی عدالت پہنچ گئے۔

دوران سماعت کمرہ عدالت میں بے پناہ رش کے باعث عدالت نے غیر متعلقہ افراد کو باہر نکالنے کا حکم دیا جس پر عدالتی اہلکار نے کہا کہ جب تک ضمانت کی آواز نہیں پڑ جاتی غیر متعلقہ افراد باہر چلے جائیں، عدالتی اہلکار کے حکم پر علی نواز اعوان، سیف اللہ نیازی، صداقت عباسی و دیگر کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔

شہباز گل کی درخواست ضمانت پر وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو ان کے وکیل نے کہا کہ طیارا حادثے میں ایک غلط ٹوئٹ کی گئی جس سے بعد میں پھیلا دیا گیا، اس میں شہباز گل کا کوئی قصور نہیں، ہمارے محافظوں پر ہماری جان بھی قربان ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز گل نے اس ٹوئٹ پر سزا کا مطالبہ کیا تھا، جس کو بغاوت کہا گیا وہ بغاوت ہے کہاں، شہباز گل ایک ایک پڑھا لکھا شخص ہے، 3 دفعہ یو ایس اے کا بیسٹ آف پروفیسر کا ایوارڈ ملا ہے۔

شہباز گل کے وکیل نے کہا کہ اگر ہمت ہے تو غداروں کو نکال باہر کریں، شہباز گل نے فوج کو ہمارے سر کا تاج کہا ہے، اسٹریٹجک سیل جس قسم کی مہم چلا رہا ہے ، الٹا ان کے گلے پڑے گا، جس طرح جنرل سرفراز اپنی قوم کے لیے باہر نکلا تھا، وہی عمران خان بھی تو کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عمران خان اور اس کی جماعت ان شہدا کے خلاف ہو، شہباز گل نے جو کہا وہ فوج کے خلاف نہیں تھا بلکہ ان کو بتانے کے لیے کہا تھا کہ دیکھو کیا ہو رہا ہے، سوشل میڈیا کے استعمال سے اس طرح کی مہم نہ چلائی جائے۔

وکیل نے کہا کہ ہمارا مطلب تو اسٹریٹجک میڈیا سیل تھا، آپ کیوں ان باتوں کو اپنی طرف لے رہے ہیں، بغاوت کا کوئی ایک فقرہ تو بتایا جائے، جس سے فوج کی تقسیم ہوتی ہو، اسٹریٹجک میڈیا سیل کے الٹے سیدھے کاموں کا مقصد فوج اور پی ٹی آئی کو لڑانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی کے بیان پر بات کی جائے تو وہ بغاوت میں نہیں آتی، شہباز گل اپنے بیان کی وضاحت دینا چاہتے ہیں اور اس موقع پر وکیل نے شہباز گل کا آفیشل ٹوئٹر عدالت کو دکھایا اور ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ کسی بھی جھوٹی خبر پر یقین نہ کریں۔

ملزم کے وکیل نے کہا کہ ٹوئٹس سے واضح ہے کہ انہوں نے فوج کے خلاف کوئی بیان جاری نہیں کیا، لیکن مسلم لیگ(ن) بضد ہے، شہباز گل نے ادارے کے خلاف بغاوت کی۔

وکیل نے کہا کہ انہوں نے فقروں کی بنیاد کو کیوں تبدیل کیا، وہ میرے مؤکل کی کہی ہوئی بات کو اپنے معنی کیسے دے سکتے ہیں۔

آسیہ بی بی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل نے کہا کہ آسیہ بی بی نے کہا کہ میں نے گستاخی نہیں مگر مدعی نے کہا کہ کی ہے، اب ان کے کہنے سے تو کیس نہیں بنتا، میرا مؤکل فوج کے ساتھ کھڑا تھا اور کھڑا ہے اور ان کا مقصد فوج کے وقار کو بڑھانا ہے۔

اسلام آباد ڈسٹرکٹ سیشن عدالت میں شہباز گل کی درخواست ضمانت پر ایک مرتبہ پھر وقفہ کیا گیا اور جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو شہباز گل کے وکیل برہان معظم نے دلائل کا دوبارہ آغاز کیا اور اسی دوران پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔

شہباز گل نے وکیل نے زیادہ وقت لینے پر معذرت کرتے ہوئے جب کہا کہ میں اس ماحول کا عادی نہیں معذرت چاہتا ہو وقت زیادہ لے گیا تو جج نے ریمارکس دیے کہ آج رش زیادہ اور اے سی بھی خراب ہے۔

وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 124 اے میں عمر قید سے لے کر تین سال اور جرمانہ کی سزا ہے، شہباز گل نے حکومت سے کہا آپ کے کچھ عمل نامناسب سمت جا رہے ہیں، کیا حکومت نے غلام مرتضی کے حوالے سے کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا۔

انہوں نے کہا کہ کیا حکومت نے بغاوت کا مقدمہ درج کرانے کے لیے کوئی حکم جاری کیا تھا۔

سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ضروری نہیں غیر متعلقہ مواد سوشل میڈیا پر پھینکیں، یہ کہاں کا قانون ہے کہ آپ کسی کو پکڑے اور پرائیوٹ پارٹس پر ٹارچر کریں، پرائیوٹ پارٹس پر تشدد کر کے شہباز گل کی زندگی سے کھیلا گیا۔

اس کے ساتھ ہی شہباز گل کے وکیل نے درخواست ضمانت پر دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا اغاز کر دیا۔

شہباز گل نے جو الفاظ استعمال کیے وہ کوئی نہیں کرسکتا، اسپیشل پراسیکیوٹر

اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا اغاز کرتے ہوئے کہا کہ مقدمے کے متن میں جو الفاظ ہیں وہ کبھی کسی نے استعمال نہیں کیے، ملزم نے بیوروکریسی کے متعلق الفاظ استعمال کیے۔

راجا رضوان عباسی نے کہا کہ بیوروکریسی حکومت کی مشینری ہوتی ہے، اس کو کہا گیا حکومت کا حکم نہ مانو، بیوروکریسی اگر حکومت کے کام نہیں کرےگی تو کون کرےگا۔

انہوں نے کہا کہ پاک آرمی کے افسران کے خلاف منظم طریقے سے ملزم نے بات کی، ملزم کے الفاظ نے پاک فوج میں بغاوت کی کوشش کی، ملزم نے پاک فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کی۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپاہی سے لے کر برگیڈئیر رینک تک افسران کے جذبات مجروح ہوئے، افسران کو حکم نہ ماننے کا کہنا ادارے میں بغاوت کی کوشش تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر کا مواد تمام امور کو دیکھ کر لکھا گیا، بغاوت واضح طور پر کی گئی ہے، قانون کے مطابق غداری کا کیس ثابت کرنے کے لیے مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے مختلف کیسز کے حوالے پیش کیے اور کہا کہ غداری کے قانون کے مطابق سزا میں کسی بھی طرح کی رعائت نہیں ہو سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اندرون اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ٹی وی پر بیٹھ کر گمراہ کیا گیا، ملزم کے الفاظ کسی بھی طرح قابل معافی نہیں۔

اسپیشل پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد عدالت نے شہباز گل کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کیا اور سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

عدالت نے حکم نامے میں بتایا کہ کل 11 بجے شہباز گل کی درخواست ضمانت پر محفوظ فیصلہ سنایا جائے گا۔

شہباز گِل کے خلاف مقدمہ

شہباز گِل کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، 109 (اکسانے)، 120 (قید کے قابل جرم کے ارتکاب کے لیے ڈیزائن چھپانے)، 121 (ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنا)، 124 اے(بغاوت) 131 (بغاوت پر اکسانا، یا کسی فوجی، بحری یا فضائیہ کو اپنی ڈیوٹی سے بہکانے کی کوشش کرنا)، 153 (فساد پر اکسانا)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 506 (مجرمانہ دھمکی کی سزا) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

شہباز گل کی گرفتاری کے ایک روز بعد اسلام آباد کچہری نے ڈاکٹر شہباز گِل کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت کا شہباز گل کو پمز ہسپتال بھیجنے اور دوبارہ میڈیکل کرانے کا حکم

دو دن بعد رہنما شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

پولیس نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی، اسے بھی ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے مسترد کر دیا تھا۔

16 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل کے دوبارہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سیشن جج کو اسے اسی دن سننے کا حکم دیا تھا۔

17 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست منظور کرلی تھی اور شہباز گل کو مزید 48 گھنٹوں کے لیے پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: شہباز گل پر مبینہ تشدد، اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی سے رپورٹ طلب کرلی

شہباز گل کو سانس لینے میں تکلیف کی شکایت کے بعد راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز (ڈی ایچ کیو) ہسپتال منتقل کرنے کے انتظامات کیے گئے تھے حالانکہ جیل حکام کو یقین تھا کہ ان کے پاس شہباز گل کے علاج کی سہولیات موجود ہیں۔

راولپنڈی پولیس کے ساتھ اس معاملے پر 2 گھنٹے طویل تعطل کے بعد اسلام آباد پولیس فورس بالآخر شہباز گل کو اپنی تحویل میں لینے میں کامیاب ہوگئی تھی اور انہیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا، بعد ازں پمز ہسپتال نے ان کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے ایک 5 رکنی بورڈ بھی تشکیل دے دیا تھا۔

19 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے شہباز گِل کے ریمانڈ میں توسیع کی اسلام آباد پولیس کی درخواست معطل کرتے ہوئے انہیں پمز ہسپتال بھیج دیا تھا اور دوبارہ میڈیکل کرا کر رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

22 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے مقدمے میں رہنما پاکستان تحریک انصاف کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا تھا۔

شہباز گل کا متنازع بیان

9 اگست کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔

مزید پڑھیں: شہباز گل کو تحویل میں لینے کے معاملے پر اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس کے درمیان رسہ کشی

اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل اڈیالہ جیل سے پمز ہسپتال اسلام آباد منتقل

شہباز گل نے کہا تھا کہ جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔

پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024