سیلاب متاثرین کے لیے فلاحی ادارے کیا کررہے ہیں اور انہیں کن چیزوں کی ضرورت ہے؟
حالیہ مون سون بارشوں نے ملک بھر میں تباہی مچادی ہے۔ بارشوں کے نہ تھمنے والے سلسلے نے سب سے پہلے صوبہ بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لیا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا۔ لوگوں کے مکانات گرگئے، سامان اور مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے جبکہ رابطہ سڑکیں اور پُل تباہ ہوگئے، غرض پہلے سے ہی پسماندہ صوبے کو مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔
جیسے جیسے بارشوں کا یہ سلسلہ طول پکڑتا رہا ویسے ویسے یہ تباہی ملک کے دیگر علاقوں میں پھیلتی رہی۔ دیکھتے ہی دیکھتے جنوبی پنجاب اور وسطی اور بالائی سندھ بھی سیلاب کی لپیٹ میں آگئے۔ گزشتہ ہفتے صوبہ خیبر پختونخوا میں ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں دریائے سوات اور کابل میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی اور وہ سیلاب اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز بہا کر لے گیا۔ اس حوالے سے سوات کے سیاحتی مقامات پر دریا کنارے بنی عمارتوں کے سیلاب کی نذر ہونے کی ویڈیوز دل دہلا دینے والی تھیں۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ملک کے چاروں صوبے سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا شکار ہیں۔ ملک کا شمالی اور جنوبی حصوں کا زمینی رابطہ یا تو منقطع ہے یا محدود ہے، لاکھوں لوگ اپنے گھر، مال مویشی اور روزگار سے محروم ہوچکے ہیں اور درد و غم کی تصویر بنے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ جس دوران ملک اس تباہی سے دوچار تھا اس وقت حکومت کی ترجیحات ہی کچھ اور تھیں۔ اس صورتحال میں ایک مرتبہ پھر پاکستان میں کام کرنے والی فلاحی تنظیموں نے آگے بڑھ کر سیلاب متاثرین کی مدد کی۔ ہمیں سوشل میڈیا پر ایسی بے شمار ویڈیوز اور تصاویر نظر آئیں جن میں فلاحی تنظیموں کے رضاکار انتہائی نامساعد حالات میں بھی متاثرین کی مدد کررہے تھے۔ بعض اوقات تو ایسا بھی محسوس ہوا کہ ریلیف کے کاموں میں فلاحی اداروں کی مدد حکومت کررہی ہی نہ کہ حکومت کی مدد یہ ادارے کریں۔
اس حوالے سے ڈان نے سیلاب متاثرین کی مدد کرنے والی اہم فلاحی تنظیوں کے نمائندوں سے بات کی اور ان سے دریافت کیا کہ وہ کس پیمانے پر سیلاب متاثرین کی مدد کررہے ہیں اور انہیں اس حوالے سے کن اشیا کی ضرورت ہے۔
ہم نے ان سے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ جو افراد انفرادی طور پر متاثرین کی امداد کرنا چاہیں تو کیا ان کے لیے ایسا کرنا مناسب ہوگا یا پھر انہیں کسی بڑی فلاحی تنظیم کے ساتھ مل کر فلاحی کام کرنا چاہیے۔
گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر یہ مہم بھی جاری ہے کہ جو لوگ سیلاب متاثرین کے لیے عطیات دے رہے ہیں وہ متاثرین میں شامل خواتین کی مشکلات اور ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سینیٹری پیڈز بھی عطیہ کریں۔ ہم نے فلاحی تنظیموں سے یہ سوال بھی کیا کہ وہ متاثرین کی امداد اور بحالی کا جو کام کررہے ہیں اس میں خواتین کی ضروریات کے حوالے سے کس قدر توجہ دی جارہی ہے؟
الخدمت فاؤنڈیشن
الخدمت کے میڈیا کوآرڈینیٹر شعیب ہاشمی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ:
’ملک میں 14 جون سے شروع ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے پہلے بلوچستان پھر جنوبی پنجاب اور سندھ متاثر ہوا جبکہ گزشتہ ہفتے خیبر پختونخوا کے کئی علاقے بھی سیلاب سے متاثر ہوئے۔ الخدمت فاؤنڈیشن پہلے دن سے ہی متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کا کام کررہی ہے۔
ریسکیو کے لیے ہمارے پاس کشتیاں موجود ہیں جن کی مدد سے ہم نے لوگوں کو ان کے گھروں سے، ٹوٹے ہوئے گھروں کی چھتوں سے اور یہاں تک کہ درختوں سے بھی ریسکیو کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو کئی کئی گھنٹوں سے بھوکے پیاسے موجود تھے۔
گزشتہ دنوں ہم جنوبی پنجاب میں ریسکیو آپریشن میں مصروف تھے، اسی دوران ایک فون آیا کہ فلاں جگہ کسی مکان سے سامان نکالنا ہے۔ ہم نے جواب دیا کہ کشتی کے ذریعے کتنا سامان نکلے گا؟ اور پھر کشتی کے ذریعے انسانوں کو ریسکیو کیا جائے یا سامان نکالیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ کسی صاحب نے اپنی بیٹی کا جہیز بنا کر رکھا ہے اور وہ پریشان ہیں کہ اگر پانی وہاں تک پہنچ گیا تو انہوں نے عمر بھر کی جمع پونجی سے جو جہیز بنایا ہے وہ خراب ہوجائے گا۔ اس وجہ سے ہمارے رضاکاروں نے کشتی کے ذریعے وہ سامان نکالا جس پر ان صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔
ہماری دوسری ترجیح یہ تھی کہ جن لوگوں کے گھر ٹوٹ گئے ہیں اور سامان بہہ گیا ہے ان کو پکا پکایا کھانا فراہم کیا جائے۔ جو لوگ خود کھانا پکاسکتے ہیں انہیں ہم راشن بھی فراہم کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے سر چھپانے کے لیے ہم نے متاثرین میں خیمے اور ترپالیں تقسیم کی ہیں۔ یہاں خیمہ بستیاں لگانے میں بھی کچھ مشکلات پیش آئیں کیونکہ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے کچھ مقامات پر 2 قبائل نے ایک ساتھ رہنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے ہمیں ان قبائل کو ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر آباد کرنا پڑا۔
لوگوں کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں خیمہ دیا جائے کیونکہ وہ اپنے گھر کے پاس ہی رہنا چاہتے ہیں۔ ترپال بھی ایک مفید چیز ہے کیونکہ یہ پانی روک لیتی ہے اور اسے بطور چھت بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جب خیموں کی قلت کا سامنا ہوا تو ترپالوں سے ہی خیمے بنائے گئے۔
الخدمت متاثرہ علاقوں میں 90 سے زائد میڈیکل کیمپ لگا چکی ہے۔ اس میں ہم نے یہ بھی کوشش کی کہ جہاں جہاں ممکن ہو وہاں میڈیکل کیمپوں میں خواتین ڈاکٹر بھی موجود ہوں۔ ایک میڈیکل کیمپ میں روزانہ 300 مریضوں کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر وبائی امراض کے پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر مریضوں کی اسکریننگ بھی کی جاتی ہے اور انہیں ادوایات بھی دی جاتی ہیں۔ ہمارے رضاکار تقریباً تمام متاثرہ علاقوں میں کم یا زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔ بڑے پیمانے پر تباہی کی وجہ سے ہم نے کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو دیگر اداروں کے ساتھ بھی مل کر کام کیا جائے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ جب بڑے شہروں سے لوگ یا پھر چھوٹے ادارے امدادی سامان کا ٹرک لے کر متاثرہ علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو جتھے کی صورت میں اس پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب آپ خیمے یا ترپالیں بانٹتے ہیں تو آپ کو سڑک پر کچھ متاثرین نظر آتے ہیں جن پر ترس کھا کر آپ انہیں خیمے دے دیتے ہیں۔ دوسری جانب الخدمت کی ٹیمیں چونکہ گراؤنڈ پر موجود ہوتی ہیں اس وجہ سے ہمیں لوگوں کی تصدیق کرنے اور ضرورت مندوں کی فہرستیں مرتب کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
جب لوگ انتہائی دُور دراز علاقوں سے اٹھ کر کسی محفوظ مقام پر آتے ہیں تو اس میں کسی طرح کی بدانتظامی کا شائبہ موجود ہوتا ہے لیکن اس سے بچنے کے لیے بھی ہم نے ایک طریقہ کار اختیار کیا ہوا ہے۔ ہم لوگوں کو امدادی سامان تقسیم کرکے واپس نہیں آجاتے بلکہ اس پر نگرانی رکھتے ہیں اور ہم پورے خاندانوں یا دیہاتوں کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ اس وقت جام پور میں ہم نے 50 خیموں کی ایک خیمہ بستی بسائی ہے جہاں خوراک، صحت اور دیگر تمام ضروریات کا خیال رکھا جارہا ہے۔ اسی طرح آئندہ ایسی کئی بستیاں دیگر علاقوں میں لگانے کا بھی سوچ رہے ہیں۔
اس وقت الخدمت کو خیموں اور ترپالوں کی اشد ضرورت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس سیلاب سے 3 کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں جن کے لیے خیموں کی ضرورت ہے۔ ابھی الخدمت کو 20 ہزار خیمے ملے ہیں اور الخدمت نے 8 ہزار ترپالوں کا آرڈر دے دیا ہے، وہ آنی بھی شروع ہوگئی ہیں اور ساتھ ہی تقسیم بھی ہورہی ہیں۔ اس کے علاوہ خوراک اور پینے کے پانی کی بھی ضرورت ہے۔
خواتین کی ضروریات کے حوالے سے بھی کچھ دوستوں نے ہم سے رابطہ کیا کہ وہ اس مد میں کام کرنا چاہتے ہیں تو ہم سینیٹری پیڈز بھی اپنے امدادی پیکچز میں شامل کریں۔ یہاں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ اکثر متاثرہ علاقوں میں ان پیڈز کے حوالے سے آگہی ہی نہیں ہے۔ ہم نے ایک کیمپ میں جب خواتین میں سینیٹری پیڈز تقسیم کیے تو خواتین نے جواب دیا کہ ہمیں بچوں کے ڈائپر کی ضرورت نہیں ہمیں بس راشن دے دیں۔ یعنی انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ کیا چیز ہے اور اس کا استعمال کیا ہے۔
یہ سماجی اور ثقافتی اعتبار سے کچھ مشکل ضرور ہے لیکن الخدمت اس بارے میں کام کرنا چاہے گی۔ اس حوالے امید ہے کہ اگلے ایک دو دنوں میں الخدمت کا خواتین ونگ اس حوالے سے باقاعدہ کام کرنا شروع کردے گا اور متاثرین کو جو ہائی جین کٹ فراہم کی جارہی ہے اس میں یہ پیڈز بھی شامل کیے جائیں گے تاکہ خواتین کو سہولت مل سکے۔
متاثرین کو جو راشن فراہم کیا جارہا ہے وہ ایک یا دو ہفتے استعمال کا ہے۔ ان میں آٹا، چاول، دالیں، مصالحہ جات، چینی، چائے، گھی اور تیل شامل ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو 5 سے 6 افراد کا خاندان ایک سے دو ہفتے تک استعمال کرسکتے ہیں۔
جہاں تک چھوٹی تنظیموں اور انفرادی طور پر فلاحی کام کرنے کا سوال ہے تو یہ خوش آئند بات ہے کہ لوگوں میں دوسروں کی مدد کا جذبہ ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ دیگر تنظیموں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے کام کریں خاص طور پر وہ تنظیمیں جو زمینی حقائق سے واقف ہیں اور کام کررہی ہوں۔‘
بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ
بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ کے میڈیا کوآرڈینیٹر حذیفہ رفیق نے بتایا کہ:
’بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ اس وقت ملک کے چاروں صوبوں میں ریلیف کا کام کررہی ہے۔
بلوچستان میں ہم بیلہ، اوتھل، لاکھڑا، اواران، خضدار، نوشکی، جھل مگسی، قلات، قلعہ عبداللہ اور سوراب،
سندھ میں قمبر شہداد کوٹ، ٹنڈو آدم، شہدادپور، نوشہرو فیروز، بھریا سٹی، مہراب پور، مورو، میھڑ، دادو، جوہی، سیہون، جامشورو اور لاڑکانہ،
پنجاب میں تونسہ، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور
خیبر پختونخوا میں کالام، سوات، ڈیرہ اسمٰعیل خان، نوشہرہ، چارسدہ، کوہستان اور ٹانک میں کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ بیت السلام نے گلگت بلتستان میں بھی کام کا آغاز کردیا ہے۔
بیت السلام ریلیف کے کاموں پر اب تک 40 کروڑ روپے خرچ کرچکی ہے جبکہ اس مد میں ہمارا کُل بجٹ ایک ارب روپے کا ہے۔ اب تک ہم متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کے 80 کے قریب کنٹینر پہنچا چکے ہیں۔
ملک بھر میں بیت السلام کے 350 بنیادی تعلیمی مراکز موجود ہیں اور ہم انہی کو بنیاد بناکر فلاحی کام انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی ہم نے کورونا وبا کے دوران انہیں ہی بنیاد بناکر کام کیا تھا۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں ہم نے 50 سے زائد ریلیف کیمپ لگائے ہیں جن میں لوگ آکر امدادی اشیا عطیہ کررہے ہیں۔ ہم نے 12 مختلف شعبوں میں کام کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے جن میں خوراک، رہائش، صحت، تعلیم، صاف پانی کی فراہمی، روزگار اور سماجی تحفظ شامل ہے۔
پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ بیت السلام کی امتیازی خصوصیت اس کے 350 سے زائد تعلیمی مراکز ہیں جن کو بنیاد بناکر ہم اپنی فلاحی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس وقت بھی ہمارے تقریباً 800 رضاکار فیلڈ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ذمہ داران مقامی حالات سے واقف ہوتے ہیں اور ضرورت مند خاندانوں کو شناخت کرچکے ہوتے ہیں جس سے ہمارے لیے اصل مستحق تک پہنچنا آسان ہوتا ہے۔
ان چند خصوصیات کی وجہ سے عوام کو چاہیے کہ متاثرین کی مدد کے لیے کسی معتبر ادارے کے ساتھ تعاون کریں تاکہ امداد بہتر جگہ پہنچے۔ اگر کوئی اپنے طور پر امداد تقسیم کرنے کی کوشش کرے گا تو اوّل وہ اصل مقام تک پہنچ ہی نہیں پائے گا۔ اس کے علاوہ اس کے لیے حقیقی مستحق کی شناخت بھی مشکل ہوگی جس کے نتیجے میں ایسے افراد کو بھی امداد چلی جائے گی جو اس کے مستحق نہیں ہوں گے۔
جہاں تک درکار اشیا کا سوال ہے تو ہمارے راشن ہیمپرز میں دالیں، آٹا، چاول، مصالحہ جات، خشک دودھ، بسکٹ اور دیگر اشیا شامل ہیں۔ جہاں بھی ہم خیمہ بستی قائم کرتے ہیں وہاں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم وہاں ایک سے 2 ماہ کا راشن پہنچادیں تاکہ وہ بستی یہ عرصہ گزار لے اور پھر ہم طویل مدتی منصوبے لے کر ان کے پاس جا رہے ہوں۔ اس کے علاوہ ہم راشن ہیمپرز کے ذریعے اور امدادی کیپموں کے ذریعے خواتین کی خصوصی ضروریات کے حوالے سے درکار اشیا کی فراہمی کی کوشش بھی کررہے ہیں۔‘
جعفریہ ڈیزاسٹر سیل (جے ڈی سی)
جے ڈی سی کے جنرل سیکرٹری ظفر عباس نے اپنے ادارے کی کارکردگی سے متعلق بتایا کہ:
’ہماری تنظیم اس وقت بہت بڑے پیمانے پر اور پہلے دن سے کام کررہی ہے۔ ہم نے ہی چیلنج کیا تھا کہ 16 لاکھ گھر بہہ گئے ہیں اور ہماری اس ویڈیو کے بعد ہی میڈیا کی توجہ اس جانب گئی تھی۔ اس وقت ہم نے مختلف جگہوں پر کچن بنائے ہوئے ہیں اور لوگوں میں پکا ہوا کھانا تقسیم کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے خیمہ بستی بھی بنانی شروع کردی ہے۔ پہلی بستی پنوں عاقل میں مکمل ہوگئی ہے اور ہم دوسری پر کام کررہے ہیں۔
اس کے علاوہ ہم نے کراچی سے بڑے پیمانے پر راشن کا سامان بھیجنا شروع کردیا ہے۔ ہماری بنیادی کوشش ہے کہ ہم جتنا جلدی ہوسکے لوگوں تک کھانا پہنچا سکیں تاکہ وہ زندہ تو رہیں۔ ہمارے اس پورے آپریشن میں کروڑوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ لوگ ہمیں سامان بھی مہیا کررہے ہیں اور نقد کی صورت میں بھی مدد کررہے ہیں جبکہ ہم اپنے طور پر بھی اس میں حصہ ڈال رہے ہیں۔
یہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بغیر تحقیق کیے اور اپنے طور پر سب کچھ بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ابھی دو چار دن پہلے کچھ فیمیلز ہمارے دفتر سامان لیکر آئیں جس میں دالیں اور تیل شامل تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ کیوں لائی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ فلاں سوشل ورکر کی ویڈیو میں ہم نے دیکھا تھا۔ میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ بہن وہاں تو پانی ہی پانی ہے۔ اگر ہم یہ سامان وہاں لے بھی گئے تو کوئی کھانا پکائے گا کیسے؟ وہاں لوگ خود کو اور اپنے بچوں کو بچائیں یا یہ کام کریں؟ اس لیے آپ یہ سامان واپس لے جائیں اور اگر آپ نے مدد کرنی ہے تو بسکٹ، دودھ، جوس یا پانی دے دیں۔
میں نے انہیں بھی سمجھایا اور باقی لوگوں کے لیے بھی یہ مشورہ ہے کہ جو لوگ اس وقت فیلڈ میں موجود ہیں صرف ان کی اپیل پر غور کریں کیونکہ بہت سارے تو محض سوشل میڈیا اور ٹی وی تک ہی سوشل ورکر ہوتے ہیں اور ایسے تمام افراد کو سوچنا چاہیے کہ اس مشکل کی گھڑی میں لوگوں کو گمراہ نہ کریں۔
اگر اس وقت لوگوں کو خشک دودھ، ٹیٹرا پیک دودھ اور جوس، پانی، بسکٹ یا بھنا ہوا چنا پہنچا دیں تو وہ اس مشکل وقت میں ایک ہفتہ گزار سکتے ہیں۔ میں کیوں کہوں کہ آپ ہمیں 300 کے سامان کے بجائے 9 ہزار کا راشن ہی دیں، نہیں، میں گمراہ نہیں کروں گا اور ہمیں اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے ہم اسی کی اپیل کریں گے
یہاں سب سے بڑا مسئلہ خواتین کا ہے اور جب ہم نے ان کے سامان سے متعلق اپیل کی تو لوگوں نے بڑی تعداد میں ہمارے دفتر سینیٹری پیڈز پہنچا دیے اور اب ہم دیگر سامان کے ساتھ اسے بھی روانہ کررہے ہیں باقاعدہ نشانی کے ساتھ۔‘
اخوت فاؤنڈیشن
اخوت فاؤنڈیشن کے ترجمان ابوبکر کا کہنا تھا کہ:
’ملک میں جہاں جہاں سیلاب آیا ہے اخوت ان تمام مقامات پر ریلیف کا کام کررہی ہے۔ اخوت سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے سرگرم ہے اور اب خیبر پختونخوا میں بھی امدادی کارروائیاں شروع کی جارہی ہیں۔ اخوت کے فنڈز کا تمام تر دارو مدار اس کے معاونین یا ڈونرز پر ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے ڈونرز سے فنڈز کی اپیل کی ہے اور جیسے جیسے یہ فنڈز آتے جائیں گے ویسے ویسے اخوت بھی اپنا دائرہ کار بڑھاتی جائے گی۔
اخوت فاؤنڈیشن ایک منظم ادارہ ہے جس کے ملک بھر میں 850 سے زائد دفاتر موجود ہیں۔ ریلیف کے کاموں کے لیے بھی ہمارا ایک طریقہ کار ہے جس کے تحت جب بھی کوئی مقامی فرد، این جی او یا نمائندے ہم سے رابطہ کرتے ہیں تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنی کمیونٹی کے ایک کاغذ پر تمام ضرورت مندوں کے نام اور ان کے ٹیلی فون نمبر ہمیں بھیجیں۔ یہ معلومات حاصل کرنے کے بعد ہماری مقامی ٹیم اس جگہ پہنچ کر تمام ضرورت مندوں کی فرداً فرداً تصدیق کرتی ہے۔ ہمارا یہ نظام آج کا نہیں ہے بلکہ ہم نے کورونا وبا کے دوران بھی اس نظام کو اختیار کیا تھا۔
اخوت فاؤنڈیشن 2 مراحل میں کام کرتی ہے۔ پہلا مرحلہ ریلیف اور ریسکیو کا تھا جس میں ہم نے لوگوں کو پکا پکایا کھانا فراہم کیا، راشن فراہم کیا اور جہاں ہم کسی وجہ سے نہیں پہنچ پارہے تھے اور وہاں موبائل نیٹ ورک موجود تھا تو وہاں ہم نے ایزی پیسہ کے ذریعے فی خاندان 3 سے 4 ہزار روپے بھی لوگوں کو فراہم کیے۔ وہ علاقے جہاں نیٹ ورک موجود نہیں تھا وہاں ہمارے اراکین نے خود جاکر لوگوں تک یہ رقم پہنچائی۔ یہ ہمارا پہلا مرحلہ ہے جو ابھی جاری ہے اور ہم امید کررہے ہیں کہ ہم جلد ہی اپنے دوسرے مرحلے یعنی بحالی کے مرحلے میں داخل ہوجائیں گے۔
دوسرے مرحلے میں ہماری کوشش ہوگی کہ متاثرین کو اوسطاً ڈیڑھ لاکھ روپے قرض حسنہ کے طور پر دیے جائیں جس سے وہ اپنے گھروں کی تعمیر یا مرمت کرسکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے گزشتہ دنوں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا جہاں متاثرین نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پانی اترنے کے بعد وہ اپنے علاقوں میں واپس جانا چاہیں گے۔ اب ظاہر ہے کہ ان میں سے جن کے گھر کچے تھے وہ بالکل تباہ ہوچکے ہوں گے اور اینٹوں کے بنے گھر بھی قابلِ رہائش نہیں ہوں گے۔ اس حوالے سے لوگوں کو جو قرض حسنہ دیا جائے گا وہ آسان اقساط پر مبنی ہوگا جسے لوگ 3 سے ساڑھے 3 سال میں واپس کریں گے۔ اس حوالے سے جن متاثرین سے بات کی گئی ان سب نے یہی کہا کہ ہماری عزتِ نفس بھی یہی تقاضہ کرتی ہے کہ ہم آپ سے امداد کی جگہ قرض حسنہ لیں اور ہم یہ قرض بروقت واپس کریں گے۔
اخوت فاؤنڈیشن جن مدات میں ریلیف کا کام کرتی ہے اس حساب سے ہم راشن سے زیادہ نقد عطیات جمع کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ہم لوگوں سے یہی کہتے ہیں کہ آپ متاثرین کی مدد کرتے ہوئے مرد و خواتین کی خصوصی ضروریات کا خیال رکھیں اور اس حوالے درکار اشیا بھی ضرور عطیہ کریں۔‘
فہیم پٹیل ڈان کے بلاگز ایڈیٹر ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔ آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@
فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔عمید فاروقی ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔