شہباز گل کی درخواستِ ضمانت پر سماعت پیر تک ملتوی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کے خلاف اداروں میں بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے مقدمے کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو نجی نیوز چینل ’اے آر وائی‘ پر متنازع بیان دینے کے بعد اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لیا تھا۔
دو روز قبل شہباز گل نے ضمانت کے لیے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر گزشتہ روز ایڈیشنل سیشن طاہر عباس سپرا نے سماعت کی تھی اور پولیس کو آج ریکارڈ ہر صورت پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے آج پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی درخواست ضمانت پر دوبارہ سماعت کی لیکن پولیس نے آج بھی عدالت میں ریکارڈ پیش کرنے سے معزرت کی۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گل کی ضمانت کیلئے درخواست، عدالت کا پولیس کو ریکارڈ پیش کرنے کا حکم
دوران سماعت ایڈیشنل سیشن جج طاہر محمود سپرا نے تفتیشی افسر سے متعلق استفسار کیا، پولیس حکام نے جواب دیا کہ تفتیشی افسر سے رابطہ ہوا تھا لیکن ابھی وہ پہنچے نہیں ہیں۔
عدالت نے پولیس حکام سے کہا کہ تفتیشی سے رابطہ کریں اور پھر عدالت کو آگاہ کریں، پولیس نے بتایا کہ تفتیشی افسر کا فون بند ہے اور ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو رہا۔
اس دوران پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ ابھی ریکارڈ پیش ہو بھی جائے تو میں دلائل نہیں دے سکتا، مجھے بھی ریکارڈ دیکھنا ہے، میری بھی ابھی تیاری نہیں ہے لہٰذا کیس کی سماعت پیر کو رکھ لی جائے۔
شہباز گل کے وکیل نے کہا کہ یہ بہت زیادتی کی بات ہے کہ پولیس مسلسل تاخیر کر رہی ہے، اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ پولیس کو پھر آخری موقع دے دیتے ہیں۔
بعدازاں عدالت نے ریکارڈ پیش نہ ہونے پر کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
جسمانی ریمانڈ کے خلاف اپیل خارج کرنے کا فیصلہ چیلنج
دریں اثنا شہباز گل نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ کے خلاف اپیل خارج کرنے کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
علاوہ ازیں شہباز گل نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ کے لیے حکومت کی اپیل منظور کرنے کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
سپریم کورٹ میں دائر اپیلوں میں ایڈشنل سیشن جج، وفاق اور ایس ایس پی انویسٹیگیشن کو فریق بنایا گیا۔
مذکورہ اپیل میں آئی جی اسلام آباد، ایس ایچ او تھانہ کوہسار اور بیرسٹر غلام مصطفٰی چانڈیو کو بھی فریق بنایا گیا۔
مزید پڑھیں: بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ: شہباز گل نے درخواست ضمانت دائر کردی
اپیل میں استدعا کی گئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا جسمانی ریمانڈ کے خلاف اپیل خارج کرنے کا فیصلہ اور سیشن جج زیبا چوہدری کی جانب سے شہباز گل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دیا جائے۔
اپیل میں شہباز گل کے خلاف 12 اگست کے بعد کی تمام تحقیقات اور شواہد کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی اور بنیادی حقوق کے خلاف قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں شہباز گل پر تشدد کی انکوائری کے لیے آزاد اور غیر جانبدار میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی استدعا بھی کی گئی۔
شہباز گِل کے خلاف مقدمہ
شہباز گِل کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، 109 (اکسانے)، 120 (قید کے قابل جرم کے ارتکاب کے لیے ڈیزائن چھپانے)، 121 (ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنا)، 124 اے(بغاوت) 131 (بغاوت پر اکسانا، یا کسی فوجی، بحری یا فضائیہ کو اپنی ڈیوٹی سے بہکانے کی کوشش کرنا)، 153 (فساد پر اکسانا)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 506 (مجرمانہ دھمکی کی سزا) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
شہباز گل کی گرفتاری کے ایک روز بعد اسلام آباد کچہری نے ڈاکٹر شہباز گِل کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
دو دن بعد رہنما شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بغاوت کا کیس: شہباز گل کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
پولیس نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی، اسے بھی ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے مسترد کر دیا تھا۔
16 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل کے دوبارہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سیشن جج کو اسے آج ہی سننے کا حکم دیا تھا۔
17 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست منظور کرلی تھی اور شہباز گل کو مزید 48 گھنٹوں کے لیے پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شہباز گل کو سانس لینے میں تکلیف کی شکایت کے بعد راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز (ڈی ایچ کیو) ہسپتال منتقل کرنے کے انتظامات کیے گئے تھے حالانکہ جیل حکام کو یقین تھا کہ ان کے پاس شہباز گل کے علاج کی سہولیات موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: عدالت کا شہباز گل کو پمز ہسپتال بھیجنے اور دوبارہ میڈیکل کرانے کا حکم
راولپنڈی پولیس کے ساتھ اس معاملے پر 2 گھنٹے طویل تعطل کے بعد اسلام آباد پولیس فورس بالآخر شہباز گل کو اپنی تحویل میں لینے میں کامیاب ہوگئی تھی اور انہیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا، بعد ازں پمز ہسپتال نے ان کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے ایک 5 رکنی بورڈ بھی تشکیل دے دیا تھا۔
19 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے شہباز گِل کے ریمانڈ میں توسیع کی اسلام آباد پولیس کی درخواست معطل کرتے ہوئے انہیں پمز ہسپتال بھیج دیا تھا اور دوبارہ میڈیکل کرا کر رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
22 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے مقدمے میں رہنما پاکستان تحریک انصاف کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا تھا۔
شہباز گل کا متنازع بیان
9 اگست کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔
اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گل کو اسلام آباد کے بنی گالا چوک سے ’اغوا‘ کیا گیا، پی ٹی آئی رہنماؤں کا دعویٰ
انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔
شہباز گل نے کہا تھا کہ جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔
پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔