اس روز عمران صاحب کے چہرے پر عجیب تکلیف کے آثار تھے اور وہ انتہائی تھکے اور مایوس انداز میں تقریباً بلبلاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ اپنے سینیئر ساتھی کی پریشانی نے کچھ ایسا اثر ڈالا کہ میں نے بغیر مانگے ہی پانی کا گلاس سامنے رکھ دیا۔
کہنے لگے اللہ اللہ کرکے بجلی کا پچھلا بل مانگ تانگ کر ادا کیا تھا کہ یہ ایک نیا بل آگیا ہے۔ پورے گھر میں ہم نے بجلی کی اس قدر بچت کی کوشش کی تھی کہ شاید ہی کوئی غیر ضروری پنکھا یا لائٹ چلا ہو، اور پھر 6، 6 گھنٹے لوڈ شیڈنگ میں کون سی بجلی استعمال ہوئی۔ بجلی کے یونٹ بھی پچھلے ماہ سے کم رہے لیکن بل تقریباً 50 فیصد زیادہ ہے۔
عمران صاحب نے پوری کہانی ایک ہی سانس میں بیان کردی۔ میں خاموشی سے ان کے چہرے کے کرب کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سوچ بھی بس یہی تھی کہ اب یہ بجلی کا بل کیسے ادا کریں گے؟ چند لمحے توقف کے بعد عمران صاحب نے کہا کہ دفتر سے 2 گھنٹے کی چھٹی لے کر بجلی کی تقسیم کار کمپنی کے دفتر جاتا ہوں شاید انہوں نے غلط بل بھیج دیا ہو اور میری نشاندہی پر درست کردیں۔
میں نے فوری کہا کہ بل تو دکھائیں۔ غور سے دیکھنے پر اندازہ ہوا کہ بل تو بالکل ٹھیک ہے۔ نہ ہی کوئی پچھلے ماہ کے بقایاجات ہیں اور نہ ہی عمران صاحب کو میٹر ریڈنگ کے غلط ہونے کا اندیشہ ہے۔ بل پر میٹر ریڈنگ کا عکس موجود ہے جس کی درستگی کی تصدیق عمران صاحب کرچکے ہیں۔ مشورہ اب بس یہی تھا کہ بجلی دفتر کے باہر لائن میں لگ کر وقت ضائع نہ کریں بلکہ بل ادا کیسے ہوگا اس کے بارے میں سوچیں۔
یہ قصہ صرف کراچی کے عمران احمد کا نہیں ہے بلکہ بلا تفریق کراچی سے خیبر تک سب ہی بجلی کے اضافی بلوں سے پریشان ہیں۔ لیکن یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا بجلی کی قیمت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے؟ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، ٹیکس، سیلز ٹیکس، ایک اور مرتبہ سیلز ٹیکس اور بار بار ٹیکس یہ سب ہے کیا؟ کس نے کیا اور کب تک ایسا ہی ہوگا؟ پھر یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ اپریل اور مئی کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز اگست کے بل میں کیوں ادا کریں؟ سوشل میڈیا پر تو یہاں تک میم بن گئی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ 2 ماہ پہلے جس سے سموسہ خرید کر کھایا تھا وہ گھر کا دروازہ بجا کر خوردنی تیل کی قیمت میں اضافے کے سبب پچھلے سموسے کی قیمت میں اضافہ کرتے ہوئے مزید پیسوں کا تقاضہ کردے۔
بہت سے جواب طلب سوالات ہیں جنہیں سمجھنا مہنگائی کی تکلیف تو شاید کم نہ کرے لیکن بجلی والوں کے دفتر کے باہر لائن میں گھنٹوں کھڑے رہنے اور خون جلانے سے ضرور بچا لے گا۔
ایک ہی شہر میں یونٹ کی اوسط قیمت علیحدہ کیوں ہے؟
میرے پاس کراچی کے 2 ماہ کے 2 مختلف گھریلو صارفین کے بل ہیں۔ پہلے صارف کے پچھلے ماہ کے بل کی مجموعی رقم کو استعمال شدہ 355 یونٹس سے تقسیم کیا جائے تو گزشتہ ماہ 27 روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت تھی۔ اگست میں گزشتہ ماہ سے 112 یونٹس کم استعمال ہوئے لیکن فی یونٹ قیمت 48 روپے رہی۔
اسی طرح دوسرے بل کے مطابق صارف نے گزشتہ ماہ 536 یونٹس استعمال کیے تھے جس کی اوسط فی یونٹ قیمت 27 روپے تھی جبکہ اگست میں 514 یونٹس استعمال ہوئے اور اوسط فی یونٹ قیمت 42 روپے تھی۔
واضح رہے کہ اوسط فی یونٹ قیمت سے مراد یہ ہے کہ اس رقم کو مجموعی استعمال شدہ یونٹس سے تقسیم کیا گیا ہے جو تمام تر ٹیکس اور دیگر چارجز لاگو ہونے کے بعد وہ رقم ہے جو صارف نے ادا کرنی ہوتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس صارف نے کم یونٹس استعمال کیے اس نے زیادہ یونٹس استعمال کرنے والے کے مقابلے میں فی یونٹ اوسط قیمت زیادہ کیوں ادا کی حالانکہ عام فہم تو یہی بات ہے کہ زیادہ بجلی استعمال کرنے کا مطلب ہے کہ فی یونٹ قیمت بھی زیادہ ہو، تو پھر یہاں فرق کیسا؟
جواب بھی بل کے مندرجات میں موجود ہے جسے کچھ محنت سے سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ کے الیکٹرک کے بل پر درج ویب سائٹ لنک پر ایک ایک تفصیل موجود ہے۔
صارف کے لیے نرخ نامے کا تعین مختلف بنیادوں پر ہوتا ہے۔ جیسے گھریلو یا کاروباری صارف کے لیے فی یونٹ بجلی کی قیمت سے لے کر ٹیکس کا تعین علیحدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ گھریلو صارف کو کتنے میگاواٹ لوڈ کی منظوری دی گئی ہے وہ بھی اہم ہے۔ لوڈ کا تعین بجلی کی تقسیم کار کمپنی نیپرا کے قواعد کے مطابق صارف کی ضرورت اور جس جگہ پر میٹر نصب کیا جا رہا ہے اس کی پیمائش، رہائشی کمروں سمیت نصب شدہ برقی آلات کے لوڈ کے مطابق مقرر کردہ فارمولے کے مطابق کرے گی۔
5 کلو واٹ سے کم لوڈ پر ‘سلیب سسٹم’ نافذ ہوتا ہے اور 4 کلو واٹ کے بعد ‘ٹائم آف یوز’ کی بنیاد پر نرخ نامہ ترتیب دیا جاتا ہے۔ آسانی سے یوں سمجھ لیں کہ پہلا صارف جس نے کم یونٹ استعمال کیے اور زیادہ فی یونٹ قیمت ادا کی اس کے گھر کا لوڈ 5 کلو واٹ تھا اور دوسرا صارف جس نے زیادہ یونٹ استعمال کیے اور فی یونٹ قیمت کم ادا کی اس کے گھر کا منظور شدہ لوڈ 3 کلو واٹ تھا۔
منظور شدہ لوڈ کے اس فرق کا مجموعی بل پر فرق ہمیشہ رہتا ہے کیونکہ نیپرا کے قواعد کے مطابق لوڈ کے مطابق صارف کی نوعیت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ایک خاص حد پر پہنچ کر ٹائم آف یوز والے صارف کو بجلی سستی اور سلیب والے کو مہنگی ملتی ہے۔ یہ سارا جمع خرچ پھر کسی وقت لیکن اس فرق کو بلنگ کی غلطی نہ سمجھیں۔
بجلی کی قیمت کا تعین کون اور کس اختیار کے ساتھ کرتا ہے؟
1997ء میں پاکستان میں بجلی کی پیداوار اور ترسیل کی نگرانی کے لیے نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی یعنی ‘نیپرا’ کا قیام عمل میں آیا۔ اس اتھارٹی کے قیام کا مقصد پاکستان میں بجلی کی پیداوار اور ترسیل سے متعلق امور کو شفاف اور مضبوط کاروباری بنیاد پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی تقسیم و پیداواری نظام کو بہتر بنانے جیسے امور شامل تھے۔ اس سے پہلے یہ کام واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی یعنی واپڈا کے ذمے تھا۔ نیپرا نے بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے نظام کو علیحدہ کردیا جو اس سے پہلے واپڈا میں ایک ساتھ ہی کام کرتا تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ پہلے بجلی بنانا اور پھر فروخت کرنا ایک ہی ادارے کی ذمہ داری تھی۔
نیپرا کے قیام کے بعد پیداوار اور تقسیم کے لیے علیحدہ کمپنیاں بنادی گئیں۔ بجلی کی تقسیم کی کمپنیوں کو ایکس واپڈا ڈسکوز کا نام دیا گیا اور لائسنس جاری کیے گئے۔ اسی طرح پیداوار کے لیے کیٹیگری کی بنیاد پر لائسنس کا اجرا ہوا جیسا کہ سرکاری پاور ہاؤسز کو جینکوز کا نام دیا گیا جبکہ آئی پی پی اور نوعیت کے حساب سے دیگر لائسنس جاری کیے گئے۔ کے الیکٹرک قیامِ پاکستان سے پہلے سے ہی علیحدہ انتظامی یونٹ کی حیثیت سے کام کر رہی تھی۔ نیپرا کے قیام کے بعد بھی کے الیکٹرک (اُس وقت کے ای ایس سی) کی پرانی حیثیت یعنی بجلی کی پیداوار، تقسیم و ترسیل کو ایک ہی چھتری تلے رکھا گیا۔
اس وقت پاکستان میں کے الیکٹرک کے علاوہ 10 کمپنیاں بجلی کی تقسیم کا کام کر رہی ہیں۔ کے الیکٹرک اور دیگر تقسیم کار کمپنیوں نے کس قیمت پر بجلی فروخت کرنی ہے اس کا تعین نیپرا نے کرنا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ بجلی کا بل کس نے کتنا ادا کرنا ہے یہ فیصلہ نیپرا کے ذمے ہے۔ اگر کسی تقسیم کار کمپنی نے کسی مد میں اضافی رقم وصول کرنی ہے تو وہ بھی نیپرا ہی طے کرے گا کیونکہ تقسیم کار کمپنی از خود کسی بھی رقم کی وصولی کا اختیار نہیں رکھتی ہیں۔
بجلی کی قیمت میں اضافے کا تعین کیسے ہوتا ہے؟
نیپرا 2 حصوں میں بجلی کی قیمت کا تعین کرتا ہے۔ ایک تو سرکاری تقسیم کار کمپنیوں کے لیے اور دوسرا کے الیکٹرک کے لیے۔ ان دونوں کوعلیحدہ کرنے کی واضح وجہ یہ ہے کہ کے الیکٹرک کے علاوہ باقی تقسیم کار کمپنیاں حکومت سے بجلی خرید کر تقسیم کرتی ہیں جبکہ کے الیکٹرک حکومت سے بجلی خریدنے کے ساتھ ساتھ خود بھی بجلی کی پیداوار کرتا ہے لہٰذا کے الیکٹرک اپنی پیداواری لاگت اور سرکاری بجلی دونوں کی قیمت کے اوسط کے مطابق نیپرا سے فی یونٹ قیمت کے تعین کی درخواست کرتا ہے۔
نیپرا ایندھن کی قیمت سمیت دیگر عوامل کا جائزہ لے کر بجلی کی قیمت میں کمی یا اضافے کی درخواست منظور کرتا ہے جس کے بعد صارف سے بل وصول کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی دیگر تقسیم کار کمپنیاں کے الیکٹرک جیسے تکلف سے آزاد ہیں کیونکہ سرکار ہی اپنے ایک ادارے سے بجلی خرید کر دوسرے ادارے کو تقسیم کرنے کے لیے دے رہی ہے۔ نفع یا نقصان دونوں ہی سرکاری کھاتوں میں رہنا ہے۔
2، 3 ماہ پہلے استعمال شدہ بجلی کی قیمت بعد میں کیوں ادا کرنا پڑتی ہے؟
یہی وہ سوال ہے جو اس وقت تکلیف کا سبب بن رہا ہے۔ آسان الفاظ میں اس کی مثال کچھ یوں بنتی ہے کہ آپ کے ہاتھ میں موجود قلم 2 ماہ پہلے 10 روپے کا خریدا گیا تھا۔ ظاہر ہے قلم ساز نے اس وقت بجلی کے نرخ کی بنیاد پر اس قلم کی قیمت کا تعین کیا ہوگا۔ اب 2 ماہ پہلے کے فیول ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر آج یا کچھ دن بعد خریدے جانے والے قلم کی قیمت میں اس وقت کے بجلی کے نرخ کی بنیاد پر قیمت کا تعین ہوگا۔ یعنی استعمال کوئی کرے اور بھرے کوئی۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ نیپرا نے بجلی کی قیمت کے تعین کا ایک نظام ترتیب دیا ہے جس میں ہر ماہ کے آخر میں بجلی کی پیداواری کمپنیاں یہ بتاتی ہیں کہ اس ماہ انہوں نے بجلی کا ایک یونٹ کتنے میں تیار کیا۔ یوں سمجھ لیں کہ اگر مہینے کے آغاز میں خرید کردہ ایندھن 100 روپے لیٹر تھا جو مہینے کے وسط میں 150 روپے اور اختتام پر 200 روپے فی لیٹر ہوگیا تو اب مہینے کے اختتام پر اوسط قیمت کی بنیاد پر اس ایندھن سے تیار کردہ بجلی کی فی یونٹ قیمت کا تعین ہوسکے گا۔ اس قیمت کو نیپرا طے شدہ اصول و ضوابط کے مطابق تصدیق کے بعد نافذ کرنے کی اجازت دے گا۔ اس سارے مرحلے میں مختلف وجوہ پر کئی دن لگ جاتے ہیں اور منظوری کے بعد متعلقہ تقسیم کار کمپنی صارفین سے وصولی کی مجاز ہوتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے مختلف ذرائع ہیں جیسے ڈیزل، فرنس آئل، قدرتی گیس، درآمد شدہ گیس، کوئلہ، پن بجلی، سولر اور ونڈ پاور وغیرہ۔ ان تمام ذرائع سے بجلی کی پیداواری لاگت مختلف ہوتی ہے لیکن بجلی کی فی یونٹ قیمت کا تعین ان تمام ذرائع کی کُل بجلی کی مالیت کو یکجا کرکے اوسط کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ وفاقی حکومت کا پاور ڈویژن یہ تعین کرتا ہے کہ کس ماہ کن کن بجلی گھروں کو چلانا ہے اور کسے بند رکھنا ہے۔ اس میرٹ آرڈر کے ذریعے کوشش یہی ہوتی ہے کہ سب سے سستے ایندھن سے چلنے والے پاور ہاؤس کو زیادہ چلایا جائے تاکہ اوسط کی بنیاد پر صارف کو سستی بجلی فراہم کی جا سکے۔
یہ بھی سمجھ لیں کہ ضروری نہیں کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا مطلب ہر ماہ قیمت میں اضافہ ہی ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ کسی مہینے عالمی منڈی سے سستا تیل مل جائے یا پھر پن بجلی گھر سے سستی بجلی اس قدر مل جائے کہ وہ فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھروں کی فی یونٹ پیداوار کو اپنے ساتھ ملانے پر مناسب اوسط فراہم کردے۔ ایسی صورت میں بجلی کی تقسیم کار کمپنی بل کی رقم سے اس ماہ کی ایڈجسٹمنٹ منہا کرکے بل بھیجے گی۔ یاد رہے کہ حکومت کچھ عرصہ قبل تک فیول ایڈجسٹمنٹ کو سبسڈی کے ذریعے پورا کرتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔
ایک اور اہم چیز یہ کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنی نے پچھلے چند ماہ کی اوسط اور معروضی حالات کی بنیاد پر ایندھن کا ایک ریفرنس ریٹ فرض کیا ہوتا ہے اور اس ریفرنس ریٹ کی بنیاد پر ماہانہ بل بھیج دیا جاتا ہے لیکن جس طرح بالا سطور میں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ایندھن کی قیمت میں جو فرق باقی بچ جائے گا وہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے صارف سے وصول ہوگا۔ آسان الفاظ میں یہ کہ کمپنی نے ریفرنس ریٹ برائے ماہ جون تصور کیا تھا کہ ایک روپے فی یونٹ ہوگا لیکن مہینے کے آخر میں معلوم ہوا کہ فی یونٹ لاگت ایک نہیں بلکہ 2 روپے فی یونٹ آئی ہے۔ اب کمپنی ایک روپے یونٹ کے حساب سے صارف کو بل مقررہ تاریخ پر بھیج دے گی اور بچ جانے والے ایک روپے کے لیے نیپرا کو درخواست دی جائے گی۔
نیپرا تصدیق کے بعد اس بچ جانے والے ایک روپے کو وصول کرنے کی اجازت دے گا۔ اس اجازت کے حصول میں ایک ماہ کے قریب عرصہ لگ جائے گا۔ اجازت ملنے کے بعد تقسیم کار کمپنی صارف کو پرانے ایک روپے کی وصولی کا بل بھیجے گی۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ صارف کی سہولت کے لیے نیپرا نے بل میں یکمشت رقم وصول کرنے کے بجائے ایک ہی فیول ایڈجسمنٹ کو قسط وار وصول کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
گزشتہ ماہ بجلی کے بل زیادہ کیوں ہیں؟
یہی وہ سوال ہے جس کا جواب سمجھنے کے لیے پورے نظام کی اتنی واقفیت شاید ضروری ہے جو اوپر درج کی گئی۔ گزشتہ ماہ کے الیکٹرک کے بل میں موجود ایک ایک مد کو سمجھ لیتے ہیں۔
گھریلو صارف
رواں ماہ گھریلو صارف کے بل میں درج ذیل مدات میں رقم وصولی کا تقاضہ کیا گیا
ویری ایبل چارجز
اس سے مراد آپ کے لیے استعمال شدہ بجلی کی پہلے سے متعین کردہ نرخ کے مطابق قیمت ہے۔ اگر آپ ٹائم آف یوز صارف ہیں تو پِیک اور آف پِیک میں استعمال شدہ یونٹس کی تفصیل اور قیمت دونوں درج ہوں گی۔ اگر آپ سلیب ریٹ والے صارف ہیں تو یونٹ کی کس حد تک کتنی قیمت وصول کی گئی یہ تفصیل درج ہوگی۔
فیول ایڈجسٹمنٹ برائے مئی اور جون
اس کی وضاحت تفصیل سے اوپر پیرا گراف میں ہوچکی ہے۔
کے الیکٹرک چارجز
یہ اگست کے مہینے میں بجلی کی قیمت اور پچھلے ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ دونوں کو ملا کر بجلی کی کُل قیمت ہے۔ یعنی اس کے بعد اب جو کچھ بھی ہے وہ بجلی کی تقسیم کار کمپنی سے متعلق نہیں بلکہ سرکار سے متعلق ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ اس کے بعد والی تمام رقم ٹیکس کی مد میں سرکاری خزانے میں جمع کروائی جائے گی۔
الیکٹرک ڈیوٹی
وفاقی حکومت بجٹ میں اس ڈیوٹی کا اعلان کرتی ہے۔
سیلز ٹیکس
اس کا تعین وفاقی حکومت ہر بجٹ میں کرتی ہے۔
ٹی وی ایل فیس
یہ ٹی وی لائسنس فیس ہے جس سے پی ٹی وی کا خرچہ چلتا ہے۔
کمرشل بل
کمرشل بل کا ٹیرف مختلف ہوتا ہے لیکن ترتیب وہی ہے جیسی گھریلو صارفین کے لیے ہوتی ہے۔ کمرشل بل میں ٹیکس کی مزید اقسام بھی ہوتی ہیں جیسے ٹیکس، مزید ٹیکس اور پھر اضافی ٹیکس وغیرہ لیکن یاد رہے کہ ان تمام ٹیکسز کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں صرف ٹیکس جمع کرنے میں مددگار ہیں۔
انکم ٹیکس بمطابق سیکشن 235
پچھلے مالی سال کے بجٹ میں اس ٹیکس کا نفاذ کیا گیا تھا جو 25 ہزار روپے سے زائد بل پر وصول کیا جاتا ہے۔ اس ٹیکس سے چھوٹ ممکن ہے اگر صارف بجلی کی تقسیم کار کمپنی کو اپنے ٹیکس دہندہ ہونے کا ثبوت فراہم کردے۔ بصورتِ دیگر بل کی رقم 25 ہزار روپے سے زائد ہونے پر ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کرلیا جائے گا۔ ٹیکس دہندہ اسے بعد میں کلیم بھی کرسکتے ہیں۔
کیا بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اوور بلنگ یا خفیہ چارجز بھی وصول کرتی ہیں؟
بجلی کے بل کو بخوبی دیکھنے، سمجھنے اور پڑھنے سے آپ باآسانی تمام تفصیلات سمجھ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ اطمینان کرلیں کہ عام حالات میں بل چارج موڈ کو ‘نارمل’ ہونا چاہیے۔
اگر ‘اے وی جی’ درج ہے تو اس کا مطلب اس ماہ کسی بھی وجہ سے ریڈنگ نہیں لی جاسکی اور بل گزشتہ چند ماہ کی اوسط بنیاد پر جاری ہوا ہے۔
اگر ‘ڈیٹ’ لکھا ہو تو سمجھیں شامت آچکی ہے کیونکہ میٹر یا کسی اور مقام سے بجلی کی تقسیم کار کمپنی کو چوری کے آثار ملے ہیں۔ اس موڈ میں بلنگ کو فوری درست کروانا چاہیے۔
اگر ‘ایڈج’ کوڈ کے ساتھ بل موصول ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پچھلے کچھ ماہ میں آپ کو ریڈنگ نہ ہونے کی بنیاد پر اوسط بل بھیجا گیا تھا اور اب بعد از ریڈنگ وصول شدہ قیمت کو کمی یا زیادتی دونوں صورتوں میں درست کرکے لیا گیا ہے۔
تمام تقسیم کار کمپنیاں اب بل پر میٹر ریڈنگ کا عکس شائع کرتی ہیں اس لیے غلط میٹر ریڈنگ کا امکان کم ہے۔ اگر آپ کو غلط میٹر ریڈنگ محسوس ہو تو درست کروانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے باوجود بھی تسلی نہ ہونے کی صورت میں بل پر موجود شکایت درج کروانے کے طریقوں پر عمل کیا جاسکتا ہے۔