ڈالر کی قدر میں اضافہ جاری، انٹربینک میں 219.41 روپے تک پہنچ گیا
روپے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے اور انٹر بینک میں ڈالر ایک روپے 3 پیسے یا 0.47 فیصد اضافے کے بعد 219 روپے 41 پیسے تک پہنچ گیا۔
اسٹیٹ بینک پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق آج انٹربینک میں مقامی کرنسی ڈالر کے مقابلے 1 روپے 3 پیسے یا 0.47 فیصد گراوٹ کے ساتھ 219 روپے 41 پیسے پر بند ہوئی۔
فاریکس ایسوسی ایشن پاکستان کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ آج دوپہر ایک بجے تک اوپن مارکیٹ میں روپیہ 228 فی ڈالر تک ٹریڈ کر رہا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈالر کی قدرمیں پھر اضافہ، انٹربینک میں 217 روپے 66 پیسے کا ہوگیا
ٹریس مارک کی سربراہ کومل منصور کا کہنا تھا کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب انٹربینک میں ہلچل پیدا کر رہی ہے۔
کومل منصور نے کہا کہ درآمدی ڈیوٹیوں اور درہم لانے پر نئے قوانین کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے یہ بات اس نئی شرط کا حوالہ دیتے ہوئے کی کہ متحدہ عرب امارات جانے والے پاکستانی اپنے ساتھ 5 ہزار درہم لے جانے کے پابند ہوں گے۔
کومل منصور نے کہا کہ ٹریڈرز کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کی طرف سے پاکستان کے لیے قرض کی نئی قسط کی اجازت دینے کے بعد روپے کی قدر میں پھر اضافہ ہوگا۔
مزید پڑھیں: انٹربینک میں تقریباً دو ہفتے بعد ڈالر کی قدر میں اضافہ
میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے کہا کہ روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ اس لیے آرہا ہے کیونکہ مسافروں کی طرف سے ڈالر کی طلب میں شدید اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب بیرون ممالک میں پڑھنے والے طلبہ بھی مقامی کرنسی ڈالر میں تبدیل کروا رہے ہیں۔
سعد بن نصیر نے کہا کہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی مانگ مستحکم ہے کیونکہ معیشت میں مجموعی طور پر طلب میں کمی آئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ درآمد کنندگان کی جانب سے گرین بیک پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔
تاہم ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے اس بات سے اختلاف کیا کہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ بیرون ممالک سفر کرنے والے پاکستانیوں کی طرف سے ڈالر کی خریداری ہے۔
ظفر پراچا نے کہا کہ پاکستان سے متحدہ عرب امارات کی طرف سفر کرنے والے صرف 8 فیصد پاکستانی فلائٹس کے پیش نظر مقامی کرنسی ڈالرز میں تبدیل کروا رہے ہیں، ان کو پانچ ہزار درہم کی ضرورت نہیں ہے، اس کے بعد 18 فیصد پاکستان مستقل رہائشی ہیں جن کو بھی 5 ہزار درہم کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے اس وجہ سے ڈالر کی طلب میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ ڈالر میں کمی کی صرف دو وجوہات ہیں، ایک تو حکومت نے غیر ضروری اور لگژری اشیا سے پابندی ہٹا دی ہے، دوسرا یہ کہ ڈالر افغانستان کی طرف اسمگل ہو رہا ہے۔
ظفر پراچا نے کہا کہ ایکسچینج کمپنیاں پہلے انٹربینک مارکیٹ میں 25 سے 30 ملین ڈالر رکھتی تھیں جو اس وقت کم ہوکر 2 سے 3 ملین ڈالر تک ہوگیا ہے جبکہ ڈالر، افغانستان کی طرف اس لیے اسمگل کیا جارہا ہے کیونکہ وہاں وہ مہنگی قیمت میں فروخت ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روپے کی قدر میں مزید بہتری، ڈالر کی قیمت 221.91 روپے تک پہنچ گئی
ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی شدید قلت ہے جبکہ انٹربینک مارکیٹ اور اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 روپے کا فرق ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ مقامی کرنسی 28 جولائی تک انٹربینک 239 روپے 94 پیسوں کے ساتھ رکارڈ سطح پر گر چکی تھی، اس کے بعد اس میں مسلسل 11 سیشنز تک بہتری آرہی تھی جو 11 اگست کو 213 روپے 90 پیسوں تک بند ہوئی تھی۔
تاہم روپے کی گراوٹ کا سلسلہ دوبارہ 17 اگست کو شروع ہوا تھا جس میں گزشتہ روز تک ڈالر کے مقابلے 3 روپے 50 پیسے کمی ہوئی تھی۔