ایک ایک کرکے فن کی کہکشاں سے ستارے ٹوٹ رہے ہیں۔ ہر ستارہ اپنے اندر ایک خاص وقت کی یادیں سموئے ہوئے جب ٹوٹتا ہے، تو اسی کے ساتھ ہی وہ یادیں بھی بکھر جاتی ہیں۔
پاکستانی موسیقی کا ایک چراغ اور گُل ہوا۔ ’نیرہ نور’ بھی رخصت ہوئیں۔ وہ پاکستان کے ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم کے سنہری دور کی تمثیل تھیں، صرف وہی ہم سے جدا نہیں ہوئیں، بلکہ ہمارا ’ناسٹیلجیا’ بھی اپنی روشنی کھو رہا ہے۔ بچپن کے رنگ برنگے شوخ چنچل مناظر، شاندار لہجوں میں گنگنانے والی آوازیں اور روشن چہرے، یکے بعد دیگرے ہم سے بچھڑ رہے ہیں۔
میرے ایک ہم عمر دوست نے ’نیرہ نور’ کی رحلت پر مجھے موبائل پر یک سطری پیغام بھیجا، میری نظر میں وہ صرف ایک پیغام نہیں، بلکہ وہ آئینہ ہے، جس میں ہم وقت کو بھی جاتا ہوا محسوس کرسکتے ہیں۔
اس دوست نے لکھا ’ہم تیزی سے بوڑھے ہو رہے ہیں’, کیونکہ وہ چہرے، آوازیں اور لہجے، جن کو سن کر ہم بڑے ہوئے، وہ اب ایک ایک کرکے جا رہے ہیں۔
نیرہ نور تو پھر بھی خوش قسمت ہیں کہ اس سوشل میڈیائی دور میں، جہاں کوئی بھی موضوع چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ٹک پاتا، جہاں کے رجحانات پلک جھپکتے ہی بدل جاتے ہیں، جہاں سیاست اور مذہب سے بڑا کوئی موضوع نہیں ہے، وہاں لوگ ان کو یاد کر رہے ہیں اور ابھی تک مسلسل یاد کر رہے ہیں، ہرچند کہ وہ اب دورِ حاضر کے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا سے بہت دُور تھیں، پھر بھی وہ بہت سارے لوگوں کی یادداشت میں اب تک قائم ہیں۔ یہی ان کے فن کا اثر ہے، جو دیرپا تھا۔
ذاتی زندگی
نیرہ نور کی پیدائش کا سال 1950ء اور مقام گوہاٹی، آسام (بھارت) جبکہ ان کی رحلت کا سال 2022ء اور مقام کراچی (پاکستان) ہے۔ ان کا خاندان پیشہ ورانہ طور پر تاجر تھا، جو کاروبار کے سلسلے میں امرتسر سے آسام منتقل ہوگیا۔ ان کے والد مسلم لیگ کے فعال کارکن تھے اور تحریک آزادی میں پیش پیش تھے۔ 1947ء میں جب قائدِاعظم محمد علی جناح نے آسام کا دورہ کیا، تو ان کے والد نے قائد کی میزبانی کی۔ اس کنبے نے 50 کی دہائی کے آخری برسوں میں انڈیا سے پاکستان ہجرت کی، جس میں نیرہ نور کی والدہ اور چند عزیز اقارب شامل تھے۔ پاکستان پہنچ کر پہلے لاہور اور پھر کراچی ان کی منزل ٹھہری، ان کے والد بہت بعد میں پاکستان آئے۔
ان کے شریکِ حیات شہریار زیدی ہیں، جو اداکاری کرتے ہیں جبکہ 2 بیٹے جعفر زیدی اور نادِ علی ہیں۔ بیٹوں کا تعلق بھی موسیقی کے شعبے سے ہے، لیکن نیرہ نور کے علاوہ ان کے خاندان کا کوئی فرد شہرت اور کامیابی کی اس بلندی کو نہیں پاسکا، جس پر وہ فائز تھیں بلکہ افسوس سے کہنا پڑے گا کہ ان کے ایک بیٹے کو کوک اسٹوڈیو جیسا پلیٹ فارم بھی مسلسل مہیا رہا، مگر وہ اپنی والدہ کی طرح متاثر کن کام نہ کرسکے۔
دوسری طرف نیرہ نور کو دیکھیں، تو وہ آج سے 10 سال پہلے 2012ء میں گائیکی سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرچکی تھیں، جبکہ زندگی کا ایک بڑا حصہ بچوں کی تربیت کی خاطر وقف کیا اور موسیقی سے دُور رہیں۔ اس کے باوجود ان کی مقبولیت کا تناسب برقرار رہا، وجہ وہ معیاری کام تھا، جو انہوں نے محدود وسائل میں کیا۔
موسیقی سے اوّلین لاشعوری تعلق
ان کی زندگی میں موسیقی بچپن سے شامل ہوچکی تھی، جب وہ آسام میں اپنے پڑوسیوں کے ہاں مذہبی گیتوں کو سماعت کرتی تھیں، تو ان کے دل کو یہ آوازیں بھاتیں، یہی وجہ ہے کہ عمر کے اسی حصے میں تصوف اور سادگی ان کی ذات کا ناگزیر عنصر بن چکی تھی، جن کے اثرات تادمِ مرگ ان پر رہے۔ ان کے لاشعور میں وہ راگ راگنیاں جذب تھیں، جن کو وہ معروف مغنیہ ’کانن دیوی’ کی آواز میں سماعت کرچکی تھیں، صرف یہی نہیں بلکہ یہ وہ زمانہ ہے، جب وہ برِصغیر کی معروف گائیکہ اختری بائی فیض آبادی عرف بیگم اختر سے متعارف ہوئیں۔
موسیقی کو اختیار کرنے کا پہلا قدم ان کی سماعت کے حوالے سے آگے بڑھا اور وہ موسیقی کی دنیا میں داخل ہوئیں، شاید یہ پاکستان کی معدودے چند گلوکاراؤں میں ہوں گی جنہوں نے موسیقی سیکھنے کے لیے کسی سے کوئی ابتدائی تعلیم حاصل نہیں کی، صرف اپنی سماعت اور مشق کے زور پر موسیقی کو اپنایا۔
اپنی بے پناہ شہرت کے بعد پھر وہ علمِ موسیقی سے بھی فیض یاب ہوئیں اور ریاض کا تناسب بھی بڑھا دیا۔ اس مشق اور دیوانگی کے ملاپ سے جو لہجہ نمو پایا، ہم سب اس سے آشنا ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں ان سے جن لوگوں نے ملاقات کی، ان میں معروف گلوکار علی ظفر اور مقبول ڈراما نگار نور الہٰدی شاہ ہیں، انہوں نے نیرہ نور کو اپنی ذات میں سمٹا ہوا، مذہب سے قریب، قرینے کی زندگی میں مصروف، سادگی پر ایمان، دنیا سے بے اعتنائی اور آگے کی منزلوں میں گم پایا۔
گائیکی کی باقاعدہ ابتدا، ریڈیو پاکستان
60 کی دہائی کے آخری برسوں میں، جب یہ شوقیہ گلوکاری کرتی تھیں، اتفاق سے اپنے اساتذہ کے سامنے ان کی صلاحیتوں کا اظہار ہوا اور ان نظر شناس اساتذہ میں ایک پروفیسر اسرار تھے، جو خود کلاسیکی موسیقی کے ایک اہم رتن تھے۔ انہوں نے اس آواز کو پہچان لیا اور ریڈیو پاکستان کے مائیکرو فون تک لے آئے۔ پہلی بار یہ آواز جب وہاں سے گونجی، تو اس کی مٹھاس نے بہت سارے دلوں میں گھر کرلیا۔
ریڈیو پاکستان سے ان کی آواز میں بہزاد لکھنوی کی گائی ہوئی غزل ’اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے’ کو کیسے کوئی فراموش کرسکتا ہے۔ یہیں سے شہرت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی۔
نظم کی لاج، غزل کی معراج، پاکستان ٹیلی وژن
70 کی دہائی کا آغاز، نیرہ نور کی پاکستان ٹیلی وژن پر گائیکی کی ابتدا سے منسلک ہے، جہاں انہوں نے مختلف ڈراموں اور دیگر پروگراموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ یہاں ان کو متعارف کروانے والی، فیض احمد فیض کی صاحبزادی منزہ ہاشمی تھیں، جنہوں نے اس آواز کی اہمیت کو سمجھا، پھر فیض صاحب کے کلام سے ان کی نسبت اور تاثیر نے ان کو شہرت کو بلندیوں پر پہنچا دیا۔
کلامِ فیض گانے میں ان کو یدِطولیٰ حاصل تھا۔ نیرہ نور نے فیض کے کلام کی تاثیر اتنی بڑھا دی کہ پھر کوئی دوسری گلوکارہ، اس طرح وہ کلام نہ گاسکی۔ بالخصوص ‘ہم کہ ٹھہرے اجنبی’ اور ’مرے درد کو جو زباں ملے’ کے علاوہ ’آج بازار میں پابجولاں چلو’ سمیت کئی یادگار کلام دستیاب ہے، جن کو آج بھی سماعت کرتے ہوئے احساسات کا مدو جزر جنم لیتا ہے۔
پاکستان ٹیلی وژن کے مقبول ترین ڈرامے ’دھوپ کنارے’ کے لیے ان کا گایا ہوا گیت ’رات یوں دل میں تیری کھوئی یاد آئی’ بھی فیض صاحب کا وہ کلام تھا، جس کو نیرہ نور نے گاکر ڈرامے کی تاریخ میں اپنی آواز محفوظ کردی۔ فیض صاحب کے کلام پر مبنی کیسٹ البمز ان سب کے علاوہ ہیں، جن کا ایک بڑا حصہ اب یوٹیوب پر دستیاب ہے۔
انہوں نے فیض احمد فیض کے علاوہ مرزا غالب، مومن خان مومن، علامہ اقبال، اختر شیرانی، ناصر کاظمی اور ابن انشا سمیت دیگر کئی اساتذہ کا کلام بخوبی گایا اور گائیکی کی دنیا میں غزل پر اپنی دسترس کو کامل کردیا۔ ایک غیر مقبول شاعر کی نظم ’ریت پر سفر کا لمحہ’ کو گایا، تو امر کردیا۔ وہ نظم ’کبھی ہم خوبصورت تھے’ کے عنوان سے مقبول ہوئی اور اس کے شاعر راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے احمد شمیم تھے۔
معروف ترقی پسند ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کہا کرتے تھے کہ ’گائیکی میں نظم کو اتنے جامع انداز میں نیرہ نور کے علاوہ کوئی گلوکارہ نہیں گاسکتی‘۔ اسی طرح شاعرِ رومان اختر شیرانی کی غزل ’اے عشق ہمیں برباد نہ کر’ کو گاکر بھی نیرہ نور غزل موسیقی کی تاریخ میں امر ہوچکی ہیں۔ ناصر کاظمی کا کلام ’پھر ساون رُت کی پون چلی’ ہر موسمِ برسات میں ان کی آواز کی یاد دلاتا رہے گا۔
انہوں نے پاکستانی ٹیلی وژن کے لیے بے شمار گیت گائے، ان مختلف ڈراموں کے گائے ہوئے گیتوں میں ‘زیب النسا’ وہ آخری پاکستانی ڈراما تھا، جس کے پس منظر میں ان کی آواز شامل ہوئی، اس نغمے کا عنوان ’خواب مرتے نہیں’ تھا اور یہ احمد فراز کا کلام تھا۔
یہ ڈراما 1992ء میں دکھایا گیا تھا جبکہ پاکستانی ٹیلی فلم ’ذکر ہے کئی سال کا’ انور سجاد کی لکھی ہوئی کہانی تھی، اس کا گیت بھی نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ ہوا تھا۔ ساحرہ کاظمی نے اس کی ہدایات دی تھیں، جبکہ راحت کاظمی اور عتیقہ اوڈھو نے مرکزی کردار نبھائے تھے اور علی کاظمی نے اپنے کیریئر کی شروعات اس ٹیلی فلم سے کی تھی۔
نیرہ نور نے وطن کی محبت میں سرشار ہوکر ملی نغمے بھی گائے، جنہوں نے ان کو گائیکی میں ایک اور بلند مقام پر پہنچادیا۔ ان کا گایا ہوا ملی نغمہ ’وطن کی مٹی گواہ رہنا’ اور ’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں’ ہر پاکستانی کو ازبر ہے۔
شہرت کا بامِ عروج، پاکستانی فلمی صنعت
یہی وہ عرصہ ہے، جب پاکستان ٹیلی وژن کے ساتھ ساتھ فلمی دنیا کو بھی ان کی آواز کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ 70 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں فلمی صنعت میں بھی آپ کی آواز نے مدھر دھنوں کے چراغ روشن کرنا شروع کیے۔ 1973ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’گھرانہ’ کا سب سے معروف گیت ’تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا’ ان کی آواز میں تخلیق ہوا۔ فلم کی دنیا میں یہ پہلاگیت ہی ان کو امر کرگیا۔ اس کے بعد متعدد فلموں میں ان کے گائے ہوئے گیتوں نے فلمی کہانیوں اور کرداروں کو متاثر کیا۔ ایسی چند مقبول فلموں میں ’شیریں فرہاد‘، ’مستانہ‘، ’بھول‘، ’اجنبی‘، ’فرض اور ممتا‘، ’دو ساتھی‘، ’آئینہ‘، ’بندش‘، ’آس‘، ’پھول میرے گلشن کا‘، ’پردہ نہ اٹھاؤ‘، ’بوبی اینڈ جولی‘، ’نہیں ابھی نہیں‘ اور ’آہٹ‘ سمیت دیگر شامل ہیں۔
اس فلمی دنیا میں جہاں میڈم نور جہاں جیسی جید گلوکارہ موسیقاروں کے حواس پر سوار تھی، وہیں نیرہ نور جیسی سادہ طبیعت گلوکارہ نے اپنی آمد کا بھرپور احساس دلایا۔ پاکستانی فلمی صنعت میں خواجہ خورشید انور جیسے موسیقار نے ان کو مدعو کیا اور ان کی آواز سے مٹھاس جذب کی۔
نیرہ نور نے ایم اشرف، کمال احمد، نثار بزمی اور روبن گھوش جیسے مہان موسیقاروں کے ساتھ کام کیا، بلکہ روبن گھوش کی موسیقی اور نیرہ نور کی آواز نے تو ایسا طلسم پیدا کیا، جس کی فسوں سازی آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ ان دونوں ذہین فنکاروں کے فن سے پھوٹنے والے نغمات کا سحر کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی جاری ہے۔
1977ء میں نمائش پذیر ہونے والی فلم ’آئینہ’ کے نغمات اس بات کی دلیل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان دھنوں میں وقت مقید ہے، کردار تھم گئے ہیں اور کہانی رُکی ہوئی ہے، جب جب سماعت کریں، کیفیت واپس لوٹ آتی ہے، عجیب کرشماتی نغمات ہیں۔ انہوں نے جن معروف گلوکاروں کے ساتھ دوگانہ میں اپنی آواز کا جادو جگایا، ان میں، مہدی حسن، احمد رشدی، عالمگیر و دیگر شامل ہیں۔ فلموں میں ان کے گائے ہوئے گیتوں کی تعداد تو بہت زیادہ ہے، البتہ چند معروف و مقبول اور دل کو چُھو لینے والے نغمات و غزلیات کی مختصر سی مگر جامع فہرست مندرجہ ذیل ہے۔
- رُت آئے رُت جائے (فلم: آہٹ)
- تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا (فلم: گھرانہ)
- روٹھے ہو تم کو کیسے مناؤں پیا (فلم: آئینہ)
- آج غم ہے تو کیا ہے (فلم: مستانہ)
- رات بھر جیا مورا مجھے کیوں ستائے (فلم: امنگ)
- مجھے دل سے نہ بھلانا (فلم: آئینہ)
فنی کیریئر کا آخری گیت
انہوں نے جو آخری بار گیت گایا، وہ کسی پاکستانی فلم یا ڈرامے کے بجائے ایک بنگلہ دیشی فلم تھی، جس کا نام ’مہرجان’ تھا۔ انہوں نے اس فلم کے لیے اپنی آواز مہیا کی، مگر یہ ان کے کیریئر کا آخری نغمہ تھا۔ اس فلم میں جیا بچن سمیت ہندوستانی بنگالی سینما کے عظیم اداکار وکٹر بنرجی شامل تھے۔
یہ فلم 2011ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے بہت سارے گیتوں کو ہندوستان میں نئے گلوکاروں نے گایا ہے۔ ان کے چاہنے والوں کی ایک کثیر تعداد کا تعلق ہندوستان سے ہے، یقینی طور پر ’بلبل پاکستان’ کی رحلت سے ان مداحین کے دل بھی اداس ہوگئے ہوں گے، جیسے ’بلبل ہند’ لتا منگیشکر کی وفات سے پاکستانی مداحوں کادل بھر آیا تھا۔
حرف آخر
پاکستان کی غزل گائیکی کی ایک اہم ترین آواز نیرہ نور اس ظاہری دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں، مگر وہ اپنی صوت، لہجے، دلکش نغمات اور شیریں غزلیات کی وجہ سے ہمارے درمیان موجود رہیں گی۔ آپ جب چاہیں، ان کی مدد سے ماضی کے سنہری دور کو تصور کے پردے پر متحرک کرسکتے ہیں اور اپنے حسین ناسٹلجیا سے بھی لطف اٹھا سکتے ہیں۔
ان کی گائی ہوئی ایک غزل ’کبھی ہم خوبصورت تھے’ کی ابتدا میں جب وہ شاعری سے پہلے آلاپ گاتی ہیں، تو ان کی آواز میں ایک بازگشت محسوس ہوتی ہے، جیسے کوئی بہت دُور ہو لیکن پاس ہو، مجھے یہ غزل کبھی نیرہ نور سے دُور نہیں کرسکتی، کیونکہ وہ آواز کے ذریعے، تصور کے پردے پر اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہیں گی، اور حقیقت یہ ہے کہ ایسے سچے فنکار مرتے نہیں، بلکہ ایک درجے سے دوسرے درجے کو منتقل ہوتے ہیں۔ ایسے فنکاروں کی موت نہیں ہوتی، بلکہ ان کا انتقال ہوتا ہے۔ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (14) بند ہیں