پارلیمانی کمیٹی کا ججز کی تعیناتی کے معاملے میں خامیوں کا مشاہدہ
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے عمل میں خامیوں کا مشاہدہ کیا اور ایسی تعیناتیوں کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو بااختیار بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی کے چیئرمین بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے بغیر نہ کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے نہ معاشرہ چل سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ریاست قائم رہ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ججوں کی تعیناتی اور برطرفی کے عمل میں دو اہم ترین چیزیں شفافیت اور سیکیورٹی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ اجلاس: ججوں کے تقرر سے متعلق آئینی ترمیم کا بل کمیٹی کے سپرد
ججوں کی تقرری اور برطرفی کی تاریخ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پہلے متعلقہ ایگزیکٹو اور چیف جسٹس کے درمیان غیر سرکاری مشاورت کا عمل ہوا کرتا تھا اور پھر ججوں کا تقرر کیا جاتا تھا لیکن 18ویں اور 19ویں ترمیم کے ذریعے مزید شفاف اور مضبوط ایک طریقہ کار متعارف کرایا گیا تھا جس میں ججوں کا تقرر پہلے مرحلے میں جوڈیشل کمیشن اور پھر دوسرے مرحلے میں پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے ذریعے پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات چھین لیے گئے ہیں، اس طرح جوڈیشل کمیشن کی جانب سے ججوں کی نامزدگیوں کی منظوری یا مسترد کرنے میں اس کا کوئی کردار نہیں، یوں پارلیمانی کمیٹی بے اثر ہوگئی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے حالیہ اجلاس میں یہ بھی ظاہر ہوا کہ حکومت اور چیف جسٹسز کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ججوں کی تعیناتی کا فیصلہ زیادہ شفاف اور منظم انداز میں کیا جا سکے۔
ترامیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تین ممکنہ معاملے ہیں، پہلے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں تبدیلی کی گئی تھی اور اب جوڈیشل کمیشن میں پانچ ججوں کے بجائے اب چیف جسٹس آف پاکستان سمیت چار ججز ہوں گے جب کہ دیگر 3 نمائندگیاں وزیر قانون، اٹارنی جنرل فار پاکستان اور پاکستان بار کونسل کا نمائندہ کرے گا۔
مزید پڑھیں: ججز کی تعیناتی میں عدالتوں کی ضروریات بھی مدنظر رکھنی چاہیے، چیف جسٹس
انہوں نے کہا کہ اس طرح جوڈیشل کمیشن کی اکثریت اب بھی ججوں کے پاس رہے گی۔
بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ دوسرا حصہ پارلیمانی کمیٹی کو دوبارہ بااختیار بنانے سے متعلق ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن کی نامزدگیوں کو قبول یا مسترد کر سکتی ہے اور اس کے فیصلے کو سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ایک بہترین شخص کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا جائے دو مراحل کا عمل ہوگا۔
ترمیم میں یہ تجویز بھی دی گئی کہ ایک ابتدائی کمیٹی ہوگی جو جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی میں غور کے لیے ہائی کورٹس کے ججوں کو نامزد کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: جونیئر جج کی ترقی: بار کونسلز کا ’حمایت کرنے والے ججز کو الوداعی تقریب‘ نہ دینے کا فیصلہ
اس سے قبل کوئی ابتدائی کمیٹی نہیں تھی اور ہائی کورٹس کے ججوں کے تقرر کے لیے نامزدگیاں چیف جسٹس آف پاکستان کرتے تھے۔
بیرسٹر علی ظفر نے اس ابتدائی کمیٹی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نامزدگیوں کا معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان اور ہائی کورٹس کے متعلقہ ججوں کی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ ان کی نامزدگیوں کو پہلے جوڈیشل کمیشن اور پھر پارلیمانی کمیٹی میں غور یا انہیں مسترد کیا جاسکتا ہے یوں تیسرا مرحلہ شامل کرنے کی ضرورت نہیں جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔
انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ نامزدگیوں کے مرحلے پر وزیر قانون، اٹارنی جنرل فار پاکستان اور پاکستان بار کونسل کی نمائندگی بھی مزید تنازعات اور تصادم کا باعث بنے گی۔
تاہم اابتدائی کمیٹی سے متعلق ترمیم کی منظوری دے دی گئی۔
چیئرمین نیب
دوسری جانب چیئرمین نیب آفتاب سلطان بھی سینیٹ کی قانون و انصاف کمیٹی کے سامنے عوامی درخواست کے حوالے سے پیش ہوئے جس میں ایڈن اسٹیٹ کے دعویداروں نے سوسائٹی میں پلاٹوں کی عدم دستیابی پر معاوضے کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس سے جے سی پی کمیٹی کی تشکیل نو کی درخواست
بیرسٹر علی ظفر نے چیئرمین نیب سے کہا کہ وہ اس کیس کی وضاحت کریں اور فریم ورک بتائیں کہ دعویداروں کو ان کے نقصانات کی تلافی کیسے اور کب کی جا سکتی ہے۔
چیئرمین نیب نے کمیٹی کو بتایا کہ ایڈن اسٹیٹ کے مالکان نے بیورو کے ساتھ 16 ارب روپے کی پلی بارگین کی ہے اور تمام دعویداروں کو معاوضہ ادا کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ ادائیگی تین سال میں تناسب کی بنیاد پر کی جائے گی۔