مسلم لیگ (ق) کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے درخواست پر فیصلہ محفوظ
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے چوہدری شجاعت حسین کو مسلم لیگ (ق) کی صدارت سے ہٹانے اور انٹرا پارٹی انتخابات کروانے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
الیکشن کمیشن نے پارٹی کی صدارت سے ہٹانے اور انٹرا پارٹی انتخابات کروانے سے متعلق چوہدری شجاعت حسین کی درخواست پر سماعت کی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ق) کے انٹرا پارٹی انتخابات روک دیے
سماعت کے دوران چوہدری شجاعت حسین کے وکیل عمر اسلم نے درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل دیے۔
عمر اسلم نے مؤقف اپنایا کہ پارٹی کی صدارت صرف استعفیٰ یا موت کی صورت میں ختم ہوسکتی ہے، پارٹی صدارت سے متعلق کیس الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف سینٹرل ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کو عہدیدار کے خلاف تادیبی کارروائی کا حق حاصل ہے، سینٹرل ورکنگ کمیٹی تشکیل ہی نہیں دی گئی۔
چوہدری شجاعت کے وکیل نے استدلال کیا کہ دوسرے گروپ نے مسلم لیگ (ق) پنجاب کے دفتر پر قبضہ کرلیا ہے، ہمیں پارٹی ریکارڈ تک رسائی نہیں دی جارہی۔
مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ق) کا چوہدری شجاعت، طارق بشیر چیمہ کو عہدوں سے برطرف کرنے کا فیصلہ
ان کا کہنا تھا کہ کہا گیا کہ سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں 83 ارکان نے شرکت کی، کیا ان 83 ارکان کی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی؟
چوہدری شجاعت کے وکیل نے استدلال کیا کہ جب سینٹرل ورکنگ کمیٹی کی تشکیل نہیں ہوئی تو پارٹی الیکشن کمیشن کیسے وجود میں آگیا، دوسرے گروپ کے جمع کروائے گئے جواب میں تضاد ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک جگہ لکھا ہے کہ چوہدری شجاعت کی صحت اس قابل نہیں رہی کہ وہ صدارت کریں، دوسری جگہ لکھا ہے کہ ان کی پالیسی پارٹی مفادات کے خلاف ہے۔
عمر اسلم نے مزید دلائل دیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کروانا جنرل کونسل کا اختیار ہے، اگر جنرل کونسل چاہے تو یہ اختیار سینٹرل ورکنگ کمیٹی کو دے سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چوہدری شجاعت حسین کی پرویز الہٰی کو ان کی رہائش گاہ میں آنے کی دعوت
انہوں نے دلائل دیے کہ ہماری اطلاع کے مطابق جس سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا اس میں صرف 21 ارکان شریک تھے، سی ڈبلیو سی کا کورم 40 ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔
کامل علی آغا کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ کسی سیاسی جماعت کے انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار نہیں ہے، درخواست گزار کو ایسے فورم پر جانا چاہیے جہاں شواہد ریکارڈ کیے جاسکیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے وکیل نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق سینٹرل ورکنگ کمیٹی 200 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ 5 ارکان پر مشتمل پارٹی الیکشن کمیشن بنانے کا اختیار سی ڈبلیو سی کا ہے، پارٹی عہدیدار کو ہٹانے یا الیکشن کے فیصلے کے خلاف پارٹی کونسل سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ق) کی مرکزی مجلس عاملہ کا چوہدری شجاعت کی قیادت پر مکمل اظہارِ اعتماد
چوہدری پرویز الہٰی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہمیں انٹرا پارٹی انتخابات سے روکا، انتخابات پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے لیکن ہم نے الیکشن کمیشن کے حکم کی پھر بھی تعمیل کی۔
اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ کمیشن کی بات نہ مانتے، کروا لیتے پارٹی انتخابات جس پر پرویز الہٰی کے وکیل نے جواب دیا کہ ہماری کیا جرأت کہ کمیشن کی بات ماننے سے انکار کرتے۔
انہوں نے الیکشن کمیشن سے استدعا کی کہ وہ چوہدری شجاعت کی درخواست کو مسترد کرے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن پاکستان نے چوہدری شجاعت حسین کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ق) کے انٹرا پارٹی انتخابات 10 اگست کو شیڈول تھے جسے چوہدری شجاعت حسین نے بطور پارٹی سربراہ چیلنج کیا تھا۔
اس سے چند روز قبل مسلم لیگ (ق) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا تھا کہ پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کو پارٹی کے عہدوں سے ہٹایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد، چوہدری پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ پنجاب قرار
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی تھی جب چوہدری شجاعت حسین نے چند روز قبل بطور پارٹی سربراہ، پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں اپنے کزن چوہدری پرویز الہٰی کو ووٹ نہ دینے کے لیے خط لکھا تھا۔
سینیٹر کامل علی آغا کی زیر صدارت مسلم لیگ (ق) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ 10 روز کے اندر پارٹی عہدوں کے لیے نئے انتخابات کرائے جائیں گے اور 5 رکنی الیکشن کمیشن بھی تشکیل دے دیا گیا تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد سے مسلم لیگ (ق) کے ترجمان کے جاری کردہ ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بلانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔