عزیر بلوچ کی 6 مقدمات میں درخواستِ ضمانت مسترد
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قتل، پولیس مقابلے اور ناجائز اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کے 6 مقدمات میں کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت اور سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کی مبینہ سرپرستی میں قتل، اقدام قتل، قانون نافذ کرنے والوں پر مسلح حملوں سمیت بھتہ خوری اور مجرمانہ ریکٹ چلانے سے متعلق درجنوں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے 2012 میں کالاکوٹ پولیس اسٹیشن میں اپنے اور اپنے ساتھیوں کے خلاف درج 6 مقدمات میں بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست دائر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: عزیر بلوچ کو فوج نے 3 سال بعد جیل حکام کے حوالے کردیا
سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کرنے والی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد ضمانت کی درخواستوں پر اپنا فیصلہ سنایا۔
جج نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مقدمات کی سماعت کے موجودہ مرحلے میں درخواست گزار بعد از گرفتاری ضمانت کی قانونی رعایت سے فائدہ اٹھانے کا اہل نہیں ہے۔
وکیل دفاع عابد زمان نے تصدیق کی کہ عدالت نے مذکورہ 6 مقدمات میں ان کے مؤکل کی ضمانت خارج کردی ہے۔
مزید پڑھیں: لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ ایک اور مقدمے میں بری
تاہم عدالت نے 6 مقدمات میں شریک ملزمان امین بلیدی اور عبدالغفار کی ضمانت منظور کی اور جیل حکام کو ہدایت کی کہ اگر کسی اور کیس میں ان کی تحویل کی ضرورت نہ ہو تو انہیں فوری طور پر رہا کردیا جائے۔
وکیل دفاع مشتاق احمد نے تصدیق کی کہ امین بلیدی اور عبدالغفار کو ضمانت پر جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔
استغاثہ کے مطابق عزیر بلوچ، محمد رمضان، ذاکر دادا، زبیر بلوچ، محمد شاہد عرف ایم سی بی، عبدالغفار اور امین بلیدی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مقابلے میں ملوث ہونے اور ان پر آتشیں اسلحہ اور دھماکا خیز مواد سے حملہ کرنے کا الزام ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پولیس اہلکاروں پر حملے کا کیس: عزیر بلوچ سمیت 5 افراد بری
ریاست کی جانب سے ملزمان کے خلاف دائر یہ 6 مقدمات دفعہ 186، 302، 324، 353، 395، 435 اور دفعہ 427 کے تحت کالاکوٹ پولیس اسٹیشن میں درج کیے گئے ہیں۔
ایڈووکیٹ عابد زمان نے کہا کہ 20 کے قریب فوجداری مقدمات میں عزیر بلوچ بری ہوچکے ہیں تاہم انہیں جیل سے رہا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہیں تقریباً مزید 15 ایسے مجرمانہ مقدمات کا سامنا ہے۔