پولیس کا سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کا اعتراف
خیبرپختونخوا پولیس نے ضلع سوات کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹرل پولیس آفس کی جانب سے جاری کردہ ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ سوات کے کچھ افراد جو پہلے افغانستان میں رہ رہے تھے سوات کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں موجود ہیں۔
تاہم پولیس نے کہا کہ صورتحال مکمل طور پر 'سول انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے' اور تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی مہم جوئی کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے
یہ بیان وزیراعلیٰ محمود خان کے آبائی شہر تحصیل مٹہ کے ایک دور دراز علاقے میں پولیس اور طالبان کے درمیان جھڑپ پر صوبائی حکومت کی کئی روز کی خاموشی کے بعد سامنے آیا ہے۔
مبینہ طور پر جھڑپ کے بعد ایک ڈی ایس پی اور کچھ سیکیورٹی اہلکاروں کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے حراست میں لے لیا تھا جس کے بعد انہیں جرگے کی مداخلت پر رہا کیا گیا۔
پولیس نے کہا کہ انہیں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو کلپس کا علم ہے جس میں سوات میں عسکریت پسندوں کی بھاری موجودگی کو دکھایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم عوام کے اس خدشے سے بھی واقف ہیں کہ سوات 09-2008 کے دور میں واپس جاسکتا ہے جب عسکریت پسندوں نے اپنی شریعت کے ساتھ وادی پر حکومت کی تھی۔
پولیس نے کہا کہ سوات کے پرامن معاشرے میں دہشت گردی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: طالبان کی آمد اور افواہوں کا گرم بازار، اہلِ سوات کیا کہتے ہیں؟
بیان میں مزید کہا گیا کہ مقامی آبادی کی امنگوں کے مطابق سوات میں امن کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کا سہارا لیں گے۔
اس سے قبل جمعہ کو سوات بھر میں لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور حالیہ واقعے کے خلاف مظاہرہ کیا۔
تبصرے (1) بند ہیں