طالبان کی آمد اور افواہوں کا گرم بازار، اہلِ سوات کیا کہتے ہیں؟
علامہ محمد اقبال کے بقول
آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
10 سال تھوڑے سکون سے گزرنے کے بعد شاید ایک بار پھر اہلِ سوات کا امتحان مقصود ہے۔ پچھلے ایک مہینے سے یہ افواہیں زیرِ گردش تھیں کہ افغانستان سے ضلع دیر کے راستے سوات میں تحریکِ طالبان پاکستان کے کچھ ارکان داخل ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر نظر سے گزریں، جن میں طالبان سوات کے پہاڑوں میں گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تصویر ایسی دیکھنے کو ملی جس میں 3 لمبی داڑھی والے حضرات ایک بھیڑ ذبح کر رہے ہیں۔ کچھ تصاویر ایک پوسٹ کی شکل میں دی گئی تھیں جن کے اوپر یہ الفاظ درج تھے ‘سوات کے سیاحتی علاقے میں تحریکِ طالبان پاکستان کے سوات مجاہدین کی تشکیل کے دوران تصاویر'۔
افواہوں کو تقویت کیسے ملی؟
زیرِ گردش افواہوں کو تقویت اس وقت ملی جب 7 اور 8 اگست کی درمیانی شب تحصیل مٹہ کے علاقہ چپریال کے پولیس اسٹیشن پر حملے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ اس حوالے سے مقامی ذرائع کے مطابق مسلح افراد نے چپریال کے تھانے پر مختلف اطراف سے حملہ کیا۔
صبح پولیس کا مؤقف آیا کہ حملہ نہیں ہوا تھا بلکہ تھانے کے احاطے میں ایک مشکوک شخص کو دیکھا گیا تھا جس پر پولیس نے فائرنگ کی۔ اسی دن اطلاع ملی کہ مٹہ کے بالائی پہاڑی علاقے پر ڈی ایس پی مٹہ اور فوج کے افسران کو مبیّنہ طور پر طالبان نے یرغمال بنالیا ہے۔
پولیس کا مؤقف کیا تھا؟
سوات کے سینیئر صحافی فیاض ظفر کہتے ہیں کہ 'جس روز چپریال پولیس اسٹیشن پر حملے کی اطلاع ملی، تو ہم نے پولیس اور انتظامیہ سے حملے کی تصدیق یا تردید کے لیے رابطہ کیا۔ دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ 9 اگست کی صبح خبر ملی کہ زخمی ڈی ایس پی پولیس پیر سید کو رہا کردیا گیا ہے، جو طالبان کی فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے، ان کو طبّی امداد کے لیے سیدو شریف ہسپتال پہنچایا گیا۔ دوسری طرف صحافیوں کو ان کے ساتھ ملاقات کی اجازت دی گئی اور نہ معلوم ہوسکا کہ اصل واقعہ کیا ہے؟’
پولیس کی پریس ریلیز
اوّل تو محکمۂ پولیس کی جانب سے مکمل خاموشی پر اکتفا کیا گیا مگر جب چہ میگوئیاں شروع ہوئیں اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس (فیس بک اور ٹوئٹر) پر اہلِ سوات نے کہرام مچا دیا تو 9 اگست کی شام محکمۂ پولیس سوات کی جانب سے ایک پریس ریلز جاری کی گئی۔
پریس ریلیز کے مطابق ‘کل مورخہ 8 اگست 2022ء کو ڈی ایس پی سرکل مٹہ پیر سید خان پولیس نفری کے ہمراہ کنالہ، تحصیل مٹہ کے علاقے میں سرچ آپریشن میں مصروف تھے کہ اسی اثنا میں دہشتگردوں نے پولیس پارٹی پر فائرنگ شروع کی۔ فائرنگ کے نتیجے میں ڈی ایس پی مٹہ پیر سید خان زخمی ہوگئے۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے دہشتگرد بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ فائرنگ کا واقعہ رونما ہونے کے فوراً بعد ڈی پی او سوات زاہد نواز مروت کی نگرانی میں سی ٹی ڈی، ضلعی پولیس اور ایلیٹ فورس نے موقع پر پہنچ کر علاقے میں سرچ آپریشن مزید تیز کردیا ہے اور زخمی ہونے والے ڈی ایس پی مٹہ پیر سید خان کو دشوار گزار پہاڑیوں سے اتار کر فوری طور پر ریسکیو 1122 کے ذریعے سیدو شریف ہسپتال پہنچایا گیا، جہاں ان کا علاج جاری ہے۔ فرار دہشتگردوں کی تلاش اور گرفتاری کے لیے تحصیل مٹہ کے پہاڑوں اور جنگلات میں سرچ آپریشن جاری ہے'۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر مبیّنہ طالبان کی وائرل شدہ ویڈیو
جس روز سوات پولیس نے پریس ریلیز جاری کی، اسی شام مبیّنہ طالبان نے ایک ویڈیو جاری کی، جس میں 3 افراد کو ‘یرغمال’ دیکھا جاسکتا ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 2 افسران کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ویڈیو بنانے والا جب ہاتھ بندھے افسروں سے نام اور آبائی علاقے کا پوچھتا ہے، تو پتا چلتا ہے کہ دونوں یرغمال بنائے جانے والے افراد پاک فوج کے افسر ہیں۔ ویڈیو بنانے والا جب چند قدم دُور موجود زخمی کے پاس پہنچ کر سوال پوچھتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ زمین پر پڑا زخمی شخص ڈپٹی سپرانٹینڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی سرکل) ہے۔
اہلِ سوات اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
پچھلے 25، 30 دنوں کی افواہوں، مبیّنہ طالبان کی انٹری، پولیس کی پریس ریلیز اور مبیّنہ طالبان کی وائرل شدہ ویڈیو کے بعد اہلِ سوات نے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے مختلف علاقوں میں احتجاجی ریلیوں کا انعقاد بھی کیا گیا ہے، جن میں خوازہ خیلہ اور کبل کے علاقے قابلِ ذکر ہیں۔
ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر اور سوات قومی جرگے کے سرگرم رکن الحاج زاہد خان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ‘جب فوج کے افسران اور ڈی ایس پی رینک کے افسر کو یرغمال بنایا جاتا ہے، تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ کتنے منظم ہیں۔ میرے خیال میں تو ایسے کام حکومت کی معاونت کے بغیر ممکن ہی نہیں’۔
سوات کے سینئر صحافی فضل خالق اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ‘حالیہ فائرنگ کا تبادلہ ایک نیا کھیل دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کے خدوخال ابھی واضح نہیں۔ اس لیے کہ جب اس حوالے سے اس شام پولیس کے ساتھ رابطہ کیا گیا تو جواب ملا کہ ہمارا فائرنگ ہونے والے علاقے میں اپنے اہلکاروں کے ساتھ رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ واقعے کے بعد محکمۂ پولیس یا انتظامیہ کی طرف سے چپ کا روزہ رکھا گیا۔ اس لیے کھیل کے اس رنگ کا کچھ پتا نہیں چل رہا کہ کیا ہونے جا رہا ہے؟
55 سالہ معمر خان کہتے ہیں کہ ’میں 15 سال کا تھا، ابھی میری مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں کہ سبزی منڈی میں رزق کی تلاش میں آنکلا۔ ان 40 سالوں میں کئی ارضی و سماوی آفات دیکھنے کو ملیں۔ نہ پچھلی بار دہشت پھیلانے والے سوات کے تھے، نہ اب کی بار سوات کے دکھائی دیتے ہیں۔ پچھلی بار بھی ہمارے منہ سے نوالا چھینا گیا، اب کی بار بھی ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ پچھلی بار بھی مجھے نقلِ مکانی پر مجبور کیا گیا تھا اور اب بھی بسترہ گول کرکے جائیں گے۔ کیونکہ جنہیں ہم نے ووٹ دیا ہے، وہ تو آسمان کے تارے بن گئے ہیں۔ سیکیورٹی ادارے اگر کچھ کرنے کے قابل ہوتے، تو یہ دہشت گرد دوبارہ نہ آتے۔ میں تو ملکی نظام سے مکمل طور پر مایوس ہوں'۔
فرمان اللہ خان جو مینگورہ شہر میں ٹیکسی چلاتے ہیں، کہتے ہیں کہ 'امسال سیاحت عروج پر رہی۔ مہینے بھر میں مشکل سے مجھے ایک دن ایسا میسر آتا ہے کہ سواری نہیں ملتی۔ باقی سارا مہینہ مینگورہ اسلام آباد ٹیکسی چلاتا ہوں اور الحمدللہ خوب منافع ہوتا ہے۔ مگر اب دوبارہ طالبان آنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کا اثر کسی اور پر پڑے یا نہ پڑے ہماری ٹرانسپورٹ برادری پر، مجھ پر اور میرے چھوٹے سے خاندان پر ضرور پڑے گا۔ 2009ء کو جب ہمیں سوات چھوڑنے کا کہا گیا، تو ہم مردان میں حکومتی راشن اور لوگوں کی زکوٰۃ و خیرات پر زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ اب اگر ایک بار پھر اسی طرح دوسروں کے رحم و کرم پر رہوں گا، تو بہت تکلیف ہوگی۔ یہ سوچتے ہی میرے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں'۔
سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ منفی خبروں کی بھرمار
ایک ناخوشگوار واقعہ کیا رونما ہوا کہ ایسی کئی خبریں پڑھنے کو ملیں، جن میں طالبان کے مینگورہ شہر میں سڑکوں پر گھومنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ خبریں پھیلانے والے مینگورہ شہر ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالانکہ مینگورہ شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ اگر ان کا ریکارڈ چیک کرلیا جائے، تو یہ بے بنیاد خبریں اور افواہیں پھیلانے والوں کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔
اس طرح ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ پر یہ بے بنیاد خبر پڑھنے کو ملی کہ ‘تمام ٹؤر آپریٹرز نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر جنت نظیر وادی، وادیٔ سوات کے ٹؤرز کینسل کردیے ہیں۔ سوات جانے والے سیاح محتاط رہیں’۔
یہ خبر پڑھنے کے بعد ٹؤر آپریٹرز میں سے جتنے ہمارے دوست ہیں، تقریباً سبھی سے بات ہوئی، سب نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ خبر بالکل من گھڑت ہے۔ سیاحوں کی گاڑیاں اب بھی سوات کی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں جبکہ ہوٹل اور ریسٹورنٹوں پر سیاحوں کی رونق بھی موجود ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں