• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

اسلام آباد: شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد

شائع August 12, 2022
شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کردی گئی— فوٹو: ڈان نیوز
شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کردی گئی— فوٹو: ڈان نیوز

اداروں کے خلاف اکسانے کے مقدمے میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔

واضح رہے کہ 9 اگست کو پی ٹی آئی رہنما کو اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

شہباز گل کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر اسلام آباد کچہری میں جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

عدالت میں پیشی کے دوران وکلا کی درخواست پر شہباز گل کی ہتھکڑی کھول دی گئی، عدالت نے قانونی ٹیم کو شہباز گل سے ملاقات کی اجازت بھی دی۔

دوران سماعت عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ دوسرا موبائل بھی ان کے پاس ہے جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ہمارے ذرائع نے بتایا کہ ان کے پاس دوسرا موبائل بھی تھا۔

شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ موبائل لینا چاہتے ہیں جس میں ان کی تمام سیاسی مصروفیات ہیں، جو رٹی رٹائی تقریر انہوں نے کی اس میں کچھ بھی نہیں ہے، پولی گرافک ٹیسٹ کے لیے جسمانی ریمانڈ کی ضرورت ہی نہیں ہے، وہ ٹیسٹ ویسے بھی کرایا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: شہباز گل کے خلاف مقدمہ کی تفتیش کیلئے تحقیقاتی ٹیم تشکیل

فیصل چوہدری نے مزید کہا کہ فوجی ادارے یا دیگر اداروں کا سب احترام کرتے ہیں، اب یہ چاہتے ہیں کہ کراچی، اسکردو، شمالی علاقہ جات لے کر جائیں، ایف آئی اے ان کے ہاتھ میں ہے، یہ کیس میں میرا اور آپ کا نام بھی ڈال دیں گے۔

شہباز گل کے وکیل علی بخاری نے کہا کہ ایک کیس میں 2 مقدمے نہیں ہو سکتے، کراچی کے مقدمے میں ملزم کو اسی روز عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیا، ایک ہی قسم کے الزامات ایک ہی قسم کے ملزم ہیں، کراچی کی عدالت نے ملزم کو رہا کر دیا۔

شہباز گل کے وکیل نیاز اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ ملک کے لیے مضبوط فوج ضروری ہے، ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں، شہباز گل کو کبھی ایک تھانے، کبھی دوسرے تھانے کبھی تیسرے تھانے میں رکھا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کو بغاوت، عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا، رانا ثنااللہ

دوران سماعت سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ شہباز گل کا میڈیا ٹرائل نہیں ہو رہا، قانونی کارروائی آگے بڑھا رہے ہیں، شہباز گل کی ایف آئی اے فرانزک رپورٹ مثبت آئی ہے، شہباز گل کا ٹرانسکرپٹ اداروں کے خلاف ہے۔

پراسیکوٹر نے مزید کہا کہ جب موبائل مل جائے گا فرانزک ہوجائے گا تو پتا چل جائے گا۔

دوران سماعت شہباز گِل نے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر اعتراض کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس، جسمانی ریمانڈ کو صرف تشدد کے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان پر مرضی کے بیانات دینے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اے آر وائی نیوز’ پر ان کی جانب سے دیے گئے بیان کے لیے کوئی موبائل فون استعمال نہیں کیا گیا، لائیو ٹرانسمیشن کے دوران ریمارکس 8 اگست کو نشر کیے گئے جو کہ محرم کی نویں تاریخ تھی جبکہ موبائل فون سروس معطل تھی۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل کو اسلام آباد کے بنی گالا چوک سے ‘اغوا’ کیا گیا، پی ٹی آئی رہنماؤں کا دعویٰ

شہباز گل نے کہا کہ وہ اپنے بنی گالا آفس میں نصب لینڈ لائن فون کے ذریعے نیوز چینل سے بات کر رہے تھے اور ان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی منظوری کا کوئی جواز نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مزید ریمانڈ کی منظوری کا مطلب صرف ملزم کو مزید ٹارچر کے مقاصد کے لیے پولیس کے حوالے کرنا ہوگا۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جس کے بعد شہباز گل کو کمرہ عدالت سے بخشی خانہ منتقل کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا۔

جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کے خلاف نظر ثانی اپیل مسترد

شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف اپیل ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے مسترد کر دی۔

پولیس نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی۔

نظر ثانی کی اپیل سرکاری وکیل رانا حسن عباس نے دائر کی جب کہ ڈائری برانچ نے نظر ثانی کی درخواست پر اعتراض عائد کیا تھا۔

عملہ ڈائری برانچ کی جانب سے کہا گیا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر کے فیصلے کی تصدیق شدہ کاپی اپیل کے ساتھ منسلک نہیں ہے جس پر پراسیکیوٹر نے نظر ثانی کی درخواست پر اعتراض دور کر تے ہوئے جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر کی عدالت کی تصدیقی شدہ کاپی درخواست کے ساتھ لگا دی۔

ڈیوٹی جج ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے درخواست سماعت کی۔

پولیس کی جانب سے نظر ثانی اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کا حکم نامہ معطل کر کے مزید جسمانی ریمانڈ دیا جائے، ملزم شہباز گل سے مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔

پراسیکیوٹر رانا حسن عباس کا کہنا تھا کہ ہم نے ریمانڈ کی استدعا کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا جس پر جج کا کہنا تھا کہ میں اس نظر ثانی کی اپیل پر سماعت ہی نہیں کر سکتا۔

پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ آپ معاملے کی مزید سماعت صبح کے لیے رکھ لیں، ہم دلایل دیں گے جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ آپ آج ہی دلائل کہ یہ قابل سماعت بھی ہے یا نہیں۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ میں سیکشن 435 پر دلایل دینا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں جس پر جج نے پراسیکیوٹر رانا حسن عباس کو دلائل دینے کی اجازت دیدی۔

اسی دوران پاکستان تحریک انصاف کی وکلا ٹیم بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئی جب کہ پی ٹی آئی کے رہنما علی نواز اعوان اور ذلفی بخاری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے

بعد ازاں، شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ مسترد کرنے کے خلاف نظرثانی اپیل پر ایڈیشنل سیشن جج عدنان خان نے سماعت کی، سماعت کے آغاز پر پراسیکیوٹر راناحسن عباس نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل خود عدالت کے سامنے پیش ہو رہے ہیں، سماعت میں وقفہ کیا جائے جس پر عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔

بعد ازاں، دوران سماعت جج نے ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر محمد نسیم سے استفسار کیا کہ حکومت کی جانب سے پراسیکیوٹر کا ہیڈ کون ہے۔

ڈسٹرکٹ پراسیکوٹر کا کہنا تھا کہ جوڈیشل آرڈر ہے یا ایڈمنسٹریٹو آرڈر ہے اس کو عدالت نے دیکھنا ہے۔

عدالت نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل صاحب آپ کی پوزیشن نیوٹرل کی ہے۔

ڈسٹرکٹ پراسیکوٹر نے دلائل دینا شروع کیے تو ایڈووکیٹ جنرل نے ڈسٹرکٹ پراسیکوٹر کو روکنے کی کوشش جس پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو ڈسٹرکٹ پراسیکوٹر کو دلائل دینے سے روکنے سے منع دیا۔

ڈسٹرکٹ پراسیکوٹر نے نظرثانی اپیل قابل سماعت ہونے پر دلائل کا آغاز کردیا، انہوں نے نظرثانی اپیل قابل سماعت ہونے پر مختلف عدالتوں کے حوالے دیے۔

پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ عدالت ریمانڈ کی درخواست پر نظرثانی کرسکتی ہے، ہمیں تیاری کے لیے وقت درکار ہے کل پراسیکوٹر تعینات کریں گے۔

دوران سماعت شہباز گل کے ریمانڈ کی نظرثانی اپیل پر دلائل دینے یا نہ دینے سے متعلق ایڈوکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر میں اختلاف سامنے آیا جس پر عدالت نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل کسی وکیل کو دلائل سے نہیں روک سکتے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ پراسیکیوٹر کے دیے گئے عدالتی فیصلوں سے مطمئن ہوا تو سماعت کل دوبارہ ہو گی ، اگر پراسیکیوٹر کے عدالتی فیصلے مطمئن نہ کر سکے تو عدالت فیصلہ کردے گی۔

بعد ازاں، شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف اپیل ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے مسترد کر دی تھی۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر شہباز گل کو 2 روز قبل 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا تھا۔

اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے ان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گِل کو اسلام آباد پولیس نے قانون کے مطابق بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس کو بنی گالا کی سیکیورٹی سنبھالنے کیلئے بھیج رہے ہیں، پی ٹی آئی رہنما

اسلام آباد میں وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ شہباز گل کے خلاف باقاعدہ ایک مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا گیا ہے اور صبح عدالت میں مقدمے کے ثبوت پیش کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ممنوعہ فنڈنگ اور توشہ خانہ ریفرنس آنے کے بعد ایک بیانیہ بنایا جس کی ذمہ داری ایک نجی ٹی وی چینل سمیت پاکستان تحریک انصاف رہنما فواد چوہدری اور ڈاکٹر شہباز گل کو دی گئی۔

وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ عمران خان کی زیر صدارت ایک اجلاس ہوا جس میں سازشی بیانیہ بنایا گیا اور اس کی ذمہ داری شہباز گِل اور فواد چوہدری کو سونپی گئی جس کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل پر فون کال پر بات کرکے پورا بیانیہ پڑھ کر سنایا گیا جس میں ایسے جملے بھی شامل تھے جن کا نشر ہونا قومی مفاد میں نہیں تھا مگر اس دوراں شہباز گِل کو روکا نہیں گیا۔

قبل ازیں پی ٹی آئی رہنماؤں نے شہباز گل کی گرفتاری کو اغوا قرار دیا تھا۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے بھی ٹوئٹر پر واقعے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اسے گرفتاری کے بجائے ‘اغوا’ قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: بنی گالا: عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پولیس کی موجودگی، اسلام آباد پولیس کی وضاحت

سابق وزیراعظم نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا تھا کہ کیا ایسی شرمناک حرکتیں کسی جمہوریت میں ہو سکتی ہیں؟ سیاسی کارکنوں کے ساتھ دشمن جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ یہ سب بیرونی پشت پناہی سے مسلط کی جانے والی مجرموں کی سرکار کو ہم سے تسلیم کروانے کے لیے کیا جارہا ہے۔

شہباز گل کا متنازع بیان

رواں ہفتے کے آغاز میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔

اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کا متنازع بیان، عماد یوسف کا نام مقدمے سے خارج کرنے کا حکم

ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔

شہباز گل نے کہا تھا کہ جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔

پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024