شہباز گِل کا متنازع بیان، عماد یوسف کا نام مقدمے سے خارج کرنے کا حکم
کراچی کی مقامی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گِل کے متنازع بیان کے سلسلے میں درج کیے گئے مقدمے سے اے آر وائی کے صحافی عماد یوسف کا نام خارج کرنے کی ہدایت کردی۔
جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کی عدالت میں جمعرات کو مقدمے کی سماعت کے دوران اے آر وائی کے سینیئر نائب صدر عماد یوسف کو عدالت میں پیش کیا گیا۔
مزید پڑھیں: شہباز گل کا متنازع بیان، سلمان اقبال اور اینکرپرسنز کے خلاف مقدمہ درج
تفتیشی افسر نے عدالت سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس کی عماد یوسف کے وکیل نعیم قریشی نے مخالفت کی۔
نعیم قریشی نے مؤقف اختیار کیا کہ عماد یوسف کا نام مقدمے میں شامل کرنا بدنیتی ہے کیونکہ عماد یوسف کا پورے معاملے میں کوئی کردار نہیں تھا۔
انہوں نے میمن گوٹھ تھانے میں درج ایف آئی آر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسی متن کے ساتھ اسلام آباد میں بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے لیکن ایک واقعے کی ایک سے زیادہ ایف آئی آر نہیں ہوسکتیں۔
نعیم قریشی ایڈووکیٹ نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 63 کے تحت مقدمہ خارج کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کر لیا۔
عدالت نے عماد یوسف کا نام مقدمے سے خارج کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گل 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
عدالت نے کہا کہ مچلکے جمع کروانے پر عماد یوسف کو رہا کردیا جائے۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی رہنما کے متنازع بیان پر کراچی کے علاقے میمن گوٹھ کے پولیس اسٹیشن میں اے آر وائی کے سی ای او سلمان اقبال، اینکر پرسنز ارشد شریف، خاور گھمن اور عماد یوسف کو مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق 8 اگست کو درج مقدمے میں پروڈیوسر عدیل راجا، عماد یوسف اور اینکر پرسن ارشد شریف اور خاور گھمن کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر ریاست کی جانب سے میمن گوٹھ تھانے کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر انسپکٹر عتیق الرحمٰن نے درج کروائی تھی جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 121، 505، 153، 153-اے، 131، 124-اے، 120، 34 اور 109 شامل کی گئی تھیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز کی جانب سے 8 اگست کو نشر ہونے والے نیوز بلیٹن کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں شہباز گل نے پاک فوج کے خلاف نفرت انگیز ریمارکس ادا کیے تھے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی قیادت کو شہباز گل کے بیان سے الگ ہونا چاہیے، پرویز الہٰی
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ارشد شریف اور خاور گھمن نے اس پروگرام میں تجزیہ کار کے طور پر شرکت کی۔
ایف آئی آر میں الزام لگایا کہ پروگرام میں اس طرح کے خیالات کا اظہار کر کے پی ٹی آئی اور اے آر وائی نیوز واضح طور پر مسلح افواج کے ان حصوں کے درمیان تقسیم پیدا کر رہے ہیں جنہوں نے پارٹی سے وفاداری کا اظہار کیا اور جو وفاداری کا اظہار نہیں کرتے۔
شکایت کنندہ نے مزید الزام لگایا کہ شہباز گل مسلح افواج میں نفرت اور بغاوت کے بیج بو رہے ہیں، وہ سرکاری افسران کو حکومت کی ہدایات پر عمل کرنے کے خلاف دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔
شکایت کنندہ نے مزید کہا کہ یہ ایک پہلے سے سوچی سمجھی، منظم سازش ہے جسے سندھ اور دیگر صوبوں میں مسلح افواج اور سرکاری محکموں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ یہ واضح ہے کہ پروگرام میں حصہ لینے والے افراد نے پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور سی ای او کے ساتھ مل کر سازش کی تھی اور ان تمام افراد کی طرف سے کیے گئے اس عمل کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: اے آر وائی نیوز کو حکومت مخالف 'نفرت انگیز مواد' نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری
ایف آئی آر کے اندراج کے بعد منگل اور بدھ کی درمیانی شب کراچی میں عماد یوسف کی رہائش گاہ سے انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق چینل کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے گرفتار کیا گیا، چھاپہ مار ٹیم آدھی رات کو مرکزی دروازے کے اوپر سے کودی اور گھر میں تور پھوڑ کرنے کے ساتھ ساتھ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔
سینئر صحافیوں اور صحافتی برادری نے عماد یوسف کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
شہباز گل کا متنازع بیان
واضح رہے کہ دو روز قبل پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔
اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: شہباز گِل کو بغاوت، عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا، رانا ثنااللہ
ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔
انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔