امن مذاکرات کی کامیابی ٹی ٹی پی کے برتاؤ پر منحصر ہے، پاکستانی سفیر
افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق نے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ امن مذاکرات کی کامیابی کا انحصار کالعدم گروپ کے رویے پر ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے اسلام آباد میں ’افغانستان میں ابھرتی ہوئی صورتحال: بین الاقوامی اور قومی تناظر‘ کے عنوان سے ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں افغان طالبان مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں، ان کی کامیابی کا انحصار ٹی ٹی پی کے طرز عمل پر ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: ’افغانستان کا مستقبل پاکستان کے ساتھ طالبان کے تعلقات، مغربی امداد پر منحصر ہے‘
محمد صادق کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان کے صوبے پکتیکا میں ایک بم حملے میں ٹی ٹی پی کے اہم رہنما عمر خالد خراسانی کے ساتھ 2 دیگر رہنماؤں کی ہلاکت ہوئی ہے، تاحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
ایک بیان میں ٹی ٹی پی کے ترجمان نے کہا کہ عمر خراسانی پاکستانی حکام اور قبائلی جرگے کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹی ٹی پی ٹیم کا حصہ تھے۔
واضح رہے کہ عمر خراسانی کی ہلاکت سے ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان رواں سال جون سے جاری امن مذاکرات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
'افغان قیادت پر دباؤ'
دریں اثنا افغانستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد صادق نے طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا 'گزشتہ سال اگست کے بعد سے بین الاقوامی برادری کی جانب سے اجتماعیت کے پُر زور مطالبات نے امارت اسلامیہ کی قیادت پر دباؤ بڑھا دیا ہے'۔
انہوں نے شرکا کو بتایا کہ 'روایتی طور پر سیاسی ڈھانچے کو ملک کا اندرونی مسئلہ سمجھا جاتا رہا ہے اس لیے ہم اس حوالے سے کڑے معیارات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اخراج اور تصادم کی سیاست کے مقابلے میں مفاہمت اور اجتماعیت کا راستہ زیادہ مستحکم اور خوشحال نتائج کی جانب لے جائے گا۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں پاکستان کی کارروائی کی اطلاعات کا 'جائزہ' لے رہے ہیں، دفتر خارجہ
انہوں نے کہا کہ 'افغانستان میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں کا کھلنا نہ صرف بین الاقوامی برادری کو عبوری افغان حکومت کی جانب سے مثبت اشارہ دے گا بلکہ افغانستان کی طویل مدتی سماجی ترقی کو بھی یقینی بنائے گا'۔
انہوں نے مزید کہا کہ گہری ثقافتی اور مذہبی وابستگیوں کے ساتھ پڑوسی ہونے کے ناطے ہم ان کی بعض آرا اور باریکیوں کو سمجھتے ہیں لیکن ہم بنیادی انسانی حق کے طور پر ہر ایک کے لیے تعلیم کے حق پر یقین رکھتے ہیں۔
محمد صادق نے بین الاقوامی برادری سے پاکستان کے دیرینہ مطالبے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 'عالمی برادری کی توجہ دنیا میں کہیں اور رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے افغانستان کی سنگین انسانی اور معاشی صورتحال سے نہیں ہٹانی چاہیے'۔
'افغانستان میں امن و امن کی بہتر صورتحال'
دریں اثنا افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے تقریب سے خطاب میں کئی عوامل پر روشنی ڈالتے ہوئے وضاحت کی کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے ملک میں امن اور سلامتی میں واضح مایاں بہتری آئی ہے جہاں کئی علاقوں میں رسائی آسان ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کی تصدیق اقوام متحدہ کی وہاں موجودگی سے بھی ہوئی ہے، گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران دیہی علاقوں میں موجود افغانوں کو راتوں رات چھاپوں کے مسئلے کا بھی سامنا تھا لیکن آج ایسا نہیں ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ بندی میں 30 مئی تک توسیع کردی
معیشت کے بارے میں بات کرتے ہوئے منصور احمد خان نے کہا کہ امریکی انخلا کے بعد افغان معیشت محدود ہو چکی ہے، 12 سے 13 ارب ڈالر کے ذخائر کی عدم دستیابی کے ساتھ اس وقت ملک کے پاس صرف 3 ارب ڈالر ہیں جو کہ واضح فرق ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے سفارتی دستوں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان حکومت بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعمیری طور پر منسلک ہے۔
'مشترکہ نظریہ'
اس موقع پر افغانستان کے سابق نائب وزیر خارجہ جاوید لودین نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کا اقتدار سنبھالنا ملکی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطے کا ایک مشترکہ نظریہ ہے اور فعال مشغولیت کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: عالمی برادری پر زلزلہ زدہ افغانستان کی مدد کرنے کیلئے زور
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان کا علاقائی نقطہ نظر قابل تعریف ہے اور اس سے پاکستان کے نزدیک اس مسئلے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس خطے کا افغانستان کے ساتھ مشترکہ ماضی ہے اور اب مشترکہ مستقبل بھی ہونا چاہیے جس کا نظریہ اتحاد اور امن پر محیط ہو۔