چیف سیکریٹری پنجاب کی وفاقی حکومت سے ‘خدمات واپس’ لینے کی درخواست
پنجاب کے چیف سیکریٹری کامران علی افضل نے وفاقی حکومت کو خط ذریعے درخواست کی ہے کہ وہ ‘ذاتی وجوہات کی وجہ سے’ موجودہ عہدے پر فرائض انجام نہیں پائیں گے لہٰذا ان کی خدمات فوری طور پر واپس لی جائیں۔
چیف سیکریٹری پنجاب نے سیکریٹری اسٹبلشمنٹ ڈویژن انعام اللہ خان کے نام خط میں تفصیل سے آگاہ کیا۔
مزید پڑھیں: پنجاب کی 21 رکنی نئی کابینہ نے حلف اٹھا لیا
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر عمر سرفراز چیمہ سے پریس کانفرنس میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر پی ٹی آئی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
عمرسرفراز چیمہ نے کہا کہ ‘ان کا دورانیہ ڈھائی یا 3 مہینے کا تھا یا ہوسکتا ہے وہ ملک کر آگے بڑھنے نہیں پارہا تھا کیونکہ ان کی اپنی ترجیحات اور سروس کیریئر ہے’۔
خیال رہے کہ کامران علی افضل کو ستمبر 2021 میں تعینات کیا گیاتھا اور اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب پی ٹی آئی کے عثمان بزدار تھے اور وہ پی ٹی آئی حکومت میں تعینات ہونے والے پانچویں چیف سیکریٹری تھے اور ان کا تعلق ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپ کی 21 ویں کامن سے ہے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی نے چیف سیکریٹری کامران علی افضل اور پنجاب کے پولیس چیف راؤ سردار علی خان پر برہمی کا اظہار کیا تھا کہ انہوں نے پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے خلاف کارروائی کی اور رواں برس کے اوائل میں پنجاب اسمبلی میں پولیس فورس تعینات کردی تھی۔
اسی طرح چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بھی عوامی اجتماعات میں چیف سیکریٹری اور سابق آئی جی کے ساتھ ساتھ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کابینہ کے 21 اراکین کے نام فائنل، بزدار ٹیم کے اہم افراد نظر انداز
عمران خان نے خاص طور پر 25 مئی کو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران لاہور اور لیہ میں تعینات کیے گئے اہلکاروں کے حوالے سے شدید تنقید کی تھی۔
پی ٹی آئی رہنماؤں نے بھی افسران کو خبردار کیا تھا کہ وہ دوبارہ حکومت میں آکر ان کے خلاف قانونی اور محکمہ جاتی کارروائی شروع کریں گے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک تقریر میں حکومت پنجاب کے دونوں اعلیٰ افسران کا نام لیا تھا اور ان پر مسلم لیگ(ن) کا ساتھ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں عبرت کا نشان بنانے کا اعلان کیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی جی راؤ سردار علی کان اور کامران علی افضل نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ انہیں پنجاب سے منتقل کردیا جائے اور انہیں خدشہ تھا کہ وزیراعلیٰ کے دوبارہ انتخاب کی روشنی میں صوبے کی حکومت تبدیل ہونے پر تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
ڈان کو اپریل میں ذرائع نے بتایا تھا کہ دونوں افسران کو سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے طلب کیا تھا اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں کے ہمراہ انہوں نے زور دیا تھا کہ پی ٹی آئی کے منحرف صوبائی اراکین کو جمع کریں اور یقینی بنائیں کہ وہ وزیراعلیٰ کے لیے مخالف امیدوار کو ووٹ نہیں دینا چاہیے۔
چیف سیکریٹری اور سابق آئی جی نے اطلاعات کے مطابق غیرقانونی سرگرمی میں ملوث ہونے سے انکار کردیا تھا اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا تھا کہ دونوں افسران کو تبدیل کردیا جائے۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ نے چیف سیکریٹری اور صوبائی پولیس سربراہ کی تبدیلی کے لیے دو الگ سمریاں وزیراعظم کو بھیج دی تھیں۔