• KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

ایمن الظواہری کی ہلاکت: ’مستقبل میں پاک افغان تعلقات اچھے نہیں رہیں گے‘

شائع August 3, 2022

القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری افغان دارالحکومت کابل میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے۔ ان کا محل نما مکان جس علاقے میں واقع تھا وہ کابل میں اشرافیہ کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ ڈرون حملے کے بعد فطری طور پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ ایمن الظواہری کی ہلاکت سے القاعدہ کو کتنا نقصان ہوا اور اس سے یہ گروپ کس قدر کمزور ہوگا؟ لیکن افغانستان اور پاکستان میں اس معاملے پر کچھ اور سوالات زیادہ اہمیت کے حامل نظر آئے۔

پاکستان میں یہ سوالات اٹھے کہ ڈرون کہاں سے اڑا؟ پاکستان کا کس قدر کردار ہے؟ اور کیا ہم معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے دوبارہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شامل ہوگئے ہیں؟

افغانستان کے لیے بڑا سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ دوحہ معاہدے میں افغان طالبان نے لکھ کر دیا تھا کہ غیر ملکی دہشتگرد گروپوں کو پناہ نہیں دی جائے گی لیکن کابل میں ایمن الظواہری جس گھر میں مارے گئے وہ سراج الدین حقانی کے قریبی ساتھی کا گھر تھا۔ تو کیا دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی؟ افغانستان میں کوئی امریکی انٹیلی جنس نیٹ ورک نہ ہونے کے باوجود اس قدر درست انٹیلی جنس کیسے اکٹھی کی گئی؟ ہم ان سوالات کے جواب کھوجنے کی کوشش کریں گے۔

القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری— تصویر: اے ایف پی/ فائل
القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری— تصویر: اے ایف پی/ فائل

ایمن الظواہری اتوار کی صبح سوا 6 بجے کابل میں ڈرون حملے میں مارے گئے اور پیر کی صبح امریکی صدر نے ویڈیو خطاب میں اس کا اعلان کیا۔ امریکی صدر نے یہ اعلان کرتے ہوئے کسی ملک کی مدد شامل ہونے کا براہِ راست ذکر نہیں کیا لیکن انہوں نے اتحادیوں کا شکریہ ضرور ادا کیا۔

امریکی صدر کے مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان نے اے بی سی ٹی وی کے پروگرام گڈ مارننگ امریکا میں کہا کہ جب یہ حملہ کیا گیا تو افغانستان میں ہمارا کوئی فرد یونیفارم میں نہیں تھا۔ اس معاملے پر امریکا افغان طالبان کے ساتھ براہِ راست بات کر رہا ہے۔ میں سب کچھ نہیں بتاؤں گا، لیکن افغان طالبان اس بات کو بخوبی سمجھ گئے ہیں کہ امریکا اپنے مفادات کا تحفظ کرسکتا ہے۔

امریکی صدر اور ان کے مشیر قومی سلامتی کے بیان کے بعد پاکستان کے دفترِ خارجہ کا بیان زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس میں الظواہری کا نام تک نہیں لیا گیا اور دہشتگردی کے خلاف ملک کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف ہر ایکشن کی حمایت ظاہر کی گئی۔

امریکی ڈرون حملے کا وقت بھی بہت اہم ہے۔ پاکستان پورے ایک سال سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کے لیے افغان طالبان کو کہتا رہا لیکن کوئی عمل نہ ہوا۔ پچھلے ماہ پاکستان نے بااثر علما کا ایک وفد کابل بھیجا جس نے ٹی ٹی پی کی قیادت سے مذاکرات کیے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا الٹا ٹی ٹی پی نے اپنے مطالبات کی فہرست تھمادی۔

کہا جاتا ہے کہ امریکا اپریل سے ہی الظواہری کے ٹھکانے سے آگاہ تھا اور کئی بار کی بریفنگز اور منصوبہ بندی کی منظوری کے بعد یہ حملہ کیا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ الظواہری کو جب اس گھر میں خاندان سمیت منتقل کیا گیا تو سراج الدین حقانی اور ملا یعقوب کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا اور یہی دو رہنما الظواہری سے ملے تھے۔

اب افغان طالبان کے ذرائع سے یہ اطلاع بھی سامنے آرہی ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کی قیادت کے درمیان اس ڈرون حملے کے بعد اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور حقانی نیٹ ورک کا خیال ہے کہ الظواہری سے متعلق معلومات ملا یعقوب نے دورہ قطر کے دوران شیئر کیں۔ اس بات کو یہ خیال بھی تقویت دیتا ہے کہ امریکا نے الظواہری پر ڈھائی کروڑ ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا اور الظواہری کی ہلاکت کے اگلے دن امریکا نے افغانستان کو 4 کروڑ ڈالر منتقل کیے۔

صدر بائیڈن حملے کی منصوبہ بندی کے دوران اپنی قومی سلامتی ٹیم کے ساتھ— تصویر: ٹوئٹر
صدر بائیڈن حملے کی منصوبہ بندی کے دوران اپنی قومی سلامتی ٹیم کے ساتھ— تصویر: ٹوئٹر

پاکستان پہلے ہی ایک سال سے ٹی ٹی پی کے حملوں کا شکار ہے اور افغان طالبان کے آنے سے حملوں کی شدت اور رفتار بڑھی ہے۔ اب یہ ڈرون حملہ نہ صرف افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان اور حقانی نیٹ ورک میں تلخیاں پیدا کرسکتا ہے بلکہ پاکستان کے موجودہ افغان قیادت سے تعلقات بھی خراب ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کا محتاط ردِعمل کسی بدگمانی سے بچنے کے لیے ہے لیکن امریکی ڈرون کہاں سے اڑا اور کس کی فضائی حدود چیرتا ہوا کابل کے دل تک پہنچا؟ یہ سوال دونوں ملکوں کے درمیان تلخی ضرور پیدا کرے گا۔

امریکی ڈرون پاکستان کی سرزمین سے نہیں اڑا، یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کیونکہ افغانستان سے امریکی انخلا کے وقت یہ سوال اٹھا تھا کہ انسدادِ دہشتگردی کے لیے اڈے تلاش کیے جائیں لیکن پاکستان نے اڈے دینے سے انکار کردیا تھا اور یہی انکار پاکستان کی معاشی مشکلات کا سبب بنا۔

پاکستان کو تمام مطالبات پورے کرنے کے باوجود ایف اے ٹی ایف سے نہ نکالا گیا اور نہ ہی ہمیں آئی ایم ایف پروگرام کے لیے کوئی مدد ملی۔ الٹا رکاوٹیں ہی پیدا کی گئیں۔ سی پیک کے قرضوں کی واپسی کا بندوبست کیا ہے اور کیسے ہے؟ اس سوال کو بنیاد بناکر آئی ایم ایف پروگرام کو مؤخر کیا جاتا رہا۔ یہ وہی سوال ہے جو امریکی پالیسی ساز اٹھاتے رہے اور کہتے رہے کہ امریکی رقم سے چین کو ادائیگی نہیں کرنے دیں گے۔

اس ڈرون حملے کے بعد یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شاید اب پاکستان کو مالی مدد مل جائے لیکن یہ ڈرون حملہ مالی مدد کے لیے ہوگا یہ بہت چھوٹی بات معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کی معاشی مشکلات اپنی جگہ لیکن افغانستان سے پاکستان کو جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں اس لیے پاکستان کو اپنی راہ بدلنی پڑی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ پاکستان نے اس حملے کے لیے فضائی حدود استعمال کرنے دی لیکن یہ تو 2003ء کا معاہدہ تھا کہ پاکستان افغانستان جانے اور وہاں سے واپسی کے لیے امریکا کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے گا، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی۔

دعوے سے کہا جاسکتا ہے کہ امریکی ڈرون پاکستانی سرزمین سے نہیں اڑا— تصویر: اے پی/ فائل
دعوے سے کہا جاسکتا ہے کہ امریکی ڈرون پاکستانی سرزمین سے نہیں اڑا— تصویر: اے پی/ فائل

اگر کہیں پالیسی میں تبدیلی آئی ہے تو وہ امریکا میں آئی ہے جو افغانستان سے انخلا کے بعد سے پاکستان کو اہمیت نہیں دے رہا تھا۔ مئی کے آغاز پر پاکستان کے ایک طاقتور انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ نے واشنگٹن کا دورہ کیا تھا اور اپنے ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے علاوہ امریکا کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان سے بھی ملے تھے۔ پالیسی میں یہ تبدیلی تب آئی تھی۔ پاکستان امریکی بے رخی کا شکار ضرور ہوا لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان امریکا کا اہم غیر نیٹو اتحادی ہے اور یہ حیثیت اب بھی برقرار ہے۔

ایمن الظواہری کی ہلاکت ایسی کامیابی ہے جس کا امریکی صدر جو بائیڈن کو عرصے سے انتظار تھا۔ پچھلے سال افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے موقع پر صدر بائیڈن نے ‘اوور دی ہورائزن’ حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا۔ الظواہری کی ہلاکت اس اسٹریٹیجی کی کامیابی دکھانے کے لیے بہت کافی ہے اسی لیے جیک سلیوان نے کہا کہ جب الظواہری کی ہلاکت کا کامیاب آپریشن کیا گیا تو کوئی بھی امریکی یونیفارم میں افغانستان میں موجود نہیں تھا۔ 20 سال امریکی افواج افغانستان میں موجود رہیں اور الظواہری کو ہلاک نہ کرسکیں اور انخلا کا ایک سال مکمل ہونے سے پہلے ہی الظواہری مارا گیا، یہ بائیڈن کے لیے بڑی کامیابی ہے۔

ملا یعقوب (دائیں) اور سراج الدین حقانی (بائیں)— تصویر: ٹوئٹر
ملا یعقوب (دائیں) اور سراج الدین حقانی (بائیں)— تصویر: ٹوئٹر

اس کامیابی کے باوجود امریکی حکام خطے میں اڈوں کے بغیر بائیڈن کی پالیسی کی مکمل کامیابی کا یقین نہیں رکھتے۔ امریکی فوجی اور انٹیلی جنس حکام اب بھی کہتے ہیں کہ افغانستان پر نظر رکھنے کے لیے انسانی انٹیلی جنس نیٹ ورک کے بغیر یہ پالیسی نہیں چل سکتی۔ خطے میں اڈوں کی ضرورت پر یقین رکھنے والے حکام کا کہنا ہے کہ الظواہری بہترین انٹیلی جنس اور خطے کے ممالک کی طرف سے فضائی حدود کے استعمال کی اجازت کے نتیجے میں مارا گیا۔ اگر کل فضائی حدود کے استعمال کی اجازت نہ ملے یا انٹیلی جنس ناقص ہو تو نئی کارروائی کیسے ممکن ہوگی؟

الظواہری کی ہلاکت کے بعد دوحہ معاہدے اور اس پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی سوال اٹھے ہیں۔ دوحہ معاہدے میں لکھا گیا تھا کہ القاعدہ اور دیگر جنگی گروپ تب تک افغانستان میں رہ سکتے ہیں جب تک وہ افغان زمین کو تربیت، فنڈ جمع کرنے اور منصوبہ بندی کے لیے استعمال نہ کریں۔ اب نئی امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کہتی ہے کہ داعش خراسان 6 ماہ کی تیاری کے ساتھ امریکا کے اندر حملے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے 500 جنگجو افغانستان میں موجود ہیں اور طالبان نے ان کے ساتھ تعلقات نہیں توڑے۔

ایمن الظواہری کی ہلاکت اور امریکی ڈرون حملے نے خطے میں ایک نئے کھیل کو جنم دیا ہے۔ طالبان اس حملے پر مکمل خاموش ہیں اور انہوں نے صرف یہ کہا ہے کہ یہ حملہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر نے بھی افغان طالبان سے متعلق کچھ نہیں کہا۔ یہ خطرناک کھیل ہے اور ایک بات صاف ہے کہ آنے والے دنوں میں پاک-افغان تعلقات اچھے نہیں رہیں گے۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

KHAN Aug 03, 2022 09:38pm
ایک فون بھی کیا گیا تھا۔
سید رضی الدین احمد Aug 05, 2022 03:24pm
The straight line distance from Doha to Kabul is about 1 984 kilometers. And total distance for return journey makes it 4,000 km (including some loitering time to wait for target to appear and also capture post-operation live stream/images. The distance Predator can travel (without refuelling) is not more than 1300-1500 km. So it is technically impossible to even fly from Doha and reach Kabul (even if Pak air space is used). Wheras, Drone is to return as well. The crow distance from Dushanbe (Tajikstan) to Kabul is 575 km. So, its logically Tajik, Uzbek, Krygyz land which is used and possibly while return Drone was refuelled / land at Tajikstan. And Pakistanis are unnecessarily linking everything on its Army.

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024