الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ کل سنانے کا اعلان
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف دائر ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ کل (2 اگست) سنانے کا اعلان کردیا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 2 اگست (کل) کو چیئرمین الیکشن کمیشن سکندر سلطان راجا اراکین نثار احمد درانی اور شاہ محمد جتوئی پر مشتمل 3 رکنی بینچ صبح 10 بجے سماعت کرے گا۔
مزید پڑھیں: 8 سال بعد پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ
بیان میں کہا گیا کہ پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2022 کی دفعہ 6 کے تحت شکایت کا فیصلہ سنایا جائے گا۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے خلاف 2014 سے زیر سماعت ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ رواں برس 21 جون کو محفوظ کر لیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سماعت مکمل ہونے پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا تھا کہ دونوں فریقین کا شکریہ ادا کرتے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کا کیس مکمل ہوگیا، ہم چاہتے ہیں کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے کیسز بھی ختم ہوں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ضرورت پڑی تو فریقین کو دوبارہ بلایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے خلاف کیس کو ’ممنوعہ فنڈنگ کیس‘ قرار دے دیا
چیف الیکشن کمشنر نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن ووٹر کا اعتماد بحال اور ملک کو جمہوری طور پر مضبوط کرنا چاہتا ہے۔
دوسری جانب سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر کے باہر 4 اگست کو احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے جہاں وہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا سے استعفے کا مطالبہ کریں گے۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی نیشنل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ ہم 4 اگست کو الیکشن کمیشن کے سامنے پُرامن احتجاج کریں گے، کہ چیف الیکشن کمشنر استعفیٰ دیں، کسی صورت بھی موجودہ الیکشن کمشنر کی نگرانی میں آئندہ انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔
فارن فنڈنگ کیس میں اب تک کیا ہوا؟
خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں مذکورہ کیس دائر کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے 'ہنڈی' کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔
ان کا یہ بھی الزام تھا کہ جو فنڈز بیرونِ ملک موجود اکاؤنٹس حاصل کرتے تھے، اسے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں پوشیدہ رکھا گیا۔
بعد ازاں ایک سال سے زائد عرصے تک اس کیس کی سماعت ای سی پی میں تاخیر کا شکار رہی تھی کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اکتوبر 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ اس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال سے ای سی پی کو روکا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: ای سی پی کو پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 روز میں کرنے کا حکم
فروری 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار پر جائزہ لینے کے لیے کیس کو دوبارہ ای سی پی کو بھیج دیا تھا، اسی سال 8 مئی کو ای سی پی کے فل بینچ نے اس کیس پر اپنے مکمل اختیار کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اس طرح کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی کہ درخواست گزار کو پارٹی سے نکال دیا گیا اور وہ پی ٹی آئی اکاؤنٹس پر سوالات اٹھانے کا حق کھو بیٹھے۔
علاوہ ازیں مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ اکاؤنٹس کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک اسکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔
گزشتہ برس یکم اکتوبر کو ای سی پی نے غیر ملکی فنڈنگ کیس کی جانچ پڑتال میں رازداری کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے دائر 4 درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
10 اکتوبر 2019 کو الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کمیٹی کے ذریعے تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کے آڈٹ پر حکمراں جماعت کی جانب سے کیے گئے اعتراضات مسترد کردیے تھے لیکن پی ٹی آئی نے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور نومبر 2019 میں فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: فارن فنڈنگ کیس: اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی کی دستاویزات واپس لے لیں
کمیشن نے 2020 غیر ملکی فنڈنگ کیس سے متعلق اپنی اسکروٹنی کمیٹی کی ’ادھوری‘ رپورٹ کو رد کر دیا تھا اور حکم نامے میں کہا تھا کہ رپورٹ مکمل اور جامع نہیں ہے۔
بعدازاں نومبر 2021 میں الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی کے فنڈز کی آڈٹ رپورٹ جمع کروا دی تھی، مارچ 2019 میں تشکیل دی گئی کمیٹی نے ڈیڈ لائن بھی ختم ہونے کے 6 ماہ بعد اپنی رپورٹ جمع کروائی تھی۔
اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی اسکروٹنی کمیٹی کی تیار کردہ تہلکہ خیز رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈز حاصل کیے، فنڈز کو کم دکھایا اور درجنوں بینک اکاؤنٹس چھپائے۔
رپورٹ کے مطابق پارٹی نے مالی سال 10-2009 اور 13-2012 کے درمیان چار سال کی مدت میں 31 کروڑ 20 لاکھ روپے کی رقم کم ظاہر کی، سال کے حساب سے تفصیلات بتاتی ہیں کہ صرف مالی سال 13-2012 میں 14 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم کم رپورٹ کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 'پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس پر اس مدت کے لیے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی رائے کے جائزے میں رپورٹنگ کے اصولوں اور معیارات سے کسی انحراف کی نشاندہی نہیں ہوئی'۔
یہ بھی پڑھیں: اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں اپنی رپورٹ جمع کروادی
یہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے دستخط شدہ سرٹیفکیٹ پر بھی سوالیہ نشان ہے، جسے پی ٹی آئی کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کی تفصیلات کے ساتھ جمع کرایا گیا تھا۔
رپورٹ میں پی ٹی آئی کے چار ملازمین کو ان کے ذاتی اکاؤنٹس میں چندہ وصول کرنے کی اجازت دینے کے تنازع کا بھی حوالہ دیا گیا لیکن کہا گیا ہے کہ ان کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرنا کمیٹی کے دائرہ کار سے باہر تھا۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی مکمل جانچ پڑتال کے لیے اسکروٹنی کمیٹی مارچ 2018 میں تشکیل دی گئی تھی لیکن اسے اپنی رپورٹ ای سی پی کو پیش کرنے میں تقریباً چار سال لگے جو دسمبر 2021 میں جمع کرائی گئی تھی۔
تفصیلات منظر عام پر لانے کا حکم
البتہ اس رپورٹ میں چند دستاویزات کو خفیہ رکھا گیا تھا اور رپورٹ کے ساتھ منظر عام پر نہیں لایا گیا تھا جس کے بعد 19جنوری 2022 کو الیکشن کمیشن نے تمام خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا۔
14اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مقدمے کا فیصلہ ایک مہینے میں کرنے کا حکم دے دیا تھا جسے تحریک انصاف نے چیلج کردیا تھا اور ان کی انٹراکورٹ اپیل پر 30 روز میں فیصلہ کرنے کے عدالتی حکم کو معطل کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کی تمام فارن فنڈنگ کیسز یکجا سننے کی درخواست مسترد
15 جون کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے پی ٹی آئی کا مؤقف تسلیم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے عملے کو کیس فارن فنڈنگ کے بجائے ممنوعہ فنڈنگ لکھنے کی ہدایت کردی تھی۔