زیارت آپریشن میں مبینہ طور پر ہلاک شخص زندہ سلامت منظر عام پر آگیا
زیارت سے ایک فوجی افسر اور ان کے کزن کے اغوا اور قتل کے بعد سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے گئے آپریشن میں ہلاک ہونے والے 5 افراد میں مبینہ طور پر شامل ظہیر احمد بنگلزئی منظر عام پر آگئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں میں ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کے سامنے آنے والے ظہیر احمد بنگلزئی کی ہلاکت کی تصدیق ان کے اہل خانہ نے کی تھی۔
اہل خانہ نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ ظہیر احمد لاپتا افراد کی فہرست میں شامل تھے اور انہیں سیکیورٹی فورسز نے زیارت آپریشن میں 4 دیگر افراد کے ساتھ مارا ڈالا۔
بنگلزئی بلوچ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ظہیر احمد قبائلی رہنما اور پیپلز پارٹی کے رہنما سردار نور احمد بنگلزئی کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر میڈیا کے سامنے آئے، اس موقع پر ظہیر احمد کے 2 بھائی خورشید احمد بنگلزئی اور غلام حیدر بنگلزئی بھی موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں: زیارت آپریشن میں ہلاک 5 افراد کا تعلق دہشت گرد گروپ سے تھا، ضیا اللہ لانگو
زیارت آپریشن کے بعد ان کے اہل خانہ کو ہسپتال سے ایک لاش ملی تھی جس کی شناخت انہوں نے ظہیر احمد کے نام سے کی، بعد ازاں انہوں نے لاش کو کوئٹہ سے 50 کلومیٹر دور مستونگ قصبے میں خاندانی قبرستان میں دفن کر دیا تھا۔
پریس کانفرنس کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ظہیر احمد نے کہا کہ میں ایران کی جیل میں تھا، رہائی کے بعد چند روز قبل گھر واپس آیا تو اہل خانہ حیران رہ گئے۔
انہوں نے کہا کہ میں لاپتا شخص کے طور پر ایک آپریشن میں اپنی مبینہ ہلاکت اور اہل خانہ کی جانب سے آخری رسومات ادا کیے جانے کے بارے میں جان کر حیران ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں اچھا بھلا زندہ انسان ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ گمشدہ افراد کی فہرست میں میرا نام کیسے آیا، میرا تعلق کسی تنظیم سے نہیں ہے اور میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ہوں۔
مزید پڑھیں: زیارت سیکیورٹی فورسز آپریشن، حکومت کا جوڈیشل انکوائری کروانے کا فیصلہ
انہوں نے کہا کہ ’میں ایک دوست کے ساتھ ویزا لے کر ایران گیا تھا لیکن ایرانی حکام نے مجھے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا، میں نے 9 ماہ ایرانی جیل میں گزارے، ایرانی حکام نے مجھے پاکستان کی سرحد کے قریب چھوڑنے سے پہلے میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی‘۔
ظہیر احمد نے بتایا کہ وہ نوشکی پہنچے اور اگلے دن مستونگ واپس آئے جہاں انہوں نے اپنے کزن سے رابطہ کیا اور ان کے ہمراہ اپنے گھر چلے آئے جہاں گھر والے انہیں زندہ دیکھ کر حیران رہ گئے، اہل خانہ نے انہیں بتایا کہ ہسپتال کے عملے نے ایک لاش ان کے حوالے کی جس کی شناخت انہوں نے ظہیر احمد کے نام سے کی۔
خورشید احمد بنگلزئی نے میڈیا کو بتایا کہ چونکہ ان کا بھائی کافی عرصے سے لاپتا تھا اس لیے انہوں نے تھانے میں رپورٹ درج کرائی تھی۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سردار نور احمد بنگلزئی نے پریس کو بتایا کہ جھوٹے اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے زیارت آپریشن میں ہلاک ہونے والوں کو 'لاپتا افراد' کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: زیارت آپریشن میں ہلاک دہشت گردوں کی شناخت کیلئے جوڈیشل کمیشن قائم
انہوں نے کہا کہ لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا اور ان کے کزن عمر جاوید زیارت کو قتل کرنے والوں کے خلاف آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے عناصر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ظہیر بنگلزئی کا نام پہلے سے لاپتا افراد کی فرضی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ لاپتا افراد کو بے گناہ شہری ظاہر کیا جا سکے اور دہشت گردی کے اس گھناؤنے فعل سے توجہ ہٹائی جا سکے۔
قبائلی رہنما نے کہا کہ زیارت آپریشن میں امن دشمن عناصر مارے گئے تھے لیکن لاپتا افراد کے قتل کا ڈرامہ رچایا گیا، بنگلزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والا ظہیر احمد نامی شخص نہ صرف زندہ ہے بلکہ ہمارے ساتھ موجود بھی ہے۔
انہوں نے زیارت آپریشن میں لوگوں کے قتل کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ حکومت کو مارگٹ اور دیگر علاقوں میں کالعدم تنظیموں کے لوگوں کی جانب سے کان کے مالکان اور یہاں تک کہ کان کے مزدوروں سے بھتہ وصولی کی تحقیقات کے لیے ایک اور عدالتی کمیشن بھی تشکیل دینا چاہیے۔