پاکستان اس وقت سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کا ماحول نہیں بن پا رہا اور دوسری طرف زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً 9 ارب 70 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔
ڈالر پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کے بانڈز آدھی قیمت پر بیچے جانے کی اطلاعات ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر بظاہر عملدرآمد کے بعد بھی ادارے کی جانب سے حوصلہ افزا بیانات آتے دکھائی نہیں دے رہے بلکہ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے قرض کی قسط کو سعودی عرب سے مالی گارنٹی کے ساتھ مشروط کردیا ہے۔
آنے والے دنوں میں مزید کیا نئی شرائط رکھی جاتی ہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
ان حالات کے پیش نظر عام آدمی بھی یہ بات کرنے لگا ہے کہ کیا پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے؟ کیا پاکستان بھی سری لنکا بننے والا ہے؟ یہ سوالات ناصرف عوامی سطح پر زبان زدِ عام ہیں بلکہ معاشی ماہرین، بین الاقوامی ادارے، غیر ملکی میڈیا اور دوست ممالک بھی اس موضوع پر تواتر سے بات کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
آئیے اس حوالے سے حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
سری لنکا میں کیا ہوا؟
پاکستان اور سری لنکا کے معاشی اسٹرکچر میں فرق ہے۔ سری لنکن معیشت کی آمدن کا بڑا حصہ سیاحت سے وابستہ رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سیاحت سری لنکا کی سب سے بڑی ایکسپورٹ انڈسٹری رہی ہے لیکن کورونا کی وجہ سے سیاحت کی آمدن متاثر ہوئی۔
کورونا کے علاوہ 2019ء میں سری لنکا میں چرچوں میں ہونے والے خودکش بم دھماکوں میں 269 افراد کی جان گئی جس کے بعد سیاحوں کی آمد و رفت میں واضح فرق دیکھا گیا۔ اس سے ڈالر کی رسد کم ہوئی اور طلب میں اضافہ ہوا۔ اس کے متبادل کے طور پر سری لنکن حکومت آمدنی کے دیگر ذرائع تلاش کرنے میں متاثر کن کردار ادا نہیں کرسکی بلکہ وقتی فائدے حاصل کرنے کے لیے کچھ ایسی پالیسیاں متعارف کروائی گئیں جس نے آنے والے دنوں کے لیے معیشت کو بتدریج کمزور کیا۔
ان پالیسیوں میں کھاد کی درآمدات پر پابندی لگانا سرِفہرست ہے، بظاہر اس کا مقصد درآمدات کا بل کم کرنا تھا مگر اس فیصلے سے درآمدات پر تو خاص فرق نہیں پڑسکا لیکن فصلوں کی پیداوار کم ہوگئی۔ نتیجتاً زرعی اجناس کی قلت پیدا ہوئی اور خوراک کی ضرورت پوری کرنے کے لیے درآمدات دوگنی سے زیادہ بڑھانا پڑیں جس سے سری لنکن کرنسی پر دباؤ بڑھا۔ اس کے علاوہ عوام کو پیٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خور و نوش پر سبسڈی دی گئی تاکہ مہنگائی میں اضافہ نہ ہو۔ اس فیصلے نے زرِمبادلہ کے ذخائر کو تیزی سے کم کیا۔
زرِمبادلہ کے ذخائر میں لگاتار کمی کے باوجود سری لنکن حکومت نے آئی ایم ایف سے بروقت رجوع نہیں کیا۔ مبیّنہ طور پر سرکار کا مؤقف تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانے سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا جس کا بوجھ عوام پر پڑے گا۔ یہ فیصلہ بھی معاشی طور پر غلط ثابت ہوا۔ اب دیوالیہ ہونے کے بعد سری لنکا آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کے لیے کوشش کر رہا ہے لیکن مطلوبہ فائدہ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
اس کے علاوہ سری لنکن معیشت میں چین اور بھارت کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی وجہ سے چین نے سری لنکا میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور مشکل مرحلوں میں چین نے سری لنکا کو اربوں ڈالرز کے قرض بھی دے رکھے ہیں۔
سری لنکن سرکار کا خیال تھا کہ چین انہیں دیوالیہ ہونے سے بچا لے گا لیکن وہ شاید اس حقیقت کا ادراک نہیں کرسکے کہ قرضے بھی اس وقت تک ملتے ہیں جب تک مختلف ذرائع سے مناسب آمدن کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ چونکہ سری لنکن حکومت نے آمدن پر توجہ دینے کے بجائے قرضوں سے ملک چلانے کی پالیسی بنائی اس لیے وہ زیادہ دیر تک معیشت کو سنبھال نہیں سکی۔ صورتحال اس قدر گھمبیر ہوچکی تھی کہ قرض کی قسطیں ادا کرنے کے لیے بھی مزید قرض لیے گئے لیکن معاشی اصلاحات پر توجہ نہیں دی گئی۔
معاشی پالیسیوں کے علاوہ سیاسی عدم استحکام کو بھی سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ کئی برسوں سے حکمرانی ایک ہی خاندان کے ہاتھوں میں تھی۔ ایک بھائی صدر، دوسرا بھائی وزیرِاعظم، بھتیجے وزیر اور رشتے دار مشیروں کے عہدوں پر فائز تھے۔ مبیّنہ طور پر اپوزیشن کی آواز کو بزور قوت دبایا گیا۔
غیر مستحکم پالیسیوں اور خاندان کو نوازنے کے خلاف بڑے سیاسی اتحادیوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ حکومت کمزور ہوئی تو سرمایہ کاروں نے سرمایہ بیرون ممالک میں منتقل کردیا، عدم اعتماد کے بادل گہرے ہوگئے، بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سری لنکا میں کام بند کرنا شروع کردیے اور ٹیکس آمدن کم ہوگئی۔ قرضوں کی قسط ادا کرنے کا وقت آیا تو سری لنکا کے زرِمبادلہ کے ذخائر ناکافی تھے۔ مجبوراً 6 جولائی 2022 کو سری لنکا کے وزیرِاعظم نے ملک کے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا۔
کیا پاکستان کے حالات بھی سری لنکا جیسے ہیں؟
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے معاشی حالات بھی سری لنکا جیسے ہیں؟ یا کیا پاکستان بھی سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کرنے جارہا ہے؟
اس حوالے سے جب میں نے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ صاحب سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ 'سری لنکا اور پاکستان کے معاشی حالات میں فرق ہے لیکن مسائل کسی حد تک مشترکہ ہیں۔ اگر سری لنکا کے دیوالیہ ہونے سے 5 ماہ پہلے کا گراف دیکھیں تو وہ پاکستان کے موجودہ معاشی گراف سے ملتا جلتا ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر جس تیزی سے ختم ہو رہے ہیں مجھے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید ہمارے پاس 25 یا 30 دن باقی ہیں'۔
ظفر پراچہ کا مزید کہنا تھا کہ 'اس وقت بینکوں کے ڈالر ذخائر خطرناک حد تک کم ہوگئے ہیں۔ ان کے پاس درآمدات پوری کرنے کے لیے ڈالر تقریباً ختم ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ بے قابو ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے چند دن قبل بینکوں کے صدور سے میٹنگ کی ہے جس میں حالاتِ حاضرہ کا سنجیدگی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ بینکوں کا مطالبہ ہے کہ تجارتی خسارے کو کنٹرول کیا جائے اور درآمدات پر پابندی لگائی جائے کیونکہ امپورٹ مافیا اگلے ایک سال تک کے درآمدی آرڈر آج کے ڈالر ریٹ پر بک کروا رہا ہے۔ اس سے بازار ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے'۔
اپنی بات آگے بڑھتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'چین سے ملنے والے 2 ارب 30 کروڑ ڈالر تقریباً ایک ہفتے میں ہی خرچ کردیے گئے۔ چین سمیت دیگر دوست ممالک اور آئی ایم ایف کی جانب سے مزید ڈالر لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس لیے اب ایل این جی پلانٹس اور مبیّنہ طور پر پی ایس او کے شیئرز بیچنے کی بات کی جارہی ہے۔ اس سے تقریباً ڈھائی ارب ڈالر ملکی معیشت میں آسکیں گے لیکن ایک اندازے کے مطابق یہ رقم بھی چند دنوں میں ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے'۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'آئی ایم ایف آخری سہارا ہے۔ سری لنکا اور پاکستان کی صورتحال میں واضح فرق آئی ایم ایف پروگرام ہے۔ اگر حکومتِ پاکستان آئی ایم ایف کی جانب سے مثبت بیان دلوانے اور قرض کی قسط جلد از جلد لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو سری لنکا جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوگی بلکہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے تقریباً 18 ارب ڈالر ملنے کے راستے کھل سکتے ہیں۔ بصورت دیگر ڈالر 300 روپے کو چُھو سکتا ہے اور پاکستان ناصرف دیوالیہ ہوسکتا ہے بلکہ ایٹمی اثاثوں پر بھی سمجھوتا کرنا پڑسکتا ہے'۔
ملک میں ڈالر کی قلت؟
ایک نجی بینک کے سینیئر وائس پریزیڈنٹ بابر علی پیرزادہ نے اس حوالے سے بتایا کہ 'پاکستان میں ڈالر کی قلت پیدا کردی گئی ہے۔ صارفین بیرونِ ملک ادائیگی کے لیے ڈالر بھیجنا چاہتے ہیں لیکن ٹرانسفر میں 8 سے 10 دن لگ رہے ہیں۔ کچھ صارفین نے ڈالر بھیجنے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزیرِاعظم ہاؤس تک سے سفارش کروائی ہے۔ ڈالر کی قلت کے باعث ایل سی کھولنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اسٹیٹ بینک میں صرف ان ڈالر ٹرانزیکشنز کی منظوری ہورہی ہیں جو ضروری سمجھی جارہی ہیں۔ اب پہلے جیسے حالات نہیں ہیں'۔
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی سے اس حوالے سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ 'جب میں کہتا تھا کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے تو لوگ میرے پیچھے پڑگئے تھے۔ آج سب میری بات کی تصدیق کر رہے ہیں۔ پاکستان کب کا سری لنکا بن چکا ہے صرف اعلان کرنا باقی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک اس صورتحال سے نکل نہیں سکتا۔ درآمدات کا بل کم کرنے سے حالات پر وقتی طور پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اگر مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بنا دی جائے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ عالمی سطح پر عدم اعتماد کے جو بادل چھائے ہوئے ہیں وہ چھٹ سکتے ہیں۔ ملک کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے تحریک انصاف کی مستقل حکومت کا تسلسل ضروری ہے'۔
موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ شبر زیدی صاحب کی رائے درست ہوسکتی ہے لیکن مستقل حکومت کے لیے تحریک انصاف کے انتخاب کو ذاتی پسند اور ناپسند کے زاویے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہوگا کہ حکومت کسی بھی پارٹی کی بنے لیکن ضروری امر یہ ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کرے اور اس کی پالیسیوں میں بیرونی مداخلت نہ کی جائے۔
جو غلطیاں سری لنکا نے کی ہیں وہی پاکستان نے بھی کی ہیں
اس کے علاوہ اگر سری لنکا اور پاکستان کے حالات کا قریبی جائزہ لیا جائے تو پاکستان اور سری لنکن معیشتوں کے ڈھانچے میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے لیکن یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ جو غلطیاں سری لنکا نے کی ہیں وہی پاکستان نے بھی کی ہیں۔
پاکستان میں بھی سری لنکا کی طرح پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی نے معیشت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے روکنا بھی نامناسب فیصلہ تھا کیونکہ پاکستانی معیشت سبسڈی کا بوجھ اٹھانے کے قابل دکھائی نہیں دیتی۔ اگر ان فیصلوں کو تبدیل نہ کیا جاتا تو چین سے ڈھائی ارب ڈالر اور سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر قرضوں میں توسیع جیسے ریلیف ملنا مشکل تھے۔ اس کے نتیجے میں زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً ساڑھے 5 ارب ڈالر مزید کم ہوجاتے اور شاید اب تک پاکستان دیوالیہ ڈکلیئر ہوچکا ہوتا۔
اس کے علاوہ جس طرح سری لنکا چین اور بھارت سے قرضوں اور امداد کا طلبگار رہا ہے اسی طرح قرضوں کی ادائیگی کے لیے پاکستان بھی چین اور سعودی عرب سے مالی امداد کا طلبگار ہے بلکہ اس مرتبہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے قرض کی قسط کو سعودی عرب سے مزید 4 ارب ڈالر کی مالی امداد کی گارنٹی سے منسلک کردیا ہے۔ گوکہ سعودی عرب نے پاکستان کا ہر مشکل میں ساتھ دیا ہے لیکن اس مرتبہ حالات زیادہ خراب ہیں۔ پچھلے قرض بھی اونچی شرح سود پر دیے گئے تھے۔ اس مرتبہ کیا شرائط رکھی جاتی ہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
قرضوں سے ملک نہیں چلایا جاسکتا
میں یہاں یہ کہنا زیادہ ضروری سمجھتا ہوں کہ صرف قرضوں پر انحصار کرکے ملک نہیں چلایا جاسکتا۔ آمدن کے ذرائع بڑھانے ہوں گے اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول بنانا ہوگا۔
اس وقت پاکستان کو مالی سال کے لیے تقریباً 41 ارب ڈالر درکار ہیں۔ موجودہ حالات میں تو یہ ضرورت صرف قرض لے کر ہی پوری کی جاسکتی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس سال کے لیے 41 ارب ڈالرز قرضوں سے ادا ہو بھی گئے تو اگلے مالی سال میں پاکستان کو تقریباً 80 ارب ڈالر کی ضرورت پڑسکتی ہے کیونکہ چند سالوں سے یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر آنے والے سال میں قرض پچھلے سال کی نسبت دوگنا بڑھ جاتا ہیں۔
اگلے سال 80 ارب ڈالرز کا حصول قرضوں سے بھی ممکن نہیں ہوسکے گا۔ اگر کسی طرح پاکستان اس سال دیوالیہ ہونے سے بچ گیا تو اگلے سال دیوالیہ ہونے کے امکانات شاید 100 فیصد ہوں گے۔ اگر سیاسی استحکام نہ لایا جاسکا تو معاشی استحکام آنے کی امید نہیں کی جاسکتی اور پاکستان کے سری لنکا بننے کے امکانات زیادہ ہوسکتے ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ 'پاکستان موجودہ مالی سال میں تقریباً 35 ارب ڈالر باآسانی حاصل کر لے گا اور پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا'۔
وہ کن بنیادوں پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں اس حوالے سے کوئی مضبوط دلیل ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔ ممکن ہے کہ وہ بیان مارکیٹ میں امید پیدا رکھنے کے لیے دے رہے ہوں۔ جیسا کہ وزیرِ خزانہ صاحب بھی ہر 2، 3 دن بعد یہ بیان دے دیتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دے گا۔ لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے ایسا کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آسکا ہے۔
سری لنکا کے برعکس پاکستان نے چند شعبوں پر بہتر پالیسی بنائی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان فی الحال دیوالیہ ڈکلیئر ہونے سے بال بال بچا ہوا ہے۔ زراعت کے حوالے سے پاکستان نے کھادوں کی درآمدات پر پابندی لگانے والی سری لنکا جیسی غلطی نہیں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شدید مہنگائی کے باوجود آٹے، دال چینی، سبزیاں، گوشت اور دیگر اشیائے خور و نوش کے حصول میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا۔ قیمتوں میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن کسی حد تک قوتِ خرید بھی بڑھی ہے۔
سری لنکا کے لیے کورونا معاشی بحران ثابت ہوا لیکن پاکستان نے کورونا کے دنوں میں ریکارڈ ترقی کی ہے اور شاندار اعداد و شمار دیے ہیں جن کی دنیا معترف ہے۔ سری لنکا کی طرح پاکستان میں دہشتگردی کے بڑے واقعات نہیں ہوئے جس سے سرمایہ کاری کے ماحول کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ لیکن یہ مثبت اقدامات موجودہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے ناکافی دکھائی دیتے ہیں۔
حل کیا ہے؟
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسئلے کا حل کیا ہے۔ اس کے لیے فلپائن کی معاشی صورتحال کا جائزہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ 2005ء میں فلپائن دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ زرِمبادلہ کے ذخائر صرف 3 ماہ کی درآمدات کے لیے باقی رہ گئے تھے۔ صدر نے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا فیصلہ کیا جس سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوگیا۔
جس کے بعد صدر نے سیاسی مشاورت سے اس مسئلے کا بہتر حل پیش کیا۔ ایک آزاد معاشی ادارہ تشکیل دیا گیا جس میں فلپائن اور دنیا بھر سے ایسے معاشی ماہرین کو شامل کیا گیا جن کا سیاست اور سیاسی جماعتوں سے تعلق نہیں تھا۔ اس ادارے کو عملی طور پر سیاسی مداخلت سے آزاد کیا۔ حکومتوں کے آنے، جانے یا دیگر فیصلوں سے ان کی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں ہوتی تھی۔
نتیجے کے طور پر پالیسیوں میں استحکام آیا اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا جس کے نتیجے میں 2006ء میں صرف ایک سال کے عرصے میں فلپائن نے ناصرف آئی ایم ایف کا قرض واپس کردیا بلکہ اس کے بعد آج تک کبھی بھی آئی ایم ایف پروگرام میں نہیں گیا۔
پاکستان کو بھی اس وقت میثاقِ معیشت کی ضرورت ہے جس میں تمام سیاسی جماعتیں اختلافات کو بھلا کر ایک آزاد معاشی ادارے کے قیام کی منظوری دیں جسے آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہو۔ اس ٹیم میں ماہرین کی تقرری بھی سیاسی مداخلت سے آزاد ہو تاکہ حکومتیں تبدیل ہونے سے ان کی پالیسیاں تبدیل نہ ہوں۔ ایسے ادارے کا قیام پاکستان کے حالات بدلنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے اور پاکستان ممکنہ طور پر سری لنکا بننے سے بچ سکتا ہے۔
بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (18) بند ہیں