• KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am
شائع July 28, 2022 اپ ڈیٹ July 30, 2022

پاکستان اس وقت سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کا ماحول نہیں بن پا رہا اور دوسری طرف زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً 9 ارب 70 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔

ڈالر پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کے بانڈز آدھی قیمت پر بیچے جانے کی اطلاعات ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر بظاہر عملدرآمد کے بعد بھی ادارے کی جانب سے حوصلہ افزا بیانات آتے دکھائی نہیں دے رہے بلکہ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے قرض کی قسط کو سعودی عرب سے مالی گارنٹی کے ساتھ مشروط کردیا ہے۔

آنے والے دنوں میں مزید کیا نئی شرائط رکھی جاتی ہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

ان حالات کے پیش نظر عام آدمی بھی یہ بات کرنے لگا ہے کہ کیا پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے؟ کیا پاکستان بھی سری لنکا بننے والا ہے؟ یہ سوالات ناصرف عوامی سطح پر زبان زدِ عام ہیں بلکہ معاشی ماہرین، بین الاقوامی ادارے، غیر ملکی میڈیا اور دوست ممالک بھی اس موضوع پر تواتر سے بات کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

آئیے اس حوالے سے حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

سری لنکا میں کیا ہوا؟

سری لنکا میں مظاہرین صدارتی محل کے باہر موجود ہیں— تصویر: اے ایف پی
سری لنکا میں مظاہرین صدارتی محل کے باہر موجود ہیں— تصویر: اے ایف پی

پاکستان اور سری لنکا کے معاشی اسٹرکچر میں فرق ہے۔ سری لنکن معیشت کی آمدن کا بڑا حصہ سیاحت سے وابستہ رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سیاحت سری لنکا کی سب سے بڑی ایکسپورٹ انڈسٹری رہی ہے لیکن کورونا کی وجہ سے سیاحت کی آمدن متاثر ہوئی۔

کورونا کے علاوہ 2019ء میں سری لنکا میں چرچوں میں ہونے والے خودکش بم دھماکوں میں 269 افراد کی جان گئی جس کے بعد سیاحوں کی آمد و رفت میں واضح فرق دیکھا گیا۔ اس سے ڈالر کی رسد کم ہوئی اور طلب میں اضافہ ہوا۔ اس کے متبادل کے طور پر سری لنکن حکومت آمدنی کے دیگر ذرائع تلاش کرنے میں متاثر کن کردار ادا نہیں کرسکی بلکہ وقتی فائدے حاصل کرنے کے لیے کچھ ایسی پالیسیاں متعارف کروائی گئیں جس نے آنے والے دنوں کے لیے معیشت کو بتدریج کمزور کیا۔

ان پالیسیوں میں کھاد کی درآمدات پر پابندی لگانا سرِفہرست ہے، بظاہر اس کا مقصد درآمدات کا بل کم کرنا تھا مگر اس فیصلے سے درآمدات پر تو خاص فرق نہیں پڑسکا لیکن فصلوں کی پیداوار کم ہوگئی۔ نتیجتاً زرعی اجناس کی قلت پیدا ہوئی اور خوراک کی ضرورت پوری کرنے کے لیے درآمدات دوگنی سے زیادہ بڑھانا پڑیں جس سے سری لنکن کرنسی پر دباؤ بڑھا۔ اس کے علاوہ عوام کو پیٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خور و نوش پر سبسڈی دی گئی تاکہ مہنگائی میں اضافہ نہ ہو۔ اس فیصلے نے زرِمبادلہ کے ذخائر کو تیزی سے کم کیا۔

زرِمبادلہ کے ذخائر میں لگاتار کمی کے باوجود سری لنکن حکومت نے آئی ایم ایف سے بروقت رجوع نہیں کیا۔ مبیّنہ طور پر سرکار کا مؤقف تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانے سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا جس کا بوجھ عوام پر پڑے گا۔ یہ فیصلہ بھی معاشی طور پر غلط ثابت ہوا۔ اب دیوالیہ ہونے کے بعد سری لنکا آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کے لیے کوشش کر رہا ہے لیکن مطلوبہ فائدہ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

اس کے علاوہ سری لنکن معیشت میں چین اور بھارت کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی وجہ سے چین نے سری لنکا میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور مشکل مرحلوں میں چین نے سری لنکا کو اربوں ڈالرز کے قرض بھی دے رکھے ہیں۔

سری لنکن سرکار کا خیال تھا کہ چین انہیں دیوالیہ ہونے سے بچا لے گا لیکن وہ شاید اس حقیقت کا ادراک نہیں کرسکے کہ قرضے بھی اس وقت تک ملتے ہیں جب تک مختلف ذرائع سے مناسب آمدن کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ چونکہ سری لنکن حکومت نے آمدن پر توجہ دینے کے بجائے قرضوں سے ملک چلانے کی پالیسی بنائی اس لیے وہ زیادہ دیر تک معیشت کو سنبھال نہیں سکی۔ صورتحال اس قدر گھمبیر ہوچکی تھی کہ قرض کی قسطیں ادا کرنے کے لیے بھی مزید قرض لیے گئے لیکن معاشی اصلاحات پر توجہ نہیں دی گئی۔

معاشی پالیسیوں کے علاوہ سیاسی عدم استحکام کو بھی سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ کئی برسوں سے حکمرانی ایک ہی خاندان کے ہاتھوں میں تھی۔ ایک بھائی صدر، دوسرا بھائی وزیرِاعظم، بھتیجے وزیر اور رشتے دار مشیروں کے عہدوں پر فائز تھے۔ مبیّنہ طور پر اپوزیشن کی آواز کو بزور قوت دبایا گیا۔

غیر مستحکم پالیسیوں اور خاندان کو نوازنے کے خلاف بڑے سیاسی اتحادیوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ حکومت کمزور ہوئی تو سرمایہ کاروں نے سرمایہ بیرون ممالک میں منتقل کردیا، عدم اعتماد کے بادل گہرے ہوگئے، بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سری لنکا میں کام بند کرنا شروع کردیے اور ٹیکس آمدن کم ہوگئی۔ قرضوں کی قسط ادا کرنے کا وقت آیا تو سری لنکا کے زرِمبادلہ کے ذخائر ناکافی تھے۔ مجبوراً 6 جولائی 2022 کو سری لنکا کے وزیرِاعظم نے ملک کے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا۔

کیا پاکستان کے حالات بھی سری لنکا جیسے ہیں؟

اب عام آدمی بھی یہ پوچھنے لگا ہے کہ کیا پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے؟
اب عام آدمی بھی یہ پوچھنے لگا ہے کہ کیا پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے؟

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے معاشی حالات بھی سری لنکا جیسے ہیں؟ یا کیا پاکستان بھی سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کرنے جارہا ہے؟

اس حوالے سے جب میں نے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ صاحب سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ 'سری لنکا اور پاکستان کے معاشی حالات میں فرق ہے لیکن مسائل کسی حد تک مشترکہ ہیں۔ اگر سری لنکا کے دیوالیہ ہونے سے 5 ماہ پہلے کا گراف دیکھیں تو وہ پاکستان کے موجودہ معاشی گراف سے ملتا جلتا ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر جس تیزی سے ختم ہو رہے ہیں مجھے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید ہمارے پاس 25 یا 30 دن باقی ہیں'۔

ظفر پراچہ کا مزید کہنا تھا کہ 'اس وقت بینکوں کے ڈالر ذخائر خطرناک حد تک کم ہوگئے ہیں۔ ان کے پاس درآمدات پوری کرنے کے لیے ڈالر تقریباً ختم ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ بے قابو ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے چند دن قبل بینکوں کے صدور سے میٹنگ کی ہے جس میں حالاتِ حاضرہ کا سنجیدگی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ بینکوں کا مطالبہ ہے کہ تجارتی خسارے کو کنٹرول کیا جائے اور درآمدات پر پابندی لگائی جائے کیونکہ امپورٹ مافیا اگلے ایک سال تک کے درآمدی آرڈر آج کے ڈالر ریٹ پر بک کروا رہا ہے۔ اس سے بازار ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے'۔

اپنی بات آگے بڑھتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'چین سے ملنے والے 2 ارب 30 کروڑ ڈالر تقریباً ایک ہفتے میں ہی خرچ کردیے گئے۔ چین سمیت دیگر دوست ممالک اور آئی ایم ایف کی جانب سے مزید ڈالر لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس لیے اب ایل این جی پلانٹس اور مبیّنہ طور پر پی ایس او کے شیئرز بیچنے کی بات کی جارہی ہے۔ اس سے تقریباً ڈھائی ارب ڈالر ملکی معیشت میں آسکیں گے لیکن ایک اندازے کے مطابق یہ رقم بھی چند دنوں میں ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے'۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'آئی ایم ایف آخری سہارا ہے۔ سری لنکا اور پاکستان کی صورتحال میں واضح فرق آئی ایم ایف پروگرام ہے۔ اگر حکومتِ پاکستان آئی ایم ایف کی جانب سے مثبت بیان دلوانے اور قرض کی قسط جلد از جلد لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو سری لنکا جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوگی بلکہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے تقریباً 18 ارب ڈالر ملنے کے راستے کھل سکتے ہیں۔ بصورت دیگر ڈالر 300 روپے کو چُھو سکتا ہے اور پاکستان ناصرف دیوالیہ ہوسکتا ہے بلکہ ایٹمی اثاثوں پر بھی سمجھوتا کرنا پڑسکتا ہے'۔

ملک میں ڈالر کی قلت؟

پاکستان میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے
پاکستان میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے

ایک نجی بینک کے سینیئر وائس پریزیڈنٹ بابر علی پیرزادہ نے اس حوالے سے بتایا کہ 'پاکستان میں ڈالر کی قلت پیدا کردی گئی ہے۔ صارفین بیرونِ ملک ادائیگی کے لیے ڈالر بھیجنا چاہتے ہیں لیکن ٹرانسفر میں 8 سے 10 دن لگ رہے ہیں۔ کچھ صارفین نے ڈالر بھیجنے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزیرِاعظم ہاؤس تک سے سفارش کروائی ہے۔ ڈالر کی قلت کے باعث ایل سی کھولنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اسٹیٹ بینک میں صرف ان ڈالر ٹرانزیکشنز کی منظوری ہورہی ہیں جو ضروری سمجھی جارہی ہیں۔ اب پہلے جیسے حالات نہیں ہیں'۔

سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی سے اس حوالے سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ 'جب میں کہتا تھا کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے تو لوگ میرے پیچھے پڑگئے تھے۔ آج سب میری بات کی تصدیق کر رہے ہیں۔ پاکستان کب کا سری لنکا بن چکا ہے صرف اعلان کرنا باقی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک اس صورتحال سے نکل نہیں سکتا۔ درآمدات کا بل کم کرنے سے حالات پر وقتی طور پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اگر مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بنا دی جائے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ عالمی سطح پر عدم اعتماد کے جو بادل چھائے ہوئے ہیں وہ چھٹ سکتے ہیں۔ ملک کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے تحریک انصاف کی مستقل حکومت کا تسلسل ضروری ہے'۔

موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ شبر زیدی صاحب کی رائے درست ہوسکتی ہے لیکن مستقل حکومت کے لیے تحریک انصاف کے انتخاب کو ذاتی پسند اور ناپسند کے زاویے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہوگا کہ حکومت کسی بھی پارٹی کی بنے لیکن ضروری امر یہ ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کرے اور اس کی پالیسیوں میں بیرونی مداخلت نہ کی جائے۔

جو غلطیاں سری لنکا نے کی ہیں وہی پاکستان نے بھی کی ہیں

سری لنکا میں ایندھن کے حصول کے لیے گاڑیوں کی طویل قطار لگی ہے— تصویر: رائٹرز
سری لنکا میں ایندھن کے حصول کے لیے گاڑیوں کی طویل قطار لگی ہے— تصویر: رائٹرز

اس کے علاوہ اگر سری لنکا اور پاکستان کے حالات کا قریبی جائزہ لیا جائے تو پاکستان اور سری لنکن معیشتوں کے ڈھانچے میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے لیکن یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ جو غلطیاں سری لنکا نے کی ہیں وہی پاکستان نے بھی کی ہیں۔

پاکستان میں بھی سری لنکا کی طرح پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی نے معیشت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے روکنا بھی نامناسب فیصلہ تھا کیونکہ پاکستانی معیشت سبسڈی کا بوجھ اٹھانے کے قابل دکھائی نہیں دیتی۔ اگر ان فیصلوں کو تبدیل نہ کیا جاتا تو چین سے ڈھائی ارب ڈالر اور سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر قرضوں میں توسیع جیسے ریلیف ملنا مشکل تھے۔ اس کے نتیجے میں زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً ساڑھے 5 ارب ڈالر مزید کم ہوجاتے اور شاید اب تک پاکستان دیوالیہ ڈکلیئر ہوچکا ہوتا۔

اس کے علاوہ جس طرح سری لنکا چین اور بھارت سے قرضوں اور امداد کا طلبگار رہا ہے اسی طرح قرضوں کی ادائیگی کے لیے پاکستان بھی چین اور سعودی عرب سے مالی امداد کا طلبگار ہے بلکہ اس مرتبہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے قرض کی قسط کو سعودی عرب سے مزید 4 ارب ڈالر کی مالی امداد کی گارنٹی سے منسلک کردیا ہے۔ گوکہ سعودی عرب نے پاکستان کا ہر مشکل میں ساتھ دیا ہے لیکن اس مرتبہ حالات زیادہ خراب ہیں۔ پچھلے قرض بھی اونچی شرح سود پر دیے گئے تھے۔ اس مرتبہ کیا شرائط رکھی جاتی ہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

قرضوں سے ملک نہیں چلایا جاسکتا

پاکستان کو آئندہ مالی سال کے لیے 41 ارب ڈالر کی ضرورت ہے— تصویر: رائٹرز
پاکستان کو آئندہ مالی سال کے لیے 41 ارب ڈالر کی ضرورت ہے— تصویر: رائٹرز

میں یہاں یہ کہنا زیادہ ضروری سمجھتا ہوں کہ صرف قرضوں پر انحصار کرکے ملک نہیں چلایا جاسکتا۔ آمدن کے ذرائع بڑھانے ہوں گے اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول بنانا ہوگا۔

اس وقت پاکستان کو مالی سال کے لیے تقریباً 41 ارب ڈالر درکار ہیں۔ موجودہ حالات میں تو یہ ضرورت صرف قرض لے کر ہی پوری کی جاسکتی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس سال کے لیے 41 ارب ڈالرز قرضوں سے ادا ہو بھی گئے تو اگلے مالی سال میں پاکستان کو تقریباً 80 ارب ڈالر کی ضرورت پڑسکتی ہے کیونکہ چند سالوں سے یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر آنے والے سال میں قرض پچھلے سال کی نسبت دوگنا بڑھ جاتا ہیں۔

اگلے سال 80 ارب ڈالرز کا حصول قرضوں سے بھی ممکن نہیں ہوسکے گا۔ اگر کسی طرح پاکستان اس سال دیوالیہ ہونے سے بچ گیا تو اگلے سال دیوالیہ ہونے کے امکانات شاید 100 فیصد ہوں گے۔ اگر سیاسی استحکام نہ لایا جاسکا تو معاشی استحکام آنے کی امید نہیں کی جاسکتی اور پاکستان کے سری لنکا بننے کے امکانات زیادہ ہوسکتے ہیں۔

ان حالات کے پیش نظر قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ 'پاکستان موجودہ مالی سال میں تقریباً 35 ارب ڈالر باآسانی حاصل کر لے گا اور پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا'۔

وہ کن بنیادوں پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں اس حوالے سے کوئی مضبوط دلیل ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔ ممکن ہے کہ وہ بیان مارکیٹ میں امید پیدا رکھنے کے لیے دے رہے ہوں۔ جیسا کہ وزیرِ خزانہ صاحب بھی ہر 2، 3 دن بعد یہ بیان دے دیتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دے گا۔ لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے ایسا کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آسکا ہے۔

سری لنکا کے برعکس پاکستان نے چند شعبوں پر بہتر پالیسی بنائی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان فی الحال دیوالیہ ڈکلیئر ہونے سے بال بال بچا ہوا ہے۔ زراعت کے حوالے سے پاکستان نے کھادوں کی درآمدات پر پابندی لگانے والی سری لنکا جیسی غلطی نہیں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شدید مہنگائی کے باوجود آٹے، دال چینی، سبزیاں، گوشت اور دیگر اشیائے خور و نوش کے حصول میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا۔ قیمتوں میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن کسی حد تک قوتِ خرید بھی بڑھی ہے۔

سری لنکا کے لیے کورونا معاشی بحران ثابت ہوا لیکن پاکستان نے کورونا کے دنوں میں ریکارڈ ترقی کی ہے اور شاندار اعداد و شمار دیے ہیں جن کی دنیا معترف ہے۔ سری لنکا کی طرح پاکستان میں دہشتگردی کے بڑے واقعات نہیں ہوئے جس سے سرمایہ کاری کے ماحول کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ لیکن یہ مثبت اقدامات موجودہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے ناکافی دکھائی دیتے ہیں۔

حل کیا ہے؟

تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسئلے کا حل کیا ہے۔ اس کے لیے فلپائن کی معاشی صورتحال کا جائزہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ 2005ء میں فلپائن دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ زرِمبادلہ کے ذخائر صرف 3 ماہ کی درآمدات کے لیے باقی رہ گئے تھے۔ صدر نے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا فیصلہ کیا جس سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوگیا۔

جس کے بعد صدر نے سیاسی مشاورت سے اس مسئلے کا بہتر حل پیش کیا۔ ایک آزاد معاشی ادارہ تشکیل دیا گیا جس میں فلپائن اور دنیا بھر سے ایسے معاشی ماہرین کو شامل کیا گیا جن کا سیاست اور سیاسی جماعتوں سے تعلق نہیں تھا۔ اس ادارے کو عملی طور پر سیاسی مداخلت سے آزاد کیا۔ حکومتوں کے آنے، جانے یا دیگر فیصلوں سے ان کی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں ہوتی تھی۔

نتیجے کے طور پر پالیسیوں میں استحکام آیا اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا جس کے نتیجے میں 2006ء میں صرف ایک سال کے عرصے میں فلپائن نے ناصرف آئی ایم ایف کا قرض واپس کردیا بلکہ اس کے بعد آج تک کبھی بھی آئی ایم ایف پروگرام میں نہیں گیا۔

پاکستان کو بھی اس وقت میثاقِ معیشت کی ضرورت ہے جس میں تمام سیاسی جماعتیں اختلافات کو بھلا کر ایک آزاد معاشی ادارے کے قیام کی منظوری دیں جسے آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہو۔ اس ٹیم میں ماہرین کی تقرری بھی سیاسی مداخلت سے آزاد ہو تاکہ حکومتیں تبدیل ہونے سے ان کی پالیسیاں تبدیل نہ ہوں۔ ایسے ادارے کا قیام پاکستان کے حالات بدلنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے اور پاکستان ممکنہ طور پر سری لنکا بننے سے بچ سکتا ہے۔


بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (18) بند ہیں

Hasan Jul 28, 2022 09:59pm
زبردست تجزیہ
Muazzam Lone Jul 29, 2022 01:49pm
We should point out the people who are responsible for the current situation in Pakistan. PTI was saying All is well but we can see the truth. We need the charter of the economy.
یاسر عرفات Jul 29, 2022 08:04pm
تحریر پڑھنے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مستحکم حکومت سے زیادہ اہم مستحکم پالیسیاں ہیں جو ملک کے مسائل سے نکال سکتی ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہر سیکٹر کی پالیسیاں ملکی اور مفادات سے زیادہ کمپنی کی مشہوری کے لئے بنائی جاتی ہیں، جیسے حال ہی میں عمران خان کا اپنی حکومت کو گرنے سے بچانے کے لئے پیٹرول اور بجلی کی قیمیتوں میں کمی کا فیصلہ تھا اور اب اگر پی ٹی آئی اقتدار میں آ بھی جاتی ہے تو اس کے پاس بیچنے کے لیے یہ چورن ہوگا کہ امپورٹڈ حکومت آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے سامنے لیٹ گئی اور غلط معاہدے کئے جس کی وجہ سے ہمیں بجلی ، گیس اور تیل کی قیمیتوں میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔۔۔۔
مہر محمد یوسف Jul 29, 2022 08:27pm
بہت مناسب رائے دی گئی ہے ۔ میثاق جمہوریت کے ساتھ ساتھ میثاق معیشت بہت زیادہ اہم ہے ۔ معیشت کی قیمت پر سیاست نہیں ہونی چاہیئے ۔ واقعی ایسا ایک ادارہ ہونا چاہئے جس میں مختلف ماہرین شامل ھوں جو ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کریں تو موجودہ بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے
M.zubair Jul 29, 2022 10:12pm
yes
M.zubair Jul 29, 2022 10:13pm
yes.asy he krna chahi
Aziz Khalid Jul 29, 2022 11:46pm
AP ka Kalam Kafi Dil ko laga
مدثر Jul 30, 2022 07:59am
ایک عام آدمی نے نہ قرض لیا ہے اور نہ اس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہوا ہے یہ سب سیاستدانوں کا کیا دھرا ہے
Hamd Ali Jul 30, 2022 09:41am
اگر یہی صورت حال رہی تو پھر پاکستان کا "خدا حافظ"
Hamd Ali Jul 30, 2022 09:43am
اس تجزیے سے متفق ہوں۔
Ahmad Jul 30, 2022 09:53am
Very good
ڈاکٹر اسماعیل Jul 30, 2022 11:40am
Political and economic stability in the country is really essential for the right direction. An independent organisation with credibility can bring us out of this web. However, in such huge polarization it does not seem possible. Needful must be done to prevent disaster.
Luqman Jul 30, 2022 01:34pm
I’m agree
syed Ali Haider Jul 30, 2022 01:41pm
You've define all the picture very beautifully am 100% agree with your report
Abdullah Abdullah Jul 31, 2022 01:52pm
معاشی ٹیم غیر سیاسی ھو بالکل درست مشورہ ریا گیا ھے اتفاق ھے
Abdullah Abdullah Jul 31, 2022 01:55pm
بالکل ایک معاشی ٹیم فل فور بنائ جاے جو مکمل غیر سیاسی ھو اور سیاسی حکومتں تبدیل ھونے سے معایدے جو کیے جایں ان پر اثر انداز نہ ھوں یہ تجزیہ بالکل ٹھیک رھے گا
sameer Jul 31, 2022 03:10pm
Totally agree with the example of Philippines, even similar model was adopted in Malaysia before Dr. Mahathir and was continues during his term and was also followed after him. One of the worst experiment done to the Pakistan's economy was Nationalization during 70s, the affects are still felt today. Establishment is poking in everything, why they have not suggested that it shall ruin the economy.
Nabeel Shaukat Aug 02, 2022 10:44am
ہمیں اسلامی نظام معیشت کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے ، اسی میں ہمارے تمام مسائل کا حل ہے!