کراچی کو بچانے والے کراچی کے شہری
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کراچی والوں کو شہری نظام، انفرااسٹرکچر اور سیاسی نظام کی ناکامی پر ہمیشہ ریاستی عدم توجہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی بات کا مشاہدہ ہم نے اس ماہ کے آغاز میں عید الاضحٰی کے دوران ہونے والی بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کی صورت میں دیکھا۔ اس دوران کراچی والوں نے ڈوبنے سے بچنے کی ہرممکن کوشش کی۔
ہم کراچی کے شہری پیشگی اقدامات کے بجائے اب ردِعمل کے عادی ہوچکے ہیں۔ بارش ہو یا دھوپ ہم روز ہی اپنے اسکولوں اور دفاتر تک وقت پر پہنچنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ ہم شدید ٹریفک کی وجہ سے یا تو ٹریفک کی مخالف سمت میں راستہ تلاش کرتے ہیں یا پھر مخالف سمت سے آنے والی گاڑیوں کی تیز روشنی کو برداشت کرتے ہوئے سفر کرتے ہیں۔ ہم اپنے روزمرہ معمولات میں بھی جلد بازی سے کام لیتے ہیں۔ ہم یا تو اپنے اقدامات کے اثرات کو نظر انداز کردیتے ہیں یا خود کو اس سے بری الذمہ کرلیتے ہیں۔
مون سون کی حالیہ بارشیں اور ان کی بدانتظامی اس بات کی ایک بہترین مثال ہے کہ ہم کس طرح بڑے مسائل سے خود کو الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر سال کراچی کے شہری بارش کے دنوں میں ہونے والی تکلیف اور نقصان کو برداشت کرتے ہیں۔ ہم بغیر کسی امید کے اور بغیر کسی تیاری کے اس دور میں بھی جیتے ہیں کہ جب پوا شہر رک جاتا ہے۔
ہم گھٹنوں تک کھڑے پانی میں بھی زندہ رہتے ہیں۔ ہم اپنے گرد تباہ حال انفرااسٹرکچر کے باوجود زندہ رہتے ہیں۔ ہم روز جینے کی جدوجہد کرتے ہیں اور اپنی مشکلات پر قابو پاتے ہیں۔
دیگر لوگوں کی طرح میں بھی یہ مضمون پیشگی تحریر کررہی ہوں کیونکہ شہر میں ایک بار پھر ہونے والی تیز بارش کے نتیجے میں بجلی کی فراہمی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہوسکتی ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ شاید ہم ان مشکلات سے گزرنے کے عادی ہوچکے ہیں کیونکہ ہم ہمیشہ ہی کسی نہ کسی مشکل سے نبرد آزما رہتے ہیں۔ ہمیں کبھی یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ ترقی کسے کہتے ہیں، آگے بڑھنا کسے کہتے ہیں اور ایک پھلتا پھولتا شہر کیسا ہوتا ہے۔
شہر میں اربن فلڈنگ سے ہر کوئی پریشان ہے لیکن تباہی کے بعد ایک مثبت چیز بھی سامنے آئی۔ تمام تر پریشانیوں اور غم و غصے کے درمیان کراچی کے لوگوں کی ہمت اور بے لوثی کو سراہنا چاہوں گی کیونکہ انہوں نے ریاستی غفلت، تمام تر خرابیوں اور شہر کے ناقص ڈیزائن کے مقابلے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔
میں نے بارش سے متاثرہ علاقوں بشمول ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) اور آئی آئی چندریگر روڈ کے اطراف میں رہنے والے کچھ لوگوں سے بات کی۔ ان میں سے اکثر لوگوں کے بزرگ والدین تھے یا چھوٹے بچے تھے۔ یہ لوگ انتہائی صدمے اور پریشانی کی حالت میں تھے۔ یہ یا تو سڑکوں پر بے یار و مددگار کھڑے تھے یا پھر اپنے گھروں میں پھنسے ہوئے تھے جن میں پانی بھر چکا تھا۔ وہ فون پر اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے رابطہ کررہے تھے لیکن ان کے فون کی بیٹریاں بھی ختم ہونے کو تھیں۔
ایسا ہی ایک جوڑا بارش میں ڈی ایچ اے فیز 4 کے کمرشل ایریا میں پھنس گیا تھا۔ ان کے ساتھ چھوٹا بچہ بھی تھا اور ان کی گاڑی خراب ہوگئی تھی۔ سڑکوں پر پانی کندھوں تک آرہا تھا۔ اس خاندان کو ایس یو وی چلاتے ایک مہربان نے بچایا۔
میرے ایک عزیز کا گھر بھی فیز 2 میں واقع ہے اور وہ بھی پانی میں ڈوب گیا تھا۔ ان کے گھر کا تہہ خانہ گٹر کے پانی اور قربانی کے جانوروں کی باقیات سے بھر گیا تھا۔ انہوں نے کسی طرح اپنی قیمتی اشیا اور فرنیچر بچانے کی کوشش کی۔ گزشتہ 2 برسوں کی اربن فلڈنگ کے نتیجے میں وہ اب کسی حد تک تیار تھے اور ان کے پاس سکشن پمپ بھی موجود تھا لیکن معاملہ ان کے قابو سے باہر تھا۔
عید کے دوسرے روز رات بھر کی بارش کے بعد سید اطہر علی شاہ نے فیز 4 کی 10 کمرشل اسٹریٹ سے اپنے دوست، ان کی اہلیہ اور 3 بچوں کو ریسکیو کیا کیونکہ ان کا گھر ڈوب چکا تھا۔ اطہر اپنی فور بائے فور گاڑی احتیاط سے ان کے گھر تک لے گئے اور گھر کی پہلی منزل سے اپنے دوست کو ریسکیو کیا کیونکہ گراؤنڈ فلور پانی میں ڈوب چکا تھا۔
اس خاندان کو وہاں سے نکال کر ان کے رشتہ داروں کے گھر چھوڑا گیا۔ راستے میں انہوں نے دیکھا کہ ایک خاتون انہیں ہاتھ ہلارہی ہیں اور پانی مانگ رہی ہیں تو اطہر نے انہیں پانی کی 2 بوتلیں دے دیں۔
اطہر ایک ڈیزائن کانٹریکٹر ہیں اور ڈی ایچ اے اور اس کے کمیونیٹی گروپس سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اس وجہ سے انہیں کئی لوگوں نے مدد کے لیے بلایا۔ اس مرتبہ انہوں نے اپنے ملازم کو ساتھ لیا اور ہر اس شخص کی مدد کرنے نکل کھڑے ہوئے جس نے ان سے مدد مانگی۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ ’ایسا لگ رہا تھا کہ ہم بجلی، خوراک اور رہائش کے بغیر پتھروں کے دور میں رہ رہے ہیں۔ میں نے 7 اسٹریٹ پر ایک نوجوان کو دیکھا جو کمر تک پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور مجھے ہاتھ ہلارہا تھا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی والدہ شوگر کی مریضہ ہیں اور انہیں انسولین کی ضرورت ہے۔ ہم انسولین لینے دکان تک جارہے تھے تو ہم نے دیکھا 3 لوگ اپنے پورچ سے گاڑی نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم نے ان کی گاڑیاں ٹو کیں اور پھر میں نے اس لڑکے کو واپس اس کے گھر تک چھوڑا پھر میں گاڑی میں ایندھن ڈلوانے واپس گیا‘۔
ایک سوشل میڈیا گروپ کے ذریعے اطہر کا رابطہ فیصل لطیف سے ہوا۔ اطہر نے بتایا کہ ’ہم جتنے لوگوں کی مدد کرسکتے تھے ہم نے ان کی مدد کی۔ ہم نے پینے کا پانی، اسنیکس اور جوسز بھی فراہم کیے‘۔ ایسی کہانیاں بتاتی ہیں کہ ذمہ دار شہری کیا ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہی کراچی کا عمومی طرزِ زندگی ہے۔
جب خیابانِ راحت خیابانِ آفت میں تبدیل ہوا اور خیابانِ جامی میں پانی بھر گیا تو میں نے سوچا کہ کیا یہ کچرا اور بدقسمتی ہی میرے شہر کا مستقبل ہے؟ سڑکوں پر کچرا پھینکنے سے رکنا کتنا مشکل ہے؟ آخر اس کچرے کو اٹھانے اور اپنے شہر کو صاف رکھنے میں کیا مسئلہ ہے؟
جب ریاست اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ آف روڈ کلب پاکستان کے لوگ اپنی نجی فور بائے فور گاڑیوں میں کلفٹن اور ڈی ایچ اے کے ڈوبے ہوئے گھروں میں پھنسے خاندانوں کو ریسکیو کررہے تھے۔ انہوں نے لوگوں کے گھروں تک پیٹرول تک پہنچایا تاکہ وہ اپنے گھروں کے جنریٹر چلا سکیں۔
روشنیوں کے اس ڈوبے ہوئے شہر میں گروسری اسٹورز سے لے کر دیگر تمام کاروبار، پیٹرول اسٹیشنوں سے لے کر کھانے کی ترسیل تک سب کچھ بند کرنا پڑا۔ انڈر پاسز بھی زیرِ آب آگئے تھے اور گزرنے کے قابل نہیں تھے۔ لیکن اس دوران ہم نے نجی ایس یو ویز اور دیگر فور بائے فور گاڑی والوں کو بھی دیکھا جو تیز بارش میں پھنسے ہوئے لوگوں کو منتقل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان بارشوں میں ایک مشکل یہ بھی تھی کہ شہریوں کو نہ صرف خود کو بچانا تھا بلکہ اپنے جانوروں کی بھی حفاظت کرنی تھی۔
اسی طرح کئی ڈاکٹر آن لائن مریضوں سے رابطے میں تھے اور انہیں گھر پر کیے جانے والے علاج کے بارے آگاہ کررہے تھے۔ کراچی کی آئی آئی چندریگر روڈ پر شہر کے اہم مالی ادارے موجود ہیں۔ اس سڑک اور اس جیسی دیگر سڑکیں زیرِ آب آنے کی وجہ سے جو مرد و خواتین اپنے کام کی جگہوں سے نہیں نکل سکے تھے انہیں بھی بھلایا نہیں گیا اور لوگوں نے انہیں ان کے گھر والوں تک پہنچنے میں مدد دی۔
ہبہ ملک پی ای سی ایچ ایس کی رہائشی ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے شوہر دفتر سے گھر آتے ہوئے تیز بارش اور ڈوبی ہوئی سڑکوں کی وجہ سے آئی آئی چندریگر روڈ پر پھنس گئے تھے۔ انہوں نے وہیں رکنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کے خیال میں یہی بہتر انتخاب تھا۔ بلآخر ان کا ایک دوست جو قریب ہی رہتا تھا اس نے انہیں اپنے گھر بلایا اور ان کے کھانے کا بندوبست کیا۔ غیر معینہ مدت تک بجلی کی بندش کی وجہ سے کچھ ریسٹورنٹس نے رضاکارانہ طور پر گرم کھانا فراہم کیا۔
اس سال کراچی والوں کا جذبہ ٹائر ٹیوبز اور چھوٹی کشتیوں کی مدد سے ہونے والے ایڈونچر میں دیکھا گیا۔ شہریوں نے ریسکیو آپریشن کے دوران بھی خوشی کے لمحات تلاش کرلیے اور پانی سے بھری سڑکوں پر مزے کرتے ہوئے ویڈیوز بھی بنائیں۔
یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ کراچی والے کتنے سخت جان ہیں، وہ اس وقت بھی ایک دوسرے کی غیر مشروط مدد کرتے ہیں کہ جب شہر ڈوب رہا ہوتا ہے۔
یہ مضمون 24 جولائی کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (3) بند ہیں