• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

موبائل کا دھواں دھار استعمال: والدین مزے میں اور بچے خطرے میں

شائع July 25, 2022

تصویر نمبر ایک: بچے نے گٹھنے گٹھنے چلنا شروع کیا ہے اور ساتھ ہی ہر چیز کو چھونے، پکڑنے اور اس کا ذائقہ چکھنے کے لیے منہ میں ڈالنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ امّاں ابّا خاص طور پر امّاں یہ کہتی ہیں کہ ارے وہاں مت جاؤ، یہ مت پکڑو، چھی! کیا ہروقت الا بلا منہ میں ڈالتے رہتا ہے، بچے کے پیچھے ہر وقت بھاگ رہے ہیں۔

تصویر نمبر 2: بچہ سمجھدار اور اسکول جانے کی عمر کا ہوگیا ہے اور اب ایک کے بعد ایک سوالات ماں باپ کا پیچھا کررہے ہیں جیسے یہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے؟ فلاں کام ایسے کیوں ہوتا ہے؟ وہ انکل بات کرتے ہوئے منہ اس طرح کیوں بنالیتے ہیں؟ سوالات نہ ہوئے بمباری ہے جس سے والدین پہلے پریشان ہوتے ہیں پھر اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔

مثالیں بہت سی ہیں لیکن یہاں دہرانے کی خاص ضرورت نہیں۔

ایسی صورتحال میں والدین کیا سوچتے اور محسوس کرتے ہیں؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑھتی عمر کے بچوں کی سرگرمیاں، ان کی مخصوص فطری عادتیں، رویے اور اوپر سے وقت بے وقت رنگ برنگے سوالات بھاگتی دوڑتی زندگی میں الجھے ہوئے والدین کو مزید پریشان کردیتے ہیں مگر اس باوجود والدین حوصلے اور ہمت سے کام لیتے ہوئے بچے کو ہر طرح کے نقصان سے بچانے اور ان کے ہر سوال کا جواب دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں پھر چاہے ایسا کرتے کرتے وہ خود بیزار اور نڈھال ہی کیوں نہ ہوجائیں۔

مزید پڑھیے: اسکولوں کی چھٹیاں: بچوں کو کیا اور کب سکھائیں؟

اس موقع پر ان کا ذہن ایسے متبادل بندوبست کی تلاش شروع کردیتا ہے جس سے (والدین کی سمجھ کے مطابق) وہ سکون کا سانس لے سکیں، اپنے آپ پر توجہ دے سکیں اور دوسری طرف بچے نظروں کے سامنے مناسب طریقے سے مصروف رہ سکیں۔

والدین نے اس مسئلے کا کیا حل ڈھونڈا؟

عرصہ ہوا سائنس اور ٹیکنالوجی نے زندگی کے رنگ ڈھنگ، معمولات اور طور طریقے مکمل بدل کر رکھ دیے ہیں، ایسے میں بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے پرانے انداز بھی متروک ہوچکے ہیں، یعنی پہلے جو خوب تھا وہ اب ناخوب ہوگیا۔ زندگی کی ضروریات اور والدین کی مصروفیات میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوگیا یوں بھرپور خواہش کے باوجود بچوں کے ساتھ اب وقت گزارنا ممکن نہیں رہا۔

ایسے میں ٹیکنالوجی موبائل فون کا روپ دھار کر بڑی آہستگی سے زندگی میں داخل ہوئی اور پھر یہ دستی فون خود ہی ایک مکمل زندگی بن گیا۔ کہنے کو یہ رابطے کا، بات کرنے کا فقط ایک آلہ تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ والدین نے اسے ’بچوں کو مصروف رکھنے، سیکھنے, سمجھنے اور تفریح’ کا ایک معصومانہ ذریعہ سمجھ لیا۔ ان کا خیال تھا کہ موبائل فون پر بچہ کارٹون اور دوسرے تفریحی پروگرامات دیکھے گا یعنی وہ رنگین دنیا میں گم رہے گا اور وہ سکون سے رہیں گے۔ کہنے سننے میں تو یہ ‘نسخہ’ بڑا بھلا معلوم ہوتا تھا لیکن مرض سامنے آتا گیا جوں جوں دوا کی۔

والدین کا خیال تھا کہ موبائل فون پر بچہ کارٹون اور دوسرے تفریحی پروگرامات دیکھے گا یعنی وہ رنگین دنیا میں گم رہے گا اور وہ سکون سے رہیں گے
والدین کا خیال تھا کہ موبائل فون پر بچہ کارٹون اور دوسرے تفریحی پروگرامات دیکھے گا یعنی وہ رنگین دنیا میں گم رہے گا اور وہ سکون سے رہیں گے

موبائل نے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

اس مختصر سوال کے جواب کی تلاش میں اب تک ڈھیروں تحقیق ہوچکی ہیں جو بچوں کے ذہن، جسم، جذبات اور رویوں پر موبائل اور انٹرنیٹ سے مرتب ہونے والے گہرے اثرات اور نقصانات کی نشاندہی کرتی ہیں اور فی الحال ہم اپنی گفتگو کو اس ٹیکنالوجی سے حاصل ہونے والی معلومات کے بچوں پر اثرات اور نتائج تک محدود رکھتے ہیں۔

موبائل اور انٹرنیٹ کے غیر معمولی استعمال کا پہلا نتیجہ یکسوئی کا بحران ہے

فرض کیجیے کہ آپ کے پاس ایک لیٹر پانی رکھنے کا برتن یے اور آپ اس میں 2 لیٹر پانی ڈالنا چاہیں تو کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو منظورِ خدا ہوگا، یعنی پانی برتن میں داخل ہی نہیں ہوگا البتہ کوئی ٹھوس چیز داخل کرنا چاہیں تو وہ برتن میں زبردستی ’ٹھونسنا’ ہوگی۔ بس یہی سلوک موبائل اور انٹرنیٹ ہمارے بچوں کے ساتھ کررہا ہے۔

مزید پڑھیے: کیا آپ کا بچہ بھی گیمنگ کے نشے کا شکار ہے؟

ایک کے بعد ایک کارٹون اور رنگ برنگی ویڈیوز کی بھرمار کے سبب بچے کی آنکھیں اسکرین پر مسلسل مصروف رہتی ہیں جبکہ دماغ میں کھچڑی بننا شروع ہوجاتی ہے کیونکہ دماغ کو پروگرام سے لطف اندوز ہونے کا سگنل دینے کی ’مہلت’ ہی نہیں مل رہی ہے۔ دماغ کی سانسیں پھول رہی ہیں کہ جو کچھ آنکھیں دیکھ رہی ہیں اسے اچھی طرح جذب کرنے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔ مسلسل یہ کام ہونے کی وجہ سے دماغ کا سانچہ کچھ اس طرح بن جاتا ہے کہ یکسوئی والے ہر کام سے بیزاری اور گھبراہٹ ہونے لگتی ہے اور یہ چیز آگے چل کر عملی زندگی میں باقاعدہ ’مسئلہ’ بن جاتی یے۔

ایک اور مسئلہ: وقت سے پہلے ضرورت سے زیادہ معلومات

‘فطری رفتار’ دنیا کی خیریت کا سادہ سا اصول ہے یعنی ہر چیز اپنے وقت پر اچھی لگتی ہے مگر بچوں کے معاملے میں موبائل اور انٹرنیٹ نے اس فارمولے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔

بچے کے ہاتھ میں موبائل آیا تو اس کی انگلیاں اسکرین پر گھومنے لگیں، اس کو ایسے سمجھیں کہ وال کھل گیا یے اور معلومات کا ٹینکر بھرنا شروع ہوگیا ہے۔ پھر ایک خطرناک مرحلہ آتا ہے کہ معلومات کی فراوانی کی وجہ سے والدین حتیٰ کہ اساتذہ پیچھے اور بچہ ان سے آگے بھاگ رہا ہوتا ہے۔ اطلاعات اور خبروں کی دنیا میں مسلسل ’اِن’ اور آگے رہنے کی وجہ سے بچے میں احساس برتری بھی پیدا ہوجاتا ہے جبکہ والدین اور اساتذہ کے لیے یہ ایک پریشان کن صورتحال ہوتی ہے کہ جس بات کا انہیں علم نہیں وہ بچے کی انگلیوں پر ہے۔

ٹھہریے! کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ انٹرنیٹ سے معلومات جمع کرکے سو جاتا ہے؟ جی نہیں بلکہ بچہ حاصل ہونے والی معلومات کی خود ’تصدیق و توثیق’ کرنے کے پراجیکٹ کے لیے مستعد ہوجاتا ہے۔ اب والدین تصور کرسکتے ہیں کہ وقت سے پہلے ہر معلومات کو خود مشق کرکے آزمانا کیا نتیجہ لاسکتا ہے۔

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ انٹرنیٹ سے معلومات جمع کرکے سو جاتا ہے تو یہ غلط فہمی ہے
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ انٹرنیٹ سے معلومات جمع کرکے سو جاتا ہے تو یہ غلط فہمی ہے

ایسی صورتحال میں والدین کیا کریں؟

موبائل کے نقصان اور فوائد دونوں کے بارے میں دلائل بیان کیے جاسکتے ہیں لیکن اس حقیقت کو قبول کیے بغیر بھی چارہ نہیں کہ موبائل رابطے کے علاوہ اور بہت ساری سہولیات مہیا کرتا ہے جو زندگی کا حصہ بن گئی ہیں۔

مزید پڑھیے: اسکولوں کی چھٹیاں: بچے خوش، مگر بڑے پریشان!

سوال یہ ہے کہ اب ایسا کیا طریقہ اختیار کیا جائے کہ کام بھی چلتا رہے۔ اس حوالے سے والدین کوشش کریں کہ بچوں کی غیر موجودگی میں موبائل سے جو کام نمٹانے ہیں وہ نمٹالیں اور بچے جب گھر پر ہوں تو موبائل کا استعمال کم سے کم کیا جائے، ممکن ہے کہ ابتدا میں اس مشق میں قدرے الجھن ہو لیکن اس کے بدلے میں بچے سے جو نزدیکی اور نزدیکی کے نتیجے میں جو خوشگوار تعلق قائم ہوگا وہ آنے والے وقتوں میں شاندار بلکہ یوں کہیے حیران کن نتائج لے کر آئے گا۔

بچوں کو جسمانی سرگرمیوں کی ترغیب

بچوں کو محض تنقید اور تلقین کے ذریعے موبائل فون کے استعمال سے دُور رکھنے کی کوشش سے بات نہیں بنے گی بلکہ انہیں متبادل مصروفیت یا سرگرمی بھی مہیا کرنا ہوگی۔

اس کے لیے جب اور جتنا موقع ملے انہیں کسی پارک یا کھیل کے میدان میں لے جائیں اور ان کے ساتھ کھیلیں۔ کچھ دیر کے لیے ان کے ساتھ بچہ بننے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، مصروفیت یا کسی اور وجہ سے بچوں کو گھر سے باہر نہ لے جاسکیں تو گھر میں کچھ انڈور کھیل کو اپنے معمول میں شامل کرلیں اور ساری کوششیں کرنے کے ساتھ یہ بات اپنے آپ کو ہمیشہ یاد دلاتے رہیں کہ عادتیں بننے اور بدلنے میں وقت لگتا ہے۔

محمد اسعد الدین

فطرتاً تحقیقی مزاج کے حامل اور صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے محمد اسعدالدین پیرنٹنگ کے میدان میں نئے رجحان متعارف کرانے والے فرد ہیں۔ مختلف رسائل اور سوشل میڈیا پر پیرنٹنگ، بچوں اور والدین کے تعلقات کی مختلف جہتوں پر لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ms Lashari Jul 26, 2022 10:25am
PERFECTLY WRITTEN.... thanks for highlighting the aspects of frequent Mobile usage & its effects. ....

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024