پی ٹی آئی کے خلاف 8 برس پرانا ممنوعہ فنڈنگ کیس، کب کیا ہوا؟
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کا مقدمہ 2014 میں پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کی درخواست پر شروع ہوا تھا۔
یہ درخواست پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے 14 نومبر 2014 کو دائر کی تھی۔
درخواست پولیٹیکل پارٹیز آرڈر اور پولیٹیکل پارٹیز رولز کی شق 6 کے تحت دائر کی گئی تھی اور مؤقف اپنایا گیا تھا کہ ممنوعہ ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرنے پر پی ٹی آئی قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔
الیکشن کمیشن سے استدعا کی گئی تھی کہ ذمہ داران کے خلاف پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے پیرا 14 اور 15 کے تحت کارروائی کی جائے۔
پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی درخواست پر الیکشن کمیشن میں کیس کی 90 سے زائد سماعتیں ہوئیں، 30 سے زائد مواقع پر پی ٹی آئی نے وکلا کی خرابی صحت، بیرونی دوروں اور دیگر مصروفیات کے باعث التوا کی درخواست کی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے اس دوران 6 سے زائد مرتبہ درخواستوں کے ناقابل سماعت ہونے کی درخواستیں دائر کی گئیں۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے وکلا کو متعلقہ دستاویزات جمع کرانے کے لیے 21 احکامات جاری کیے جبکہ پی ٹی آئی نے اس مقدمے میں 8 وکلا تبدیل کیے۔
الیکشن کمیشن نے مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کے مالی امور کی جانچ پڑتال کے لیے اسکروٹنی کمیٹی قائم کی تھی، جس کے لگ بھگ 95 اجلاس ہوئے جبکہ کمیٹی کو کام کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن میں التوا کی درخواستوں اور دیگر وجوہات کے باعث کمیٹی نے 4 سال کے عرصے میں اپنا کام مکمل کیا اور جنوری 2022 میں اسکروٹنی کمیٹی نے الیکشن کمیشن میں رپورٹ جمع کرائی۔
اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی کی فنڈنگ میں کروڑوں روپے کی بے ضابطگیوں اور بیرون ملک سے فنڈنگ کا انکشاف کیا تاہم اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر فریقین کے وکلا نے دلائل دیے۔
الیکشن کمیشن میں 8 سال سے جاری مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی گئی تھی، جس پر ہائی کورٹ نے 13 اپریل 2022 کو حکم دیا تھا کہ کمیشن 30 روز میں مقدمے کا فیصلہ سنائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم نامے پر الیکشن کمیشن نے مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ کیا اور بالآخر 21 جون کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس میں کیا کچھ ہوا اور یہ کن مراحل سے گزرا، اس کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تفصیل
پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں مذکورہ کیس دائر کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے 'ہنڈی' کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔
ان کا یہ بھی الزام تھا کہ جو فنڈز بیرونِ ملک موجود اکاؤنٹس حاصل کرتے تھے، اسے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں پوشیدہ رکھا گیا۔
بعد ازاں ایک سال سے زائد عرصے تک اس کیس کی سماعت ای سی پی میں تاخیر کا شکار رہی تھی کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اکتوبر 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ اس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال سے ای سی پی کو روکا جائے۔
فروری 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار پر جائزہ لینے کے لیے کیس کو دوبارہ ای سی پی کو بھیج دیا تھا، اسی سال 8 مئی کو ای سی پی کے فل بینچ نے اس کیس پر اپنے مکمل اختیار کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اس طرح کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی کہ درخواست گزار کو پارٹی سے نکال دیا گیا اور وہ پی ٹی آئی اکاؤنٹس پر سوالات اٹھانے کا حق کھو بیٹھے۔
اسکروٹنی کمیٹی کا قیام
مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ اکاؤنٹس کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک اسکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔
گزشتہ برس یکم اکتوبر کو ای سی پی نے غیر ملکی فنڈنگ کیس کی جانچ پڑتال میں رازداری کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دائر 4 درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
10 اکتوبر 2019 کو الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کمیٹی کے ذریعے تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کے آڈٹ پر حکمراں جماعت کی جانب سے کیے گئے اعتراضات مسترد کردیے تھے لیکن پی ٹی آئی نے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور نومبر 2019 میں فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
کمیشن نے 2020 غیر ملکی فنڈنگ کیس سے متعلق اپنی اسکروٹنی کمیٹی کی ’ادھوری‘ رپورٹ کو رد کردیا تھا اور حکم نامے میں کہا تھا کہ رپورٹ مکمل اور جامع نہیں ہے۔
بعد ازاں نومبر 2021 میں الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی کے فنڈز کی آڈٹ رپورٹ جمع کروا دی تھی، مارچ 2019 میں تشکیل دی گئی کمیٹی نے ڈیڈ لائن بھی ختم ہونے کے 6 ماہ بعد اپنی رپورٹ جمع کروائی تھی۔
اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی اسکروٹنی کمیٹی کی تیار کردہ تہلکہ خیز رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈز حاصل کیے، فنڈز کو کم دکھایا اور درجنوں بینک اکاؤنٹس چھپائے۔
رپورٹ کے مطابق پارٹی نے مالی سال 10-2009 اور 13-2012 کے درمیان چار سال کی مدت میں 31 کروڑ 20 لاکھ روپے کی رقم کم ظاہر کی، سال کے حساب سے تفصیلات بتاتی ہیں کہ صرف مالی سال 13-2012 میں 14 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم کم رپورٹ کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 'پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس پر اس مدت کے لیے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی رائے کے جائزے میں رپورٹنگ کے اصولوں اور معیارات سے کسی انحراف کی نشاندہی نہیں ہوئی'۔
یہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے دستخط شدہ سرٹیفکیٹ پر بھی سوالیہ نشان ہے، جسے پی ٹی آئی کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کی تفصیلات کے ساتھ جمع کرایا گیا تھا۔
رپورٹ میں پی ٹی آئی کے چار ملازمین کو ان کے ذاتی اکاؤنٹس میں چندہ وصول کرنے کی اجازت دینے کے تنازع کا بھی حوالہ دیا گیا لیکن کہا گیا ہے کہ ان کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرنا کمیٹی کے دائرہ کار سے باہر تھا۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی مکمل جانچ پڑتال کے لیے اسکروٹنی کمیٹی مارچ 2018 میں تشکیل دی گئی تھی لیکن اسے اپنی رپورٹ ای سی پی کو پیش کرنے میں تقریباً چار سال لگے جو دسمبر 2021 میں جمع کرائی گئی تھی۔
تفصیلات منظر عام پر لانے کا حکم
البتہ اس رپورٹ میں چند دستاویزات کو خفیہ رکھا گیا تھا اور رپورٹ کے ساتھ منظر عام پر نہیں لایا گیا تھا جس کے بعد 19 جنوری 2022 کو الیکشن کمیشن نے تمام خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا۔
14 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مقدمے کا فیصلہ ایک مہینے میں کرنے کا حکم دے دیا تھا جسے تحریک انصاف نے چیلنج کردیا تھا اور ان کی انٹراکورٹ اپیل پر 30 روز میں فیصلہ کرنے کے عدالتی حکم کو معطل کردیا گیا تھا۔
15 جون کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے پی ٹی آئی کا مؤقف تسلیم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے عملے کو کیس فارن فنڈنگ کے بجائے ممنوعہ فنڈنگ لکھنے کی ہدایت کردی تھی۔
فیصلہ محفوظ
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2014 میں شروع ہونے والے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ 21 جون 2022 کو محفوظ کرلیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جہاں آخری روز ماہر معیشت ارسلان وردک نے بھی دلائل دیے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن ووٹر کا اعتماد بحال اور ملک کو جمہوری طور پر مضبوط کرنا چاہتا ہے۔