مہنگی ترین دوربین اور بہت پرانی تصویر… ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے!
آج کل ناسا کی جاری کردہ تازہ تصویروں کے بہت چرچے ہیں۔ دُور دراز ستاروں اور کہکشاؤں کی یہ تصویریں ‘جیمس ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ’ (جے ڈبلیو ایس ٹی) نے کھینچی ہیں۔ یہ انسانی تاریخ میں اب تک بنائی گئی سب سے مہنگی خلائی دُوربین بھی ہے جسے امریکا، کینیڈا اور یورپی خلائی ایجنسی نے باہمی تعاون و اشتراک سے تیار کیا ہے اور خلا میں بھیجا ہے۔ اس پر تقریباً 10 ارب ڈالر کی لاگت آئی ہے۔
البتہ ‘جے ڈبلیو ایس ٹی’ کی کھینچی ہوئی جو تصویریں آج کل میڈیا اور سوشل میڈیا پر مشہور ہورہی ہیں، وہ تو صرف پہلی کھیپ ہے کیونکہ آنے والے مہینوں اور برسوں میں ایسی ہزاروں لاکھوں تصویریں کھینچی جائیں گی، جن میں سے کچھ اس سے بھی کہیں زیادہ دُور دراز ستاروں اور کہکشاؤں کی ہوں گی، اور جنہیں دیکھ کر ہم اس کائنات کی مزید گتھیاں سلجھانے کے قابل ہوں گے۔ یعنی… ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے!
آگے بڑھنے سے پہلے ان میں سے پہلی تصویر کی کچھ وضاحت کیے دیتے ہیں، لیکن اس عظیم الشان خلائی دُور بین (جے ڈبلیو ایس ٹی) کی اصلی اہمیت اور اہم ترین مقاصد کے بارے میں جاننے کے لیے آپ کو یہ پورا بلاگ پڑھنا ہوگا، جسے پڑھ کر آپ کی معلومات میں اضافہ تو ہوگا لیکن یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ آپ اسے پڑھ کر کچھ ‘پیسہ کمانے’ کے قابل ہوجائیں گے۔
ایک خاص تصویر
یہ تصویر بہت خاص ہے کیونکہ یہ اب تک انفراریڈ (زیریں سرخ) شعاعوں سے کھینچی گئی سب سے دُور اور انتہائی تفصیلی تصویر ہے۔ اسے ‘ویبز فرسٹ ڈیپ فیلڈ’ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس تصویر کی رونمائی امریکی صدر جو بائیڈن نے 11 جولائی 2022ء کے روز وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب میں کی۔
یہ کہکشاؤں کے ایک جھرمٹ ‘ایس ایم اے سی ایس 0723’ کی تصویر ہے جس میں سیکڑوں کہکشائیں دیکھی جاسکتی ہیں، جبکہ یہ ہم سے 4 ارب 60 کروڑ نوری سال دُور ہے۔ یعنی اس تصویر میں کہکشانی جھرمٹ کا جو منظر ہم دیکھ رہے ہیں، وہ آج سے 4 ارب 60 کروڑ سال قدیم ہے۔ (اس کی وضاحت بلاگ میں کچھ دیر بعد کی جائے گی۔)
آسمان کے جس حصے کی یہ تصویر ہے، وہ بہت ہی چھوٹا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے چاول کے ایک دانے کو ایک بازو (تقریباً 3 فٹ) کی دُوری سے دیکھیے۔ جتنا بڑا وہ چاول کا دانہ نظر آتا ہے، آسمان کا یہ حصہ (جس کی یہ تصویر ہے) اتنا ہی چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔
یہ تصویر ‘نیئر انفراریڈ کیمرا’ (NIRCam) سے کھینچی گئی ہے اور اس میں مختلف لمبائیوں (ویولینتھ) والی انفراریڈ شعاعیں استعمال کی گئی ہیں جبکہ جیمس ویب خلائی دُوربین کو یہ تصویر کھینچنے میں تقریباً 2 ہفتے لگ گئے اور اس دوران مجموعی طور پر ساڑھے 12 گھنٹے کی تصویر کشی کی گئی۔
جیمس ویب خلائی دُوربین کی مزید اور تازہ بتازہ تصویروں، خبروں اور ویڈیوز کے لیے ناسا نے باقاعدہ طور پر ‘ویب ٹیلی اسکوپ’ کی ویب سائٹ بھی بنا دی ہے۔
اب ہم قدرے تفصیل سے یہ دیکھتے ہیں کہ ‘جیمس ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ’ (جے ڈبلیو ایس ٹی) کو خلا میں کیوں بھیجا گیا ہے؟
پُراسرار کائنات اور کچھ اہم سوال
کائنات ہماری سوچ سے بھی زیادہ پُراسرار ثابت ہورہی ہے۔ ہر نئی دریافت، کائنات کی پُراسراریت میں اضافہ کرتی جارہی ہے۔ ہر پرانے سوال کا جواب، بہت سے نئے سوالوں کو جنم دیتا ہے اور ہم ان کا جواب ڈھونڈنے کی جستجو میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جیمس ویب خلائی دُوربین (جے ڈبلیو ایس ٹی) بھی اسی جستجو کا ایک باب ہے۔
اس خلائی دُوربین کا مقصد کچھ اہم سوالوں کے جوابات ڈھونڈنا ہے۔ مثلاً یہ کہ
- کائنات میں سب سے پہلے ستارے کب اور کیسے وجود میں آئے؟
- اوّلین کہکشائیں کب بننا شروع ہوئیں اور وہ کیسی دکھائی دیتی تھیں؟
- زمین جیسے دوسرے سیاروں کا ماحول کیسا ہے؟
- کیا وہاں بھی ہماری زمین کی طرح کرۂ ہوائی اور آب و ہوا موجود ہیں؟
- کیا زمین کی طرح ان سیاروں کا ماحول بھی زندگی کے لیے سازگار ہے؟
- کیا وہاں بھی زندگی موجود ہے؟
ویسے تو سوالوں کی یہ فہرست خاصی طویل ہے لیکن اس میں شامل اہم ترین سوالات یہی ہیں۔
‘جے ڈبلیو ایس ٹی’ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا، کینیڈین اسپیس ایجنسی اور یوروپین اسپیس ایجنسی کی مشترکہ خلائی دُوربین ہے جسے بجا طور پر ایک عظیم سائنسی کارنامہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس خلائی دُوربین کا یہ نام امریکی خلائی تحقیقی ادارے ‘ناسا’ کے دوسرے سربراہ، جیمس ایڈوِن ویب کے نام پر رکھا گیا ہے، جنہوں نے انسان کو چاند تک پہنچانے کا امریکی منصوبہ کامیاب بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
اس خلائی دُوربین کی کیا ضرورت ہے؟
ہوسکتا ہے آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ جب ہمارے پاس پہلے سے بہت سی طاقتور زمینی اور خلائی دُوربینیں موجود ہیں تو پھر ایک نئی اور اس قدر مہنگی خلائی دُوربین کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں اس منصوبے کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنا ہوگی۔
واقعہ یہ ہے کہ ناسا نے ہبل خلائی دُوربین اپریل 1990ء میں مدار میں پہنچائی، جو سب س پہلی بصری (آپٹیکل) خلائی دُوربین بھی تھی، لیکن سائنسدان بخوبی جانتے تھے کہ کائنات کے راز بہت زیادہ ہیں، جنہیں بے نقاب کرنے کے لیے ہبل خلائی دُوربین بھی کافی نہیں ہوگی۔ اسی سوچ کے پیشِ نظر ناسا کے تحت 1996ء میں ‘نیکسٹ جنریشن اسپیس ٹیلی اسکوپ’ نامی منصوبے پر کام شروع کردیا گیا۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ منصوبہ ‘اگلی نسل کی خلائی دُوربین’ سے متعلق تھا جو ‘ہبل’ سے بھی زیادہ بہتر اور طاقتور ہو۔ پھر 2002ء میں اسے ‘جیمس ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ’ یا مختصراً ‘جے ڈبلیو ایس ٹی’ کا نام دیا گیا۔ ابتدا میں خیال تھا کہ یہ منصوبہ زیادہ مہنگا نہیں ہوگا لیکن یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔
ہبل خلائی دُوربین پر ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ ہوئے تھے جبکہ جے ڈبلیو ایس ٹی کی ممکنہ لاگت 10 ارب ڈالر پر پہنچ رہی تھی۔ یہ لاگت اتنی زیادہ تھی کہ ‘ناسا’ کے لیے بھی اس کا انتظام کرنا ممکن نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ ناسا اپنا سارے کا سارا بجٹ صرف ایک منصوبے پر ہی صرف نہیں کرسکتا تھا۔ لہٰذا، اس منصوبے میں کینیڈین اور یورپی خلائی ایجنسیوں کو بھی شریک کرلیا گیا۔ اس طرح عالمی اشتراک سے ‘جے ڈبلیو ایس ٹی’ کا منصوبہ آگے بڑھایا جاتا رہا۔
آخرکار 26 اگست 2021ء کے روز ‘ناسا’ نے اعلان کیا کہ جیمس ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی تمام زمینی آزمائشیں مکمل ہوچکی ہیں اور اب یہ اپنے مدار میں روانگی کے لیے بالکل تیار ہے۔
اگلے چند ماہ میں ‘جے ڈبلیو ایس ٹی’ کو بہت احتیاط سے، پاناما کینال کے راستے ‘گیانا اسپیس سینٹر’ پہنچا دیا گیا، جسے ‘یوروپین اسپیس پورٹ’ بھی کہتے ہیں۔ یہ اسپیس سینٹر جنوبی امریکا میں ‘کورو’ نامی چھوٹے سے ساحلی قصبے میں واقع ہے جو فرانس کے زیرِ انتظام گیانا کا حصہ ہے۔ ایندھن بھرنے اور دوسری تمام ضروری کارروائیوں کے بعد اسے 25 دسمبر 2021ء کے روز ‘آریان’ راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیج دیا گیا اور یہ آہستہ آہستہ اپنے ‘اصلی مدار’ کی طرف بڑھنے لگی۔
جنوری 2022ء کے اختتام تک یہ اپنے مدار میں پہنچ چکی تھی اور پھر، انتہائی احتیاط سے، اس کے آئینے کھولنے اور ان کی سیدھ ‘درست’ کرنے کا طویل مرحلہ شروع ہوا جو لگ بھگ مئی 2022ء کے وسط تک جاری رہا۔ اپنے آئینوں کی درستی اور جانچنے کے لیے اس نے مختلف ‘آزمائشی تصویریں’ بھی کھینچیں جو ناسا کی ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہیں۔
غرض کہ آئینوں اور حفاظتی ساز و سامان کو کھولنے اور دُوربین کو جانچنے کا کام پورا ہونے میں مزید ایک مہینہ لگ گیا۔ اس طرح ‘جے ڈبلیو ایس ٹی’ نے جون 2022ء کے وسط میں اپنے اصل مشن کا آغاز کیا، جو متوقع طور پر کم از کم اگلے 10 سال تک جاری رہے گا۔
12 جولائی 2022ء کے روز ‘ناسا’ کی جاری کردہ تصاویر اس مشن کی ‘پہلی قسط’ سمجھی جاسکتی ہیں کیونکہ ‘جے ڈبلیو ایس ٹی’ کو وسیع و عریض اور تاریک خلا میں بہت دُور تک دیکھنا ہے۔
سورج کے گرد، زمین کے ساتھ
یہ سورج کے گرد اپنے الگ مدار میں چکر لگا رہی ہے لیکن زمین سے اس کا اوسط فاصلہ تقریباً 15 لاکھ کلومیٹر برقرار ہے۔ موازنے کی غرض سے بتاتے چلیں کہ ہبل خلائی دُوربین کا مدار، زمین سے صرف 570 کلومیٹر بلندی پر ہے۔ بیشتر مصنوعی سیارچے یعنی سیٹلائٹس، تقریباً 36 ہزار کلومیٹر اونچائی والے مدار میں رہتے ہوئے زمین کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ اور تو اور، چاند کا زمین سے اوسط فاصلہ بھی 3 لاکھ 84 ہزار کلومیٹر ہے۔ جیمس ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کا فاصلہ اس سے بھی تقریباً 4 گنا زیادہ ہے!
اس کا مدار ‘لیگرانجیئن 2’ (ایل 2) کہلاتا ہے، جس میں رہتے ہوئے یہ سورج کے گرد چکر ضرور لگا رہی ہے لیکن زمین سے یکساں فاصلہ اور سمت تقریباً برقرار رکھتے ہوئے اور اس طرح ‘جے ڈبلیو ایس ٹی’ سے زمینی اسٹیشن کا مواصلاتی رابطہ بھی ہر وقت قائم ہے۔
زمین سے اتنی زیادہ دُوری کی وجہ سے خلا کا انتہائی تاریک ماحول اس کے سامنے ہے۔ اسی گھٹاٹوپ تاریکی میں یہ کائنات میں ان دُور دراز ستاروں اور کہکشاؤں سے آنے والی انتہائی مدھم انفراریڈ (زیری سرخ) شعاعیں بھی دیکھ سکے گی جنہیں آج تک کوئی دُوربین نہیں دیکھ سکی ہے۔
کائنات کے وہ تاریک گوشے آج تک ہماری نظروں سے اوجھل ہیں اور اس طرح یہ خلائی دُوربین، کائنات کے کچھ اہم رازوں سے پردہ اٹھانے میں ہماری مدد کرے گی۔
یہ ان سوالوں کے جواب دینے میں بھی ہماری مددگار ہوگی جو ہبل خلائی دُوربین کے بس سے باہر ہیں۔
جیمس ویب خلائی دُوربین کی جسامت اگرچہ ہبل خلائی دُوربین سے کچھ زیادہ نہیں، لیکن پھر بھی یہ ‘ہبل’ سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ ‘ہبل’ کا صرف ایک مرکزی آئینہ ہے جس کی چوڑائی (یعنی قطر) دو اعشاریہ چار (2.4) میٹر ہے۔ ‘جیمس ویب’ میں 18 آئینوں کو آپس میں جوڑ کر ایک بہت بڑا مرکزی آئینہ بنایا گیا ہے جس کی مجموعی چوڑائی تقریباً ساڑھے چھ (6.5) میٹر ہے۔
اس آئینے کا رقبہ بھی ‘ہبل’ کے آئینے کے مقابلے میں سوا چھ (6.25) گنا زیادہ ہے، جس کی بدولت ‘جے ڈبلیو ایس ٹی’ ناصرف کئی گنا زیادہ شعاعیں جمع کرسکتی ہے بلکہ ایک بار میں ‘ہبل’ سے 15 گنا بڑے کائناتی علاقے کا عکس بھی لے سکتی ہے!
سورج سے آنے والی خطرناک شعاعوں سے بچانے کے لیے اس کے ساتھ ایک اضافی ڈھال یعنی ‘سن شیلڈ’ بھی نصب ہے، جس کی لمبائی تقریباً ایک ٹینس کورٹ جتنی ہے۔ اپنے بڑے آئینے اور جدید ترین، حساس آلات کی مدد سے ‘جیمس ویب’ 13 ارب 70 کروڑ نوری سال دُوری تک بھی دیکھ سکے گی۔ اب تک کوئی خلائی دُوربین کائنات میں اتنی دُور تک نہیں دیکھ سکی ہے، ‘ہبل’ بھی نہیں!
جتنا دور، اتنا قدیم
لیکن یہ دُوری آخر اتنی معنی خیز کیوں ہے؟ یقین کیجیے کہ جب آپ کو اس بارے میں پتا چلے گا تو آپ چکرا کر رہ جائیں گے (اور اگر مذہبی رجحان رکھتے ہیں تو شاید خالقِ کائنات کی خلّاقی پر قائل بھی ہوجائیں)۔
خلا میں روشنی کی رفتار 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے، یعنی وہ ہر ایک سیکنڈ میں 3 لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرلیتی ہے۔ کائنات میں زیادہ سے زیادہ رفتار کی آخری حد بھی یہی ہے۔ کوئی بھی چیز اس سے زیادہ رفتار پر حرکت نہیں کرسکتی، چاہے وہ کچھ بھی ہو!
کائنات میں جو چیز ہم سے جتنی دُور ہے، اس سے آنے والی روشنی بھی اتنی ہی دیر بعد ہم تک پہنچتی ہے۔ اسی لیے ہم کائناتی فاصلوں کو بھی ‘وقت’ کے پیمانے پر ناپتے ہیں۔
مثلاً ہماری زمین سے سورج کا اوسط فاصلہ 15 کروڑ کلومیٹر ہے۔ اس کی روشنی ہم تک 500 سیکنڈ، یعنی 8 منٹ 20 سیکنڈ بعد پہنچتی ہے۔ مطلب یہ کہ جب ہمارے لیے ‘غروبِ آفتاب’ کا وقت ہوتا ہے تو سورج اس سے 8 منٹ 20 سیکنڈ پہلے غروب ہوچکا ہوتا ہے! یہی بات ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ سورج ہماری زمین سے ‘500 نوری سیکنڈ’ یا ‘8 منٹ اور 20 نوری سیکنڈ’ دُور ہے۔
لیکن اگر ہم کائناتی پیمانے پر بات کریں تو معلوم ہوگا نوری سیکنڈ اور نوری منٹ جیسے پیمانے بھی بہت چھوٹے اور معمولی ہیں۔ اسی لیے ہم کائناتی وسعتوں کو بیان کرنے کے لیے عام طور پر ‘نوری سال’ یعنی ‘لائٹ ایئر’ کہلانے والا پیمانہ استعمال کرتے ہیں۔
مثلاً سورج کے بعد، زمین سے دوسرا قریب ترین ستارہ ‘پراکسیما سینٹوری’ کہلاتا ہے، جس کا ہم سے فاصلہ تقریباً 40 ہزار 208 ارب کلومیٹر (40,208,000,000,000 کلومیٹر) ہے۔ اس ستارے کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں تقریباً سوا چار سال (4.25 سال) لگ جاتے ہیں۔ یعنی آج پراکسیما سینٹوری ہمیں جس جگہ پر اور جس حالت میں دکھائی دے رہا ہے، وہاں اور اُس حالت میں یہ آج سے سوا چار سال پہلے تھا۔ یہی بات اس طرح بھی کہی جاتی ہے کہ پراکسیما سینٹوری کا زمین سے فاصلہ تقریباً 4.25 نوری سال یعنی 4.25 لائٹ ایئرز ہے۔
ان دونوں مثالوں سے آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ کائنات میں جو چیز بھی ہم سے جتنی دُور ہے، دراصل ہم اُس کا اتنا ہی پرانا منظر دیکھ رہے ہیں۔ اب اگر کوئی ستارہ ہم سے 10 ہزار نوری سال دُور ہے، تو آج اس کا جو منظر ہمیں دکھائی دے رہا ہے، وہ اصل میں آج سے 10 ہزار سال پہلے کا ہے۔ یعنی کائنات میں زیادہ دُور تک دیکھنے کا مطلب، اتنے ہی پرانے ماضی میں جھانکنا بھی ہے!
اب آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ ‘جیمس ویب خلائی دُوربین’ کی پہلی تصویر میں کہکشانی جھرمٹ کے منظر کو ہم نے 4 ارب 60 کروڑ سال قدیم کیوں کہا تھا۔
ہبل خلائی دُوربین کی بات کریں تو اب تک یہ زیادہ سے زیادہ 13 ارب 40 کروڑ نوری سال دُور کہکشاؤں کو دیکھ سکی ہے، یعنی وہ کہکشائیں جو آج سے 13 ارب 40 کروڑ سال پہلے کے زمانے سے میں موجود تھیں۔
ہمارے اب تک کے بہترین اندازوں کے مطابق، کائنات کی ابتدا آج سے تقریباً 13 ارب 80 کروڑ سال پہلے ‘بگ بینگ’ سے ہوئی تھی کہ جب ہماری کائنات ‘عدم’ سے ‘وجود’ میں آئی تھی۔
ہبل خلائی دُوربین جو منظر دیکھ سکی ہے وہ اس زمانے کے ہیں کہ جب کائنات ‘نوجوان’ تھی اور اس کی عمر ‘صرف’ 40 کروڑ سال کے آس پاس تھی۔ یہ اس سے زیادہ دُور تک، یعنی کائنات کے اس سے بھی قدیم ماضی میں نہیں دیکھ سکتی۔ یقیناً اس سے پہلے بھی بہت کچھ رہا ہوگا، لیکن وہ مناظر ‘ہبل’ کی پہنچ سے بہت دُور ہیں۔
اس سے پہلے کیا تھا؟ کائنات اپنے ‘بچپن’ اور ‘لڑکپن’ میں کیسی دکھائی دیتی تھی کہ جب اس کی عمر شاید صرف 10 کروڑ سال کے لگ بھگ تھی؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں ایک اور خلائی دُوربین کی ضرورت تھی، ایک ایسی خلائی دُوربین جو ہبل سے بھی زیادہ دُور تک، انتہائی قدیم کائناتی ماضی میں بھی جھانک سکے۔ یہی نہیں، بلکہ ایسی کسی خلائی دُوربین کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ انفراریڈ شعاعیں استعمال کرتے ہوئے، دُور دراز کے یہ مناظر دیکھ سکے۔
کائنات کا ‘بچپن’
جیمس ویب خلائی دُوربین اسی مقصد کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اس کی مدد سے ہم کائنات میں تقریباً 13 ارب 70 کروڑ نوری سال دُور تک دیکھ سکیں گے۔ وہ مناظر آج سے 13 ارب 70 کروڑ سال پہلے کے ہوں گے، یعنی وہ زمانہ کہ جب کائنات کا ‘بچپن’ تھا اور شاید وہ صرف 10 کروڑ سال کی تھی!
کائنات کے بارے میں اب تک ہم جو کچھ جان سکے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بگ بینگ کے موقعے پر ہماری کائنات ناقابلِ یقین حد تک چھوٹی اور بے حد گرم تھی۔
البتہ، بگ بینگ کے فوراً بعد کائنات بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں الیکٹرون، پروٹون اور نیوٹرون بھی بننے لگے جو مادّے کے بنیادی ذرّات بھی ہیں۔ لیکن تب کائنات اتنی شدید گرم تھی کہ یہ ذرّات آپس میں مل کر ایٹم بنانے کے قابل نہیں تھے۔
کائنات کے پھیلنے اور ٹھنڈا ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ بگ بینگ کے تقریباً 4 لاکھ سال بعد کائنات کا درجۂ حرارت اتنا کم ہوگیا کہ پروٹون، نیوٹرون اور الیکٹرون آپس میں ملنے لگے، بہت ساری ہائیڈروجن اور تھوڑی سی ہیلیم وجود میں آئی اور زبردست توانائی بھی خارج ہوئی۔
اس توانائی کی باقیات آج بھی ‘کائناتی خردموجی پس منظر یعنی ‘کوسمک مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ’ کے طور پر کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں۔ اس کے بعد کروڑوں سال تک ہائیڈروجن اور ہیلیم کے ایٹم، کائنات میں اِدھر اُدھر آوارہ گردی کرتے رہے۔ لیکن کائنات کے پھیلنے اور ٹھنڈا ہونے کا عمل بھی مسلسل جاری تھا۔
آخرکار، بگ بینگ کے تقریباً 10 کروڑ سال بعد، ہائیڈروجن اور ہیلیم کے ایٹموں نے بڑی تعداد میں یکجا ہونا شروع کردیا اور کائنات میں اوّلین ستارے بننے لگے۔
لیکن یہ ستارے بھی جلد ہی ختم ہوگئے، شاید اگلے چند کروڑ سال میں ان کی باقیات سے ستاروں کی اگلی نسل نے جنم لیا اور پھر ان سے مزید اگلی نسل، یعنی ستاروں کے موجودہ نسل کا جنم ہوا جس میں ہمارا سورج بھی شامل ہے جو ‘صرف’ 5 ارب سال پہلے ہی وجود میں آیا ہے۔
کائنات کے اوّلین ستاروں کی نشانیاں آج بھی اس روشنی کی شکل میں موجود ہوں گی جو انہوں نے اپنی زندگی میں خارج کی ہوگی۔ لیکن مسلسل کائناتی پھیلاؤ کی وجہ سے روشنی کی یہ لہریں آج ناصرف بہت مدھم ہوچکی ہوں گی بلکہ ان کی لمبائی میں بھی بہت اضافہ ہوچکا ہوگا اور وہ ‘انفراریڈ’ (زیریں سرخ) شعاعوں کے طور پر آج بھی دیکھی جاسکیں گی۔
کیسے تھے وہ ستارے؟
یعنی اگر ہم 13 ارب 70 کروڑ نوری سال دُور سے آنے والی انفراریڈ شعاعوں کو دیکھنے کے قابل ہوگئے، تو پھر ہم یہ بھی جان سکیں گے کہ کائنات کے وہ اوّلین ستارے کیسے تھے؟
اب تک ہم ایسے کسی بھی ستارے کا مشاہدہ نہیں کرسکے ہیں، لہٰذا ان کے بارے میں ہم نے اب تک صرف محتاط اندازے ہی لگائے ہیں، جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
- ایک اندازے کے مطابق، کائنات کے اوّلین ستارے ہمارے سورج سے تقریباً ایک ہزار گنا زیادہ بھاری بھرکم رہے ہوں گے۔
- دوسرا اندازہ یہ کہتا ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ سورج سے کچھ ہلکے ستارے بھی بڑی تعداد میں بنے ہوں گے۔
- جبکہ تیسرے اندازے سے پتا چلتا ہے کہ کائنات میں اوّلین ستاروں کی کمیت ہمارے سورج کے مقابلے میں 20 سے 120 گنا رہی ہوگی۔
اب ان میں سے کونسا اندازہ درست ہے؟ یا پھر کونسا اندازہ کس حد تک درست ہے؟ یہ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم 13 ارب 70 کروڑ نوری سال دُوری سے آنے والی انفراریڈ شعاعوں کو دیکھنے کے قابل ہوجائیں۔ اور یہی ‘جیمس ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ’ کا اصل مقصد بھی ہے۔
ویسے تو ہبل خلائی دُوربین بھی انفراریڈ شعاعوں کے ذریعے دیکھ سکتی ہے لیکن اس کی یہ صلاحیت بہت محدود ہے۔ اس کے برعکس، جیمس ویب خلائی دُوربین کو بطورِ خاص انفراریڈ مشاہدات کے لیے ہی بنایا گیا ہے تاکہ وہ انفراریڈ شعاعوں کی مدد سے کائنات کے ان دُور دراز اور قدیم مقامات کو بھی دیکھ سکے جو آج تک ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔
نئی دنیاؤں کی تلاش
سورج کے علاوہ دوسرے ستاروں کے گرد بھی سیارے گردش کر رہے ہیں۔ انہیں ‘ایگزوپلینٹس’ کہا جاتا ہے۔ اب تک ہم 5 ہزار سے زیادہ ایگزوپلینٹس دریافت کرچکے ہیں جن میں سے چند ایک ہماری زمین جیسے بھی ہیں۔
دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے، زمین جیسے سیاروں میں ہماری خصوصی دلچسپی اس لیے ہے کیونکہ ہمیں وہاں پر ‘پانی اور زندگی’ ملنے کی امید ہے۔ (کیونکہ زندگی کی سب سے پہلی ضرورت پانی ہی ہے۔)
اور کیا پتا کہ ایسے کسی سیارے پر زندگی ناصرف موجود ہو بلکہ ارتقا کی منزلیں طے کرتے ہوئے ذہین اور ہماری طرح ترقی یافتہ بھی بن چکی ہو۔ جیمس ویب خلائی دُوربین ایک طرف نئے ایگزوپلینٹس ڈھونڈنے میں ہماری مدد کرے گی تو دوسری جانب یہ دریافت شدہ ایگزوپلینٹس کو زیادہ تفصیل اور باریک بینی سے بھی جانچ سکے گی۔ یہ کھوج بھی اس کے مشن کا ایک اہم حصہ ہے۔
اس سلسلے کی پہلی کاوش کے طور پر ‘جے ڈبلیو ایس ٹی’ نے ‘واسپ 96 بی’ (WASP 96 b) کہلانے والے ایگزوپلینٹ پر آبی بخارات موجود ہونے کی بھرپور انداز سے تصدیق کی ہے۔ البتہ اس سیارے پر زندگی کی توقع رکھنا فضول ہے کیونکہ اوّل تو وہ اپنی کمیت کے اعتبار سے ہمارے ‘مشتری سیارے’ کے مقابلے میں تقریباً آدھا ہے اور دوم یہ کہ اس کا درجہ حرارت 1,000 فارن ہائیٹ کے لگ بھگ ہے۔
زندگی، جسے ہم زندگی کے طور پر جانتے ہیں، اتنے شدید گرم ماحول میں وجود پذیر نہیں ہوسکتی، ارتقائی منزلیں طے کرنا تو بہت بعد کی بات ہے۔ آنے والے مہینوں اور برسوں میں یہ ہمارے ‘کائناتی پڑوس’ کا مزید تفصیل اور باریک بینی سے جائزہ لے گی۔
جیمس ویب خلائی دُوربین کی بدولت ہمیں اس سوال کا جواب حاصل کرنے میں خاصی مدد ملے گی کہ کیا کسی اور سیارے پر واقعی میں ایسے حالات ہیں کہ وہاں بھی زمین کی طرح زندگی پروان چڑھ سکے؟ اب اس سوال کا جواب ’ہاں‘ میں ملے گا یا ’نہیں‘ میں؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
امیدیں، سوال اور ایک ناتمام سفر
جیمس ویب خلائی دُوربین سے ہمیں بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ یہ ہمیں کائنات سے متعلق کچھ ایسے اہم سوالوں کے فیصلہ کن جوابات فراہم کرے گی جو فی الحال ‘صحیح’ اور ‘غلط’ کے درمیان جھول رہے ہیں۔
یہ کائنات کے مزید سربستہ رازوں سے پردہ اٹھائے گی اور ہماری نظر کو وہاں تک لے جائے گی جہاں تک اس کی رسائی پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ یہ کئی بڑے کائناتی سوالوں کے جوابات فراہم کرے گی۔ لیکن پھر بھی، ہر سوال کا جواب اس کے پاس بھی نہیں ہوگا کیونکہ یہ کائنات بہت پُراسرار ہے، ہماری سوچ سے بھی زیادہ پُراسرار اور کائنات کی اسی، کبھی ختم نہ ہونے والی پُراسراریت نے ہمارے تجسس کا سفر مسلسل جاری رکھا ہوا ہے۔ ‘جیمس ویب خلائی دُوربین’ اسی سفر کا اگلا قدم ہے، اگلا سنگِ میل ہے، لیکن یہ اس سفر کا اختتام ہرگز نہیں۔
بلاگر کا شمار پاکستان کے سینئر ترین سائنسی صحافیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے سائنسی صحافتی سفر کا آغاز 1987ء میں کیا۔ اس دشت کی سیاحی آج تک جاری ہے۔ ان کی تازہ ترین کتاب ‘سائنس، فراڈ اور دھوکہ’ ہے جو اگست 2021ء میں شائع ہوئی ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
علیم احمد نے 1987ء میں اردو ماہنامہ ’ سائنس میگزین’سے سائنسی صحافت کا آغاز کیا اور 1991ء میں اسی جریدے کے مدیر مقرر ہوئے۔ 1993ء سے 1995ء تک ریڈیو پروگرام’سائنس کلب’سے وابستہ رہے۔ 1997ء میں’سائنس ڈائجسٹ’کے مدیر کی ذمہ داری سنبھالی اور 1998ء میں ماہنامہ ’ گلوبل سائنس’شروع کیا، جو 2016ء تک جاری رہا۔ آپ کی حالیہ تصنیف’سائنسی صحافت: ایک غیر نصابی، عملی رہنما ’ ہے جو اردو زبان میں سائنسی صحافت کے موضوع پر پہلی کتاب بھی ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔