سری لنکا: مظاہرین نے صدارتی محل، وزیر اعظم دفتر سمیت سرکاری عمارات خالی کردیں
معاشی بحران کے شکار سری لنکا میں حکومت مخالف مظاہرین نے کہا ہے کہ وہ سرکاری عمارات سے اپنا قبضہ ختم کر رہے ہیں جیسا کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ سنگین معاشی بحران کے پیش نظر ان کی کوشش ملکی صدر اور وزیر اعظم کو اقتدار سے باہر لانے کے لیے تھی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی' اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے سیکڑوں مظاہرین نے سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجاپکسے کے محل پر قبضہ کرکے انہیں بدھ کو مالدیپ فرار ہونے پر مجبور کیا، جبکہ مظاہرین کا بہت بڑا ہجوم وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے کے دفتر بھی جمع ہوگیا۔
گوٹابایا راجاپکسے نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بدھ کے روز اپنے عہدے سے مستعفی ہوں گے، مگر تاحال اس طرح کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھیں: سری لنکن صدر مالدیپ فرار، وزیراعظم نے ملک میں ایمرجنسی اور کرفیو نافذ کردیا
صدر نے اپنی غیر موجودگی میں وزیر اعظم کا نام قائم مقام صدر کے طور پر دیا تھا، دوسری جانب وزیر اعظم نے یہ مطالبہ کیا کہ مظاہرین سرکاری عمارات کو خالی کریں اور انہوں نے سیکیورٹی فورسز کو ہدایات جاری کیں کہ امن و امان کی بحالی کے لیے جو بھی ضروری اقدامات کیے جاسکتے ہیں وہ کریں۔
مظاہرین کی رہنمائی کرنے والی ایک خاتون ترجمان نے کہا کہ ہم فی الفور پرامن طریقے سے صدارتی محل، صدارتی سیکریٹریٹ اور وزیر اعظم کا دفتر خالی کر رہے ہیں، مگر ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
دوسری جانب حکومت مخالف مہم کی حمایت کرنے والے ایک اعلیٰ بدھ راہب نے بھی 200 سال سے زیادہ پرانے صدارتی محل کو حکام کے حوالے کرنے اور اس کے قیمتی آرٹ اور نوادرات کو محفوظ رکھنے کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
بدھ مذہب کے راہب اومالپے سوبیتھا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ عمارت ایک قومی اثاثہ ہے اور اس کی حفاظت کرنی چاہیے اور اس مقام کا ایک مناسب آڈٹ ہونا چاہیے، اس کے بعد یہ جائیداد ریاست کو واپس کرنی چاہیے۔
صدر گوٹابایا راجاپکسے کے فرار ہونے اور ان کے سیکورٹی گارڈز کے پیچھے ہٹنے کے بعد عوام کے لیے کھولے جانے کے بعد سے اب تک لاکھوں افراد اس صدارتی محل کے احاطے کا دورہ کر چکے ہیں۔
کولمبو میں ہزاروں لوگوں کی طرف سے دفتر پر قبضہ کرنے کے بعد ایک ٹیلی ویژن خطاب میں وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے نے کہا کہ جو لوگ میرے دفتر میں گئے ہیں وہ مجھے قائم مقام صدر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے روکنا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سری لنکا میں مشتعل مظاہرین کا صدر کی رہائش گاہ پر دھاوا، صدر کا استعفے کا فیصلہ
انہوں نے کہا کہ ہم فاشسٹوں کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ قبضہ کریں اور یہی وجہ ہے کہ میں نے پورے ملک میں ایمرجنسی اور کرفیو نافذ کیا ہے۔
تاہم جمعرات کی صبح کرفیو ہٹادیا گیا تھا لیکن پولیس نے بتایا کہ قومی پارلیمنٹ کے باہر مظاہرین کے ساتھ رات بھر کی جھڑپوں میں ایک سپاہی اور ایک کانسٹیبل زخمی ہوگئے ہیں۔
دوسرے مقامات کے برعکس جہاں مظاہرین کو شاندار کامیابی ملی وہاں انہوں نے قانون ساز اسمبلی کو چھوڑ دیا۔
کولمبو کے مرکزی ہسپتال کے مطابق بدھ کے روز لگ بھگ 85 افراد کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، جس میں ایک شخص وزیر اعظم کے دفتر میں آنسو گیس پھینکنے کے بعد دم گھٹنے سے ہلاک ہوگیا تھا۔
صدر کا مذاق اڑایا گیا
صدر گوٹابایا راجاپکسے جمعرات کو مالدیپ میں ہی رہے اور مبینہ طور پر وہ اپنی اہلیہ آؤما اور دو محافظوں کو سنگاپور لے جانے کے لیے ایک نجی جیٹ کا انتظار کر رہے تھے۔
مقامی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ بدھ کی صبح مالدیپ پہنچنے پر صدر نے مخالفانہ استقبال کے بعد دیگر مسافروں کے ساتھ کمرشل فلائٹ میں سفر کرنے سے انکار کردیا۔
مزید پڑھیں: سری لنکا کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے ’جنگی اقتصادی کابینہ‘ تشکیل
جب ملکی صدر ویلانا بین الاقوامی ہوائی اڈے سے باہر نکل رہے تھے تو ان کا مذاق اڑایا گیا اور ان کی توہین کی گئی اور پھر ایک مظاہرین کے گروہ نے دوپہر کو دارالحکومت میں مظاہرہ کیا اور مالدیپ کے حکام پر زور دیا کہ وہ صدر کو محفوظ راستے سے گزرنے کی اجازت نہ دیں۔
مالدیپ کے میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ صدر نے والڈورف آسٹوریا سپر لگژری ریزورٹ میں رات گزاری۔
میڈیا نے اپنے ہم وطنوں کی معاشی حالت زار کے ساتھ صدر کی شاندار رہائش کا موازنہ کیا اور بتایا کہ ملک میں پانچ میں سے چار افراد سنگین معاشی بحران کی وجہ سے کھانا چھوڑ رہے ہیں۔
کولمبو میں سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ راجاپکسے کا جمعرات کو مالدیپ چھوڑنے کا زیادہ امکان ہے اور ان کے ہوائی جہاز میں پہنچنے کے بعد ان کے استعفے کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: معاشی بحران کا شکار سری لنکا کا ’گولڈن ویزا‘ فروخت کرنے کا اعلان
ذرائع نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ استعفے کا خط تیار کر لیا گیا ہے اور جیسے ہی صدر کی طرف سے گرین سگنل دیا جائے گا تو اسمبلی کا اسپیکر ان کا استعفیٰ جاری کرے گا۔
سفارتی ذرائع نے بتایا کہ گوٹابایا راجاپکسے کی امریکا کا ویزا حاصل کرنے کی کوششوں کو ٹھکرا دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے 2019 میں صدر کے انتخاب میں حصہ لینے سے قبل اپنی امریکی شہریت ترک کردی تھی۔