ساڑھے 9 برس کی ماہواری اور مردانہ پیڈز!
52 برس میں سے اگر 12 منفی کریں تو جواب آئے گا 40۔
40 برس میں دیکھیے کتنے ماہ ہوتے ہیں؟ 40 ضرب 12 = 480 مہینے۔
ہر مہینے کا ایک ہفتہ، مطلب 480 ہفتے۔
480 ہفتوں کو برسوں میں تبدیل کردیجیے تو تقریباً ساڑھے 9 برس یا ساڑھے 3 ہزار دن!
پریشان نہ ہوئیے، مسئلہ فیثا غورث پڑھانے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں۔ ہم تو سیدھا سیدھا حساب کر رہے ہیں کہ ایک عورت زندگی کے کتنے ہفتے یا برس یا دن خون میں لت پت ہوکر گزارتی ہے۔
ساڑھے 9 برس ماہواری کی تکلیف سے گزرتے ہوئے وہ زندگی یوں بسر کرتی ہے کہ کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں آتا۔
عورت تو اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر برداشت کرتی ہی ہے لیکن اس کے اردگرد رہنے والے اس کی تکلیف سے ناصرف انجان رہتے ہیں بلکہ سمجھنا بھی نہیں چاہتے۔ ان کے نزدیک اسے ان مراحل سے گزرنا ہی ہے۔
درست کہ یہ مشیت الہٰی ہے، جسم کی بناوٹ ہے، زندگی کی نمو کا تقاضا ہے، لیکن کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ عورت کی تکلیف اور درد کو محسوس کیا جائے؟ اس کے ان دنوں کو سہل بنایا جائے؟ ہارمونز کے زیرِ اثر جس جذباتی بحران اور تلاطم کا شکار وہ بنتی ہے، اس کو سہارا دیا جائے۔
مزید پڑھیے: پھٹی ہوئی آنول، اندھیرا اور راز!
یہ سب کچھ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اس وقت کو خود پر گزارا نہ جائے۔ فیض صاحب کو اگر دل کا دورہ نہ ہوا ہوتا، دورے کے درد کی شدت محسوس نہ کی ہوتی تو وہ یہ کیسے کہتے؟
درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے
ہر رگ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بن مو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسن مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانۂ تن میں گویا
سارے دکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
درد سے یاد آیا کہ کچھ لوگوں نے تحقیق کرتے ہوئے یہ جاننا چاہا کہ ماہواری کے درد کا تجربہ ایک مشین کے ذریعے اگر لڑکوں پر کیا جائے تو کیا ہوگا؟ رپورٹ کے مطابق مشین کے ذریعے پیدا کیے جانے والے ان درد کے جھٹکوں کو زیادہ تر لڑکے برداشت نہ کرسکے۔ لوٹ پوٹ ہوکر یہی کہتے رہے، یہ درد بھلا کوئی کیسے سہہ سکتا ہے؟ وہیں موجود لڑکیوں کو جب اس تجربے سے گزارا گیا تو ہر کسی کا کہنا تھا، اصل درد کے سامنے تو یہ کچھ بھی نہیں۔
اب ایسی تحقیق پڑھ کر اگر غیب سے کچھ مضامین آنے لگیں تو بتائیے ہم کیا کریں؟ تخیل کچھ ایسے منظر دکھانے لگے جو ماورائے عقل ہوں تو سر دھننے میں کیا حرج ہے؟
عورت کی مشکلات اور تکالیف محسوس کرنے کا نسخہ ہمیں نوئیل نے سجھایا۔ بی بی نوئیل سے بہت برسوں پہلے ملاقات ہوئی جب انہیں دیکھتے ہوئے ہماری آنکھیں حیرت سے پھٹی جاتی تھیں کہ کیا کرشماتی بی بی ہے بھئی؟
ہم ایک میڈیکل کانفرنس میں شرکت کرنے بیلفاسٹ میں موجود تھے جب نوئیل سے ایک کمپنی کے اسٹال پر ہماری ملاقات ہوئی۔
کراہتی، چیختی، مدد کے لیے پکارتی، منٹ منٹ پر اپنی تکلیف کا اظہار کرتی، درد زہ میں مبتلا نوئیل۔ ایسی حالت میں ایک عورت اور ہجوم عاشقاں… مطلب …ہجوم ڈاکٹرز، کیوں بھلا؟
نوئیل ایک ایسی عورت جو سانس لیتی تھی، جس کا جسم نرم و گرم اور پیٹ میں بچہ تھا، درد کا اظہار کرتی تھی، جس کی نبض اور بلڈ پریشر ریکارڈ ہوتا تھا مگر پھر بھی وہ زندہ نہیں تھی۔ نوئیل ایک ڈمی، جو میڈیکل کے طالب علموں کو زچگی کا عمل سمجھانے کے لیے بنائی گئی۔ کیا عورت تھی بھئی! ہمارا مطلب ہے، ڈمی!
ڈمی اور سیمولیشن سائنس پڑھانے کا ایک جدید طریقہ ہے جو بہت سے شعبوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ سرِفہرست ہوابازی ہے جس میں پائلٹ سیمولیٹر پر گھنٹوں جہاز اڑانے کی پریکٹس کرتا ہے۔ سیمولیٹرز امیدوار کو حقیقی دنیا جیسی کیفیات سے گزارتے ہیں۔ یعنی زمین پر بیٹھا ہوا اپنے آپ کو اسپیس شٹل میں محسوس کرسکتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر بھی سیمولیٹرز کے ذریعے زچگی کا عمل سیکھ سکتے ہیں۔
پنجابی میں ضرب المثل ہے، راہ پے جانیے یا واا پے جانیے۔ یعنی جس راہ پر آپ چلے نہ ہوں یا جس صورتحال سے واسطہ نہ پڑا ہو، وہ کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا۔
زچگی اور ماہواری کی مشکلات کا شور چاہے جتنا بھی مچایا جائے، مرد حضرات اس سے وابستہ تکلیف کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ سو کیسا رہے اگر ہم سیمولیٹرز کی مدد لیں تو؟
مزید پڑھیے: منشی پریم چند کی بدھیا اور اکیسویں صدی کی عورت!
ہمارا خیال یہ ہے کہ 12 کلو وزنی کشن پیٹ پر استعمال کیا جاسکتا ہے کہ ایک حمل کا اوسطاً وزن 12 کلو ہوتا ہے۔ 12 کلو میں بچے کا وزن، بچے کے گرد پانی، آنول اور نال کا وزن بھی شامل ہے۔ اس سے زیادہ بھی ممکن ہے لیکن ہم اوسط وزن ہی کی بات کریں گے۔
اس کشن کو شوہر حضرات کے پیٹ پر اگر باندھا جائے، تو شرط لگا لیجیے کہ انوکھے لاڈلے 9 ماہ چھوڑیے، 3 ماہ بھی برداشت نہیں کر پائیں گے سو ترس کھاتے ہوئے مدت کچھ گھٹا دیتے ہیں۔ چلیے صرف ایک ماہ کے لیے سہی یعنی 24 گھنٹے، دن رات۔
کرنا یہ ہوگا کہ اس کشن کو کسی وقت بھی جسم سے علیحدہ نہیں کرنا۔ کشن کے ساتھ وہ اٹھیں بیٹھیں، گھر کا کام کاج کریں، شاپنگ کریں، دوسرے بچوں کو سنبھالیں، بزرگوں کا خیال رکھیں، کھانا بنائیں، نہائیں سوئیں اور ہاں شوہر، میرا مطلب ہے بیوی کی خدمت بھی ویسے کریں جیسے ان کی بیوی کرتی ہے۔
گوکہ یہ اصل حمل جتنا تکلیف دہ نہیں ہوگا جس میں بچہ پیٹ میں اچھلتا کودتا اور چھلانگیں لگاتا ہے، کھانے پینے میں دقّت ہوتی ہے لیکن چلیے کچھ تھوڑا سا اندازہ ہی سہی۔
اسی طرح ماہواری کے گیلے پیڈز مرد حضرات کو پہننے کے لیے دیے جائیں ایک ہفتے کے لیے۔ سخت گرمی کا موسم ہو تو کیا کہنے۔ 7 دن مسلسل گیلے پیڈز پہن کر زندگی ویسی گزاری جائے جیسی خواتین گزارتی ہیں، روز مرہ کے کام، چلنا پھرنا، نوکری، گرمی سردی سب کچھ ویسے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
توبہ توبہ، پیڈز اور مرد؟ کیسی باتیں کرتی ہو؟ انڈے بیچو جوتا لو۔ معاف کیجیے گا، کیسی باتیں کرتی ہو سے پہلی جماعت میں یاد کی گئی نظم ہمیں یاد آگئی۔ اللہ غریق رحمت کرے صوفی تبسم کو، کیا نظمیں لکھیں بچوں کے لیے۔ 5 چوہے اور ٹوٹ بٹوٹ تو بھولتی نہیں۔ دیکھیے بُرا نہ مانیے گا اگر ہم موضوع سے کچھ بھٹک جائیں تو۔ کیا کریں ایسی بہت سی باتیں ہمیں باتوں باتوں میں یاد آجاتی ہیں۔
مزید پڑھیے: باکرہ بیوی چاہیے!
تو ہم کہہ رہے تھے کہ مرد حضرات کو پیڈز کے نام سے گھبرانے اور بدکنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ مارکیٹ میں ان کے لیے ایک اسپیشل قسم کے پیڈز پہلے سے دستیاب ہیں جن کا مقصد ماہواری نہیں بلکہ بڑھتی عمر کے ساتھ خطا ہونے والے پیشاب کا انتظام کرنا ہے۔
ہماری تجویز کے مطابق پہنے جانے والے گیلے پیڈ شدید گرمی اور برسات میں کیا رنگ دکھائیں گے، یہ ہم تو جانتے ہیں، وہ نہیں سو بتائے دیتے ہیں کہ بعد میں گلہ نہ کریں۔
رانوں کے بیچ رگڑ کھاتے گیلے پیڈز زخم بنائیں گے، بُری طرح چبھیں گے، چپچپاہٹ کے ساتھ کھجانے کو جی چاہے گا۔ کھجانا شاید مشکل نہ ہو کہ ان لوگوں نے پہلے سے ہی کافی پریکٹس کر رکھی ہے۔ یہ تو بے چاری عورت ہے جس کا اپنا جسم اس کے لیے ہی نوگو ایریا ہے۔
یاد رہے کہ یہ صرف پیڈز کی تکلیف ہوگی، جسم سے خارج ہونے والے خون اور لوتھڑوں سے ہونے والی اذیت کو محسوس کرانے والا سیمولیٹر ابھی ہماری عقل ایجاد کرنے سے قاصر ہے۔
ہم امید رکھتے ہیں کہ عورت کی برسہا برس کی تکلیف محسوس کرنے کے لیے آپ اس تجربے میں شامل ہونا پسند کریں گے۔ ایک ایڈونچر ہی سہی۔
تبصرے (11) بند ہیں