مارگلہ ہلز کیس: فوج اپنے دائرہ اختیار سے باہر تجارتی سرگرمیاں نہیں کر سکتی، عدالتی فیصلہ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تعمیرات غیر قانونی قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک وفاقی حکومت کی طرف سے واضح اجازت نہ دی جائے فوج کو فلاحی مقاصد کے لیے اپنی حدود سے باہر تجارتی سرگرمیوں کا اختیار نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تعمیرات غیر قانونی قرار دینے کے تفصیلی فیصلے میں نیوی گالف کورس کی تعمیر غیر قانونی قرار دیتے ہوئے وزارت دفاع کو انکوائری کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تعطیلات پر روانگی سے قبل فیصلہ تحریر کر کے دستخط کیا تھا جو آج جاری کیا گیا، 108 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں اسلام آباد انوائرنمنٹل کمیشن کی رپورٹ کو بھی حصہ بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں نیوی، فضائیہ کی تجاوزات کے خلاف کارروائی کا حکم
عدالت نے سیکریٹری دفاع کو فرانزک آڈٹ کروا کے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگانے کا بھی حکم دیا اور نیشنل پارک کی 8 ہزار 68 ایکڑ اراضی پر پاک فوج کے ڈائریکٹوریٹ کا ملکیتی دعویٰ بھی مسترد کردیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں فوج کے فارمز ڈائریکٹوریٹ کا مونال ریسٹورنٹ کے ساتھ لیز معاہدہ بھی غیر قانونی قرار دے دیا۔
عدات نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ریاست اور حکومتی عہدیداران کا فرض ہے کہ وہ مارگلہ ہلز کا تحفظ کرے اور یہ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ مارگلہ ہلز کے محفوظ نوٹیفائیڈ ایریا کی بے حرمتی میں ریاستی ادارے بھی ملوث ہیں۔
عدالت نے کہا ہے کہ پاک بحریہ اور پاک فوج نے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر نافذ شدہ قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ قانون کی حکمرانی کو کمزور کرنے اور اشرافیہ کی گرفت کا ایک مثالی کیس تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ مارگلہ ہلز کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے اقدامات کرے تاکہ اسے مزید تباہی سے بچایا جا سکے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پاک فوج فلاحی مقاصد کے لیے اپنی حدود سے باہر تجارتی سرگرمیاں کرنے کی مجاز یا بااختیار نہیں ہے جب تک کہ وفاقی حکومت کی طرف سے واضح طور پر اجازت نہ دی جائے۔
یہ بھی پڑھیں:مارگلہ پہاڑیوں پر درختوں کی کٹائی کیس: سی ڈی اے کو قوانین بنانے کا حکم
جنوری میں، عدالت نے دارالحکومت کے حکام کو حکم دیا تھا کہ وہ مونال ریسٹورنٹ کو سیل کر دیں اور مارگلہ گرینز گالف کلب کا کنٹرول اپنے قبضے میں لے لیں جو کہ تجاوزات والی زمین پر بنائے گئے ہیں بعد ازاں سپریم کورٹ نے حکم معطل کردیا تھا۔
آج جاری ہونے والے کیس کے 108 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نشاندہی کی کہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952، ایئر فورس ایکٹ 1953 اور پاکستان نیوی آرڈیننس 1961 کو مسلح افواج کی متعلقہ شاخوں کو ان کا نظم و ظبط ریگولیٹ کرنے کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پاک فوج کو براہ راست یا بالواسطہ طور پر اپنی ساخت سے باہر کسی بھی نوعیت کے کاروباری منصوبوں میں ملوث ہونے اور نہ ہی ریاستی زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرنے کا کوئی اختیار ہے اور نہ ہی دائرہ اختیار ہے۔
مزید پڑھیں:مارگلہ پہاڑ کے ذریعے اسلام آباد پر حملے کا خطرہ
مارگلہ ہلز کے حوالے سے فیصلے میں کہا گیا کہ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے پاس ان سے متعلق معاملات میں مداخلت کا اختیار یا دائرہ اختیار نہیں ہے اور اس طرح تجارتی سرگرمیاں جیسے عمارتوں اور فوڈ آؤٹ لیٹس کی تعمیر متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ افسوس کے ساتھ مارگلہ پہاڑیوں کے مطلع شدہ علاقے میں زیادہ تر غیر قانونی تجاوزات ریاستی اداروں جیسے کہ پاکستان نیوی، پاکستان ایئر فورس وغیرہ نے کی ہیں۔
نیوی گالف کورس کیس
خیال رہے کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 7 جنوری کو نیوی سیلنگ کلب کو تین ہفتوں میں گرانے کا حکم دیا تھا جبکہ عدالت نے پاکستان نیول فارمز کے لیے جاری کیے گئے این او سی کو بھی غیر قانونی قرار دیا تھا۔
45 صفحات پر مشتمل فیصلے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سی ڈی اے کو نیول فارم قبضے میں لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ نیوی نے راول جھیل کے کنارے پر واقع زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہے جو کہ نیشنل پارک قرار دیا گیا علاقہ ہے۔
عدالت نے نیول فارمز کی اراضی کو سی ڈی اے کی تحویل میں دینے کا فیصلہ سنایا تھا جبکہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 11 جنوری کو نیوی گالف کلب کو غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔
عدالت نے ملٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا 8 ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ بھی غیرقانونی قرار دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ 8 ہزار ایکڑ زمین مارگلہ نیشنل پارک کا حصہ سمجھی جائے۔
مونال ریسٹورنٹ کیس
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 11 جنوری کو مونال کو اسی دن سیل کرنے اور سی ڈی اے کو نیوی گالف کلب کا قبضہ لینے کا حکم دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں غیرقانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف کیسز پر سماعت کے دوران یہ حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ نیشنل پارک ایریا محفوظ شدہ علاقہ ہے، اس میں کوئی سرگرمی نہیں ہو سکتی، نیشنل پارک ایریا میں کوئی گھاس بھی نہیں کاٹ سکتا۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے استفسار کیا تھا کہ مونال کی 8 ہزار ایکڑ زمین کا دعویٰ کون کر رہا ہے؟ اس عدالت کو نیشنل پارک کا تحفظ کرنا ہے، وہ 8 ہزار ایکڑ زمین اب نیشنل پارک ایریا کا حصہ ہے، جسے اب 1979 کے قانون کے تحت مینج کیا جائے گا۔
عدالت عالیہ نے حکم دیا تھا کہ مونال کی لیز ختم ہو چکی ہے تو اسے سیل کریں، ساتھ ہی تحفظ ماحولیات کے ادارے کو تعمیرات سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگا کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا مونال ریسٹورنٹ کی توسیع کا عمل روکنے کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی نشان دہی جلد مکمل کرنے اور ملیٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا 8 ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ بھی غیرقانونی قرار دیتے ہوئے حکم دیاتھا کہ 8 ہزار ایکڑ زمین مارگلہ نیشنل پارک کا حصہ سمجھی جائے۔
بعد ازاں مونال رسیٹورنٹ کے وکیل مخدوم علی خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی۔
کیس کی سماعت کے لیے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔