اس سلسلے کی مزید اقساط یہاں پڑھیے
ہم تاریخ کی گتھیوں کو کتنا بھی سلجھانے کی کوشش کریں وہ سلجھتی کم ہیں اور الجھ کچھ زیادہ جاتی ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ہم بس ان دھاگوں کو سلجھانے میں لگے رہتے ہیں۔ ہم اپنی کوشش کے راستے کو اگر تھوڑا تبدیل کریں تو ممکن ہے ان گتھیوں کو سلجھانے میں کچھ آسانیاں پیدا ہوجائیں۔
سائنس نے جو قوموں کی طبیعت اور ان کے رویوں کو سمجھنے کے لیے تحقیقی کام کیا ہے ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ تب ہی ہم قوموں اور ان کے رویوں اور عمل کو اچھے طریقے سے جان سکتے ہیں۔ جب تک ہم ان کی اصلی رہائش، وہاں کے معروضی حالات اور ان کے نقل مکانی کے راستوں اور نقل مکانی کے اسباب کو نہیں جانیں گے تب تک ہم قوموں کی طبیعت کی گتھی کو آسانی سے نہیں سلجھا سکتے۔ ہم اس حوالے سے آنے والے دنوں میں مغلوں کی نقل مکانی اور طبیعتوں پر ضرور بات کریں گے کیونکہ کہاں رہا فرغانہ اور کہاں رہا دہلی اور آگرہ۔
اورنگزیب
شاہجہان کا تیسرا بیٹا اورنگزیب اپنے بھائیوں سے طبیعت میں الگ تھا۔ وہ خاموش طبیعت، سنجیدہ، رازدار اور اپنے کام خفیہ طور پر چپکے چپکے نکالنے کا عادی تھا۔ وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتا رہتا تھا۔
اس کی کوشش ہوتی تھی کہ ہر بات کی تہہ تک جائے۔ اسے یہ بڑی خواہش تھی کہ دنیا اسے عقلمند، ہوشیار اور انصاف پرور خیال کرے۔ وہ فیاض بھی درمیانے درجہ کا تھا۔ دکن میں ہوتے ہوئے وہ اپنی بہن روشن آرا بیگم کے وسیلے سے تخت کے حصول کی برابر کوششیں کرتا رہا اور یہ کوششیں یا اطلاعات کا سلسلہ ایسے خفیہ طور اور ایسی عقلمندی سے ہوتا تھا کہ کسی کو بھنک تک نہیں لگتی تھی۔
اسے یہ بھی خوف لگا رہتا تھا کہ اس کو دکن سے بُلا نہ لیا جائے۔ وہ ہر حوالے سے کوشش کرتا کہ شاہجہان کے دل میں گھر کرسکے مگر یہ کبھی ممکن نہ ہوسکا کیونکہ بیگم صاحب اور دارا کے بعد جگہ بچتی ہی کہاں تھی؟
اورنگزیب چاہتا تھا کہ ہندو اور عیسائی مسلمان ہوجائیں اور جو ہندو یا عیسائی مسلمان ہوجاتا تھا اس کو نوکری بھی آسانی سے مل جاتی تھی۔ دربار میں اورنگزیب کے حقوق کی حفاظت روشن آرا بیگم کرتی تھی۔ روشن آرا گو بہت خوبصورت نہیں تھی تاہم بہت ہوشیار، خوش باش، مخول اور کھیل تماشے کی شائق اور بڑی ہنس مکھ تھی۔ پھر بھی اس کا درجہ بیگم صاحب کے برابر نہ تھا اور نہ ہی اس قدر اختیارات تھے اور نہ ہی بادشاہ اس پر اعتماد کرتا تھا۔ شاید یہی بنیادی سبب تھا کہ روشن آرا بیگم کو دارا اور بیگم صاحب سے سخت دشمنی تھی۔
فرانسس برنیئر کے مطابق ’اورنگزیب میں خوش اخلاقی، کشادہ روئی اور فراخ مزاجی کی صفات نہیں تھیں جو دارا میں تھیں، مگر معتمد اور وفادار لوگوں کی اس میں بڑی پہچان تھی۔ اس کے دل کے اندر جو بات ہوتی وہ اپنے دل کے اندر رکھتا۔ ریاکاری اور اصل کیفیت کو دبا کر مصنوعی طبیعت بنانے میں وہ بڑا ماہر تھا۔ باہر وہ بادشاہی اور سلطنت سے بیزاری کی باتیں کرتا مگر اندر اندر ان کے حاصلات کے لیے جُٹا رہتا۔ وہ فریب کی چال اس عقلمندی سے چلتا کہ دربار میں سوائے اس کے بھائی دارا شکوہ کے ہر ایک نے اس کے اس رویہ کے سمجھنے میں دھوکا کھایا'۔
رام پرساد ترپاٹھی لکھتے ہیں کہ ’اورنگزیب اپنے نظریات میں متعصب اور راسخ العقیدہ تھا، یہ باتیں اس کے کردار کی کمزوری بھی تھیں اور مضبوطی بھی۔ وہ ایک لائق فوجی لیڈر تھا، اس کو قدرت نے تحمل، عزم مصمم اور پختہ ارادے کے علاوہ انسانی کمزوری کی پرکھ اور سیاسی چالاکی ودیعت کی تھی۔ اس کی بہادری اور حوصلہ مندی میں احتیاط اور ضبط نفس کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ اس کی سنجیدگی اور پرہیزگاری کے سبب لوگوں کے دلوں میں رعب پیدا ہوجاتا اور اس کی گہری حکمتِ عملی اور سخت سیاست کی وجہ سے لوگ خوفزدہ ہوجاتے۔ وہ لوگوں کے دلوں میں رعب اور خوف تو پیدا کرسکتا تھا لیکن ان کے دلوں میں محبت کا جذبہ نہ ابھار سکا مگر وہ یہ خوب جانتا تھا کہ لوگوں سے کام کیسے لیا جاسکتا ہے‘۔
مولوی ذکا اللہ نے بھی کچھ اس طرح کا اظہار کیا ہے اورنگزیب کی جوڑ توڑ کے متعلق۔
مراد بخش اور گوہر آرا
اب بس مختصر سا ذکر دونوں چھوٹے بہن بھائیوں کا، یعنی مراد بخش اور گوہر آرا بیگم کا۔ مراد بخش بہت کم عقل البتہ بہادر تھا اور ہتھیار چلانے کا اسے بڑا شوق چڑھا رہتا تھا اور جنگ کے نام سے اسے خوشی ہوتی تھی۔ گجرات کا حاکم تھا لیکن انتہائی جذباتی تھا۔ برنیئر کے مطابق ’یہ شکار کا بھی شوقین تھا۔ وہ اکثر شیخی بگھارا کرتا کہ اسے بھید اور رازداریوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے، وہ سازشوں سے نفرت کرتا تھا۔ اس کو اپنی تلوار اور قوتِ بازو پر بھروسہ تھا‘۔
ترپاٹھی کے تجزیے کے مطابق ’خود غرض، جھگڑالو اور ضدی ہونے کے سبب وہ قطعاً اس لائق نہیں تھا کہ حکومت کا بوجھ اس کے کاندھوں پر ڈالا جائے۔ اس میں نہ تو دارا اور شجاع کا سا اخلاق اور وسیع النظری تھی اور نہ ہی اورنگزیب جیسی دیانتداری اور معتدل مزاجی پائی جاتی تھی، وہ بچوں کی طرح ہر ایک پر بھروسہ کر لیتا اور ہر ایک سے جھگڑ لیتا۔ گوہر آرا بیگم محلات میں اس کے لیے جاسوسی کرتی تھیں‘۔
مولوی ذکا اللہ کی تحقیق بھی منوچی، برنیئر اور ترپاٹھی سے کچھ الگ نہیں ہے۔
آپ اگر سنجیدگی سے ان 7 بہن بھائیوں کے تعارفی خاکوں کا مطالعہ کریں تو آپ کو 2 باتیں ضرور سمجھ میں آجائیں گی۔ ایک تو یہ کہ شاہجہان دوسرے مغل بادشاہوں کی طرح بچوں کے حوالہ سے کچھ زیادہ ہی بدقسمت تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا، کیونکہ یہ سارے بہن بھائی ایک ماں کی اولاد تھے۔
شاہجہان نے اس سے پہلے جو ایک، 2 شادیاں کی تھیں ان میں شاہجہان کی پہلی بیوی جو مظفر حسین مرزا کی دختر تھی جس کو قندھاری محل میں رہنے کی وجہ سے قندھاری بیگم کے نام سے یاد رکھا گیا ہے، اس کے بطن سے اگست 1611ء میں ایک لڑکی ہوئی جس پر جہانگیر نے ’پریز بانو بیگم‘ نام رکھا۔ اس کی وفات کا برس 1675ء ہے۔ جبکہ شاہجہان کی وفات 1666ء ہے، مطلب کے یہ اپنے والد کے گزر جانے کے بعد بھی 9 یا 10دس برس زندہ رہیں۔ وہ رہتی اس بادشاہی خاندان کے ساتھ ہی تھی مگر ان کا کوئی عمل دخل ہمیں شامل تواریخ کے صفحات میں بولتا ہوا نظر نہیں آتا۔
ایک اور شہزادی ’سلطان جہاں‘ جو جون 1619ء میں، شاہنواز خان کی دختر کے بدن سے پیدا ہوئی تھی بادشاہ نے اسے خانخاناں کی بیٹی ’جاناں بیگم‘ کے حوالے کردیا تھا کہ بچی کی ولادت مبارک گھڑی میں نہیں ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ، 7 بچوں میں سے 2 یا 3 بچوں کو زیادہ قریب رکھتے تھے، ان کی بات بھی زیادہ مانتے تھے، اور شفقت کی وہ بارش جو دارا اور جہاں آرا بیگم پر برستی تھی وہ کبھی روشن آرا بیگم، اورنگزیب یا شاہ شجاع پر نہیں برسی۔
اس تفریق سے جو غصے اور احساس کمتری کے بیج ان شہزادوں اور شہزادیوں کے دلوں میں غیر دانستہ طور پر بوئے گئے وقت کے ساتھ وہ پھوٹ پڑے اور دھیرے دھیرے نفرتوں کے گھنے کیکر کے درخت بن گئے اور نفرت کے ان درختوں کو زیادہ طاقتور اور ہرا بھرا رکھنے کے لیے نفرتوں کی کھاد دینے والی بہت ساری زبانیں اور منفی سوچ کے دماغ تھے۔ ویسے بھی تخت اور تاج کا غرور اور سحر دماغوں سے سوچ، سمجھ اور اپنائیت کی آبشاروں کو خشک کردیتا ہے۔ کیونکہ آپ جو سوچیں اور جو کہیں وہ ہوجائے، یہ اتنا زبردست، شاندار اور طاقتور خیال ہے کہ اس طاقت کے گھوڑے کو لگام کی گرفت میں بہت ہی کم لوگ رکھ پاتے ہیں۔ اب ایسی صورتحال میں جب وقت کی بساط پر سب کے سب مہرے بادشاہ ہوں تو اس جنگ کا منظر کیا ہوگا؟
میں اب آپ کو پھر 16 ستمبر 1657ء اتوار کے دن شاہجہان آباد لے چلتا ہوں جہاں شہنشاہ زیرِ علاج ہے۔ بادشاہ کے بیمار ہونے کی خبر کی دھول دہلی کی گلیوں میں ابھی ہلکے سے بہتی ہے مگر اسے بگولا بننے میں دیر نہیں لگتی کہ خوشی کی خبر سے، دُکھ کی خبر کی رفتار چو گنی تیز ہوتی ہے کیونکہ اس خبر کے وجود میں ڈر بھرا ہوتا ہے اور انسان کو یہ ڈر دوسرے تک پہنچانے میں لاشعوری طور پر ایک سُکون ملتا ہے۔
منوچی ہمیں دہلی کے ان شب و روز کا آنکھوں دیکھا حال بتاتا ہے کہ ’اس بیماری نے دہلی ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں شور برپا کردیا کیونکہ بادشاہ کی بیماری کی وجہ سے محل کے سارے دروازے بند کروا دیے گئے اور مخصوص حکیموں اور دارا کے سوا کوئی اور اندر نہیں جاسکتا تھا۔ ان حالات سے یہ نتیجہ نکال کر کہ اب شاہجہان کی زندگی کے بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں سب سے پہلی غلطی دارا نے کی، کیونکہ آگے حالات سے ہمیں اندازہ لگ جاتا ہے کہ اگر دارا جلدی کرنے کی یہ بیوقوفی نہ کرتا اور ذہن کو پُرسکون رکھتا تو ہندوستان کا آنے والا شہنشاہ یقیناً دارا ہوتا۔ مگر اس نے یہ غلطی کردی۔
'ایسے اہم لمحوں میں غلطی کمان میں سے نکلے ہوئے اس تیر کی طرح ہوتی ہے جسے آپ چاہو تب بھی روک نہیں سکتے۔ دارا نے ایک بھاری لشکر اکٹھا کرنا شروع کیا۔ لاہور، آگرہ اور دہلی میں جو اس مملکت کے بڑے شہر ہیں وہاں حکم بھیجے گئے کہ سپاہی بھرتی کیے جائیں۔ ایسے حالات میں لوگوں نے اپنے گھروں کو چوری، ڈاکہ زنی اور سینہ زوری سے بچانے کے لیے ہتھیار سنبھال لیے۔ 3 دن تک شہر میں یہی حالت رہی۔ چاروں طرف دکانیں بند تھیں اور کہیں بھی سامان خور و نوش میسر نہیں آتا تھا۔ شہزادوں کے وکلا نے جلدی جلدی اپنے اپنے شہزادے کو بادشاہ کی خبر لکھ بھیجی جس پر انہوں نے لشکر اکٹھا کرنا شروع کردیا‘۔
پیر 24 ستمبر کو جب کچھ افاقہ ہوا تو بادشاہ خوابگاہ کے جھروکے میں بیٹھا، سب نوکر کورنش بجا لائے، اس تاریخ کو دارا شکوہ کے منصب میں اضافہ ہوا اور ایک کروڑ دام انعام دیا۔ ساتھ میں بادشاہ نے امرائے نامدار کو جمع کیا اور دارا شکوہ کی بیعت کرانے سے پہلے ان کو نصیحتیں کیں اور وصیت کے طور پر فرمایا کہ وہ ہر حالت میں دارا شکوہ کا ساتھ دیں۔
آگرہ روانگی سے پہلے خلیل اللہ خان کو دہلی کی صوبیداری اور لال قلعے کی نگہبانی پر مقرر کیا، ان مقرریوں کے لیے نام تو تاریخ کے صفحات میں شاہجہان کا آیا ہے مگر یہ سب دارا نے کی تھیں اور ساتھ میں لاہور کا انتظام بہادر خان کے بجائے عزت خان کو سونپا اور صوبہ ملتان کا انتظام اپنے نزدیک کے نوکر شیخ موسوی گیلانی کو سونپنے کے احکامات جاری کیے۔ بادشاہ جیسے ہی دہلی سے اکبرآباد روانہ ہوا، لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے۔ بقول صالح کمبوہ کے ’دارا کی کوتاہ بینی سے جو نالائق اشخاص بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوگئے انہوں نے حالات کو اور بگاڑ دیا اور ملک کا نظام درہم برہم ہوگیا‘۔
27 اکتوبر کو بادشاہ نے اپنا دیدار خلائق کو جھروکہ میں دیا اور 28 اکتوبر کو بادشاہ شاہجہان آباد سے اکبرآباد روانہ ہوا۔ 14 نومبر بدھ کے روز شاہجہان اکبرآباد سے 3 کوس پر جمنا کنارے پہنچا، منجموں نے دولت خانہ میں جانے کی تاریخ اتوار 25 نومبر (19 صفر 1068ھ) مقرر کی۔ یہاں ماءاللحم و اشربہ مُقویہ پینے سے طبیعت میں بہتری آئی۔
دسمبر 30 پیر کے دن قلعہ آگرہ میں 69 ویں سال کا جشن منعقد ہوا۔ محمد صالح کمبوہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ’ایسی انجمن آراستہ ہوئی کہ آج تک کسی تاجدار نے منعقد کی نہ اہلِ عالم نے دیکھی‘۔
1657ء میں شاہجہان کا آگرے کے قلعے میں یہ شاید آخری اور شاندار پروگرام تھا کیونکہ اس کے بعد تو سہنا اور فقط سہنا ہی نصیب میں لکھا تھا۔
کمبوہ لکھتے ہیں کہ ’حضرت کو کئی بیٹیاں اور 4 بیٹے قدرت نے عطا کیے تھے۔ آپ چاروں بھائیوں میں برادرانہ الفت دیکھنا چاہتے تھے، لیکن تقدیر کے کھیل نرالے ہیں، چنانچہ حضرت کی تمام مساعی بیکار گئی اور فتنہ پردازوں نے ایسے گل کھلائے کہ شہزادوں میں موافقت کے بجائے مخالفت پیدا ہوگئی۔ اسی اثنا میں حضرت کی طبیعت ناساز ہوگئی اور بیماری نے طول کھینچا‘۔
ایسے حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دکن، گجرات اور بنگال میں امن برقرار رکھنے کے لیے وہاں تک درست اطلاع پہنچتی رہتیں مگر دارا شکوہ نے ڈاک کی ترسیل بند کردی اور دوسرے شہزادوں کے وکیلوں کو قید کردیا۔
دارا شکوہ کی یہ تگ و دو کچھ سمجھ سے باہر نظر آتی ہے۔ ہوسکتا ہے کے ایسے حقائق ہوں جو ہم تک نہ پہنچ سکے، مگر تاریخ کے صفحات جتنا ہمیں بتا سکتے ہیں ان سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کچھ جلدی میں ہی تھا جس کی وجہ سے مصنفوں کو دارا سے متعلق یہ تحریر کرنا پڑا ہے کہ 'ملک کا نظم و نسق تباہ ہوگیا اور فتنہ و فساد کے لیے دروازے کھل گئے'۔
خلاصتہ التواریخ کے سبحان رائے بٹالوی رقم طراز ہیں کہ ’یہ صورتحال دیکھ کر سوداگروں اور مسافروں نے آمد و رفت ترک کردی۔ شہزادہ مراد بخش نے یہ خبریں سنیں تو گجرات میں خودمختاری کا جھنڈا بلند کرکے اپنے نام کا سکہ و خطبہ جاری کیا اور ’مروج الدین مراد بخش‘ کا لقب اختیار کرکے تخت نشین ہوگیا۔ اس نے سورت بندرگاہ پر مقرر محمد شریف پُسر اسلام خان کو جو جہاں آرا کی طرف سے حاکم مقرر تھا اس کو قید میں ڈال دیا اور اسے عذاب دے دے کر، سرکاری اموال اور بیگم صاحب کے خزانے پر قبضہ کرلیا۔ دیوان میر علی تقی کو اس نے محض اس لیے قتل کردیا تھا کہ اس نے بغاوت کرنے سے روکا تھا۔ مراد بخش نے گجرات میں جس قدر بادشاہی مال و اسباب تھا بلکہ رعیت سے جو کچھ چھین سکا وہ چھین کر سمیٹ لیا‘۔
بنگال میں شاہ شجاع نے بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں کیا۔ اس نے ’ناصرالدین تیمور سوم‘ کا لقب اختیار کرکے بادشاہت کا اعلان کردیا اور ساتھ میں اپنے نام کا سکہ بھی جاری کیا اور اپنے نام کا خطبہ بھی پڑھوایا اور پٹنہ پر لشکر کشی کرکے بنارس تک آ پہنچا۔ دارا شکوہ نے دونوں بھائیوں کی سرکشی کا حال شاہجہان کو سنایا اور شاہجہان نے جئے سنگھ کچھواہا، دلیر خان روہیلہ اور دیگر امرا سمیت فوج، توپ خانہ اور سامان جنگ دے کر، 10 دسمبر پیر کے دن1657ء میں دارا شکوہ کے بڑے بیٹے سلیمان شکوہ کی سرکردگی میں شجاع کے مقابلے پر تعینات کیا اور 14 فروری کو حملہ کرکے شجاع کو میدان جنگ سے بھگادیا گیا اور سارا خزانہ، ساز و سامان اور ہاتھی گھوڑے سلیمان شکوہ کے ہاتھ لگے۔
شجاع پہلے منگیر پہنچا اور پھر بنگال چلا گیا۔ آگے منگیر اور پٹنہ سلیمان شکوہ کے قبضے میں آئے جبکہ جسونت سنگھ کو شاہجہان نے ’مہاراجہ‘ کا لقب دیا تھا اسے فوجوں کے ساتھ مالوا کی طرف روانہ کیا تھا کہ وہاں کے قلعوں پر قبضہ قائم رکھ کر دریائے نربدا کے گھاٹ روکے اور دکن سے کسی لشکر کو آنے نہ دے، قاسم خان جو نامی گرامی امیر اور شاہجہان کے توپ خانے کا داروغہ تھا اسے شہزادے مراد کو روکنے پر مامور کیا اور حکم دیا کہ مالوے تک مہاراجہ کے ساتھ جاؤ، وہاں پہنچ کر اگر ضروری سمجھو تو مراد سے جنگ کرکے اسے گجرات سے نکال دو دوسری حالت میں مہاراجہ کے ہم رکاب رہو۔ اس طرح جسونت سنگھ اور قاسم خان مالوے کے دارالحکومت اجین میں خیمہ زن ہوئے۔
دارا شکوہ نے شاہجہان کو اس بات پر راضی کرلیا کہ جو فوجیں دکن میں اورنگزیب کے ماتحت سلاطین دکن سے لڑ رہی ہیں وہ واپس بلا لینا ضروری ہیں اور شاہجہان نے ایسا کرنے کا حکم بھی جاری کردیا۔ دارا نے یہ سوچا ہوگا کہ تمام فوجیں آگرے میں جمع ہوجائیں تو پوری قوت سے اورنگزیب پر حملہ کرکے اورنگزیب کی کہانی کا اختتام کردے گا، مگر یہ تمنا بس تمنا ہی تھی اور میدان جنگ کے آسمان پر تمناؤں کی فاختائیں کہاں اڑتی ہیں۔ وہاں تو بازوں کی حکومت ہوتی ہے، جو اپنی شاطر چال اور تیز رفتاری سے جھپٹ پڑتے ہیں کہ شکار ہونے والے کو پتا تک نہیں چلتا کہ ہوا کیا۔ اگر آپ دیکھیں تو اس سارے منظرنامے میں صرف ایک اورنگزیب کو چھوڑ کر آپ کو سارے مہرے متحرک ملیں گے۔ وہ بڑی خاموشی سے حالات کا جائزہ لے رہا تھا اور اپنی طبیعت کے مطابق اندرونی طور پر باپ شاہجہان اور بڑے بھائی دارا شکوہ کے لیے ایسا جال بن رہا تھا، جس میں پھنسنے کے بعد جسم سے سانس ہی نکل سکتی ہے وجود نہیں۔
اورنگزیب، مراد اور شجاع کا ایک دوسرے سے خط و کتابت کے ذریعہ رابطہ تھا اور ان تینوں نے مل کر دارا کو کچلنے کے لیے ایک معاہدہ کیا اور خیالوں خیالوں میں سلطنت کو آپس میں بانٹ بھی لیا۔ بغاوت تو ہوچکی تھی اب جنگ کے میدان سج رہے تھے کہ تخت و تاج کے فیصلے جنگ کے میدان ہی ہوا کرتے ہیں۔ اس لیے اورنگزیب اور مراد کی فوجیں شمال کی طرف بڑھتی رہیں۔ اپریل 1658ء میں یہ دونوں فوجیں دیپالپور کے مقام پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئیں۔
اورنگزیب کی حرکات اتنی رازدارانہ تھیں کہ جسونت سنگھ جیسے تیز نگاہ رکھنے والے انسان کو بھی ان کی بھنک تک نہ پڑی۔ اس کے ذہن میں یہ تھا کہ فقط مراد سے ہی لڑنا ہے مگر جب اطلاع ملی کہ اورنگزیب بھی ساتھ ہے اور دونوں بھائی اب ایک ہوگئے ہیں تو یہ ایک بڑا نفسیاتی دباؤ تھا جو شاہجہان کے لشکر پر پڑا اور وہ ایک ہی وقت میں گجرات اور دکن کے لشکر کے ساتھ لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ مگر میدانِ جنگ میں اترنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا اور جو فیصلہ کرنا تھا وہ ایک دوسرے کا خون بہائے بغیر ممکن نہیں تھا۔
اپریل کے وسط میں دھرمٹ کے مقام پر جو اجین سے 14 میل شمال مغرب میں ہے وہاں جنگ ہوئی۔ ابتدا میں اورنگزیب فائدے میں رہا، یہ حالت دیکھ کر ہر اول کے دوسرے دستے نے مکند سنگھ کی سرداری میں اورنگزیب کے توپخانے پر بھاری حملہ کیا. اس حملہ میں مکند کے آدمیوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تاہم وہ توپ خانے کے سردار کو قتل کرنے اور اس کے آدمیوں کو مار بھگانے میں کامیاب ہوگئے اور گھمسان کی لڑائی میں مکند کے آدمی آگے بڑھ کر اورنگزیب کے قلب پر حملہ آوار ہوئے۔ اگر قاسم خان بھی اس جوش و خروش میں ساتھ دیتا تو شاید جنگ کا نقشہ کچھ اور ہوتا مگر قاسم خان نے غداری کی اور اسی دوران مراد نے بائیں بازو میں رخنہ کردیا اور اسی وقت، سودیا راجپوت، رائے سنگھ اور دینی سنگھ بندیلہ اور ان کے سپاہیوں کے علاوہ کئی راجپوت سرداروں نے جسونت سنگھ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ جسونت سنگھ میدانِ جنگ میں سخت زخمی ہوا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اسے میدانِ جنگ سے بھاگنا پڑا۔ اورنگزیب کی پوشیدہ چالیں کامیاب ہوئیں اور اس طرح پہلی شاہی دفاعی صف ٹوٹ گئی۔ یہ کوئی اچھا شگون نہیں تھا، نہ شہاجہان کے لیے اور نہ ہی دارا کے لیے۔
اس صورتحال سے شاہی دربار میں افراتفری پھیل گئی، شاہجہان کا خیال تھا کہ دونوں یعنی اورنگزیب اور مراد کو آگرے آنے دیا جائے اور پھر ان کو سمجھا بجھا کر معاملات کو خوش اصلوبی سے حل کیا جائے۔ مگر دارا، آگرے میں ایک فاتح فوج کے داخلے کو ایک خطرہ سمجھتا تھا اور وہ اپنی جگہ پر درست بھی تھا۔ لہٰذا بہتر یہی تھا کہ ان دونوں کی افواج کو دریائے چمبل کو پار کرنے سے باز رکھا جائے اور اس دوران پُرامن طریقے سے معاملات کو طے کرنے کے لیے بات چیت جاری رہے۔ یہ خیال جہاں آرا بیگم کا تھا۔
یہ 1658ء مئی جون کے گرم ترین شب و روز تھے جب تیموری نسل کی آپس میں چھینا جھپٹی دکن اور آگرے کے بیچ میں کسی جنگل میں لگی ہوئی آگ کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ شاہجہان چونکہ باپ ہے اور بیمار ہے اس لیے سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی اپنے خون میں صلح کروانا چاہتا ہے جبکہ اس کو پتا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔
جہان آرا بیگم محض اس لیے پریشان ہے کہ اسے یہ یقین ہو چلا ہے کہ اورنگزیب کی شجاع اور مراد سے صلح گرگ آشتی ہے۔ یہی سبب تھا جو جہان آرا، اورنگزیب کی طبیعت کو انتہائی گہرائی سے جانتی تھی اور اس پر سفید سانپ کا نام رکھا تھا۔ ایسی حالت میں وہ یہ بھی جانتی تھی کہ دارا شکوہ کسی بھی حالت میں ان سے جیت نہیں سکے گا مگر پھر بھی اس نے ایک کوشش ضرور کی کہ ان دونوں بھائیوں میں صلح ہوجائے۔ جہان آرا بیگم آگرہ محل میں اورنگزیب سے ملنے کے لیے ذہنی طور پر اپنے آپ کو تیار کر رہی ہے کہ وہ دارا اور شاہجہان کو بے بسی کی حالت میں دیکھنا نہیں چاہتی۔ ہم بس جلد لوٹ آتے ہیں، ان دونوں بہن بھائیوں کی باتیں سننے کے لیے جن کی ایک دوسرے سے کبھی نہیں بنی۔
حوالہ جات:
- ’خلاصتہ التواریخ‘۔ سجان رائے بٹالوی۔ 1966ء۔ مرکزی اردو بورڈ، گلبرگ لاہور
- ’تاریخ ہندوستان‘۔ مولوی محمد ذکا اللہ۔ 2010ء۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
- ’برنیئر کا سفرنامہ ہند‘۔ ڈاکٹر فرانسس برنیئر۔ 2002ء۔ تخلیقات، لاہور
- ’ہندوستان عہد مُغلیہ میں‘۔ نیکولاؤ منوچی۔ ملک راج شرما۔ لاہور
- ’مغلیہ سلطنت کا عروج و زوال‘۔ رام پرساد ترپاٹھی۔ 2018ء۔ کتاب میلہ، لاہور
- ’شاہجہان نامہ‘۔ ملا محمد صالح کمبوہ۔ 2013ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
تبصرے (7) بند ہیں