شنزو آبے کا قتل جدید جاپانی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ
طویل عرصے تک جاپان کے وزیر اعظم رہنے والے شنزو آبے کے قتل کو جدید جاپان کی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
شنزو آبے کو 8 جولائی کی صبح ساڑھے گیارہ بجے دارالحکومت ٹوکیو سے 300 کلو میٹر کی مسافت پر واقع چھوٹے سے شہر نارا میں ہونے والے ایک چھوٹے جلسے میں ایک ملزم نے فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا، جنہیں تشویش ناک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جاں بر نہ ہو سکے۔
جاپان کے سرکاری نشریاتی ادارے ’نپون ہوسو کیوکائی‘ (این ایچ کے) مطابق پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شنزو آبے پر فائرنگ کرنے والے شخص کو جائے واردات سے ہی گرفتار کرلیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شنزو آبے پر نارا شہر کے رہائشی 41 سالہ یاماگامی ٹیٹسویا (Yamagami Tetsuya) نے فائرنگ کی، جسے پولیس نے موقع پر ہی گرفتار کرلیا۔
پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے مطابق ملزم نے سابق وزیر اعظم کو قتل کرنے کے لیے ہاتھ سے گھر میں ہی ہتھیار تیار کیا اور وہ شنزو آبے کی کارکردگی سے ناخوش تھے اور انہوں نے ابتدائی طور واضح اعتراف کیا کہ وہ سابق وزیر اعظم کو قتل کرنا چاہتے تھے۔
شنزو آبے نارا شہر میں اپنی جماعت کے ایک رکن کی حمایت کے لیے تقریر کرنے پہنچے تھے، کیوں کہ 10 جولائی کو وہاں ایوان بالا کے انتخابات ہونے تھے۔
شنزو آبے کے قتل پر نہ صرف جاپانی بلکہ دنیا بھر کے لوگ صدمے میں ہیں اور زیادہ تر افراد اس بات پر حیران ہیں کہ جاپان جیسے ملک میں بھی سیاستدانوں پر قاتلانہ حملے ہوتے ہیں۔
اگرچہ شنزو آبے سے قبل بھی متعدد سیاستدانوں پر حملے کیے جا چکے ہیں اور چند نامور سیاستدان اور حکومتی عہدیدار قاتلانہ حملوں میں ہلاک بھی ہو چکے ہیں، تاہم ان کے قتل کو جدید تاریخ کا المناک ترین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
’شنزو آبے سے قبل آخری بار 15 سال پہلے 2007 میں ایک قاتلانہ حملے میں ناگاساکی شہر کے میئر کو قتل کیا گیا تھا۔
’این ایچ اے‘ کی ایک اور رپورٹ کے مطابق 2007 میں جرائم پیشہ گروہ کے ایک کارندے نے ناگاساکی کے میئر کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
اس سے پہلے 1995 میں ٹوکیو میں نیشنل پولیس ایجنسی کے کمشنر کو ان کی رہائش گاہ کے سامنے نشانہ بنایا گیا تھا، جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔
اس سے قبل 1994 میں ٹوکیو میں ہی سابق جاپانی وزیر اعظم موریہیرو ہوسیکارا کو پر حملہ کیا گیا تھا، جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے تھے مگر وہ موت کو شکست دینے میں کامیاب رہے تھے۔
اسی طرح 1992 میں بھی ٹوکیو میں ہی ایک سیاسی جماعت کے سینیئر رہنما پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا، جس میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔
یوں 1990 میں ناگاساکی شہر میں اس کے میئر پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا مگر وہ بھی اس میں محفوظ رہے تھے۔
جاپان کی تاریخ میں گزشتہ چار دہائیوں میں اب تک سب سے ہائی پروفائل قتل شنزو آبے کا ہے، جسے 8 جولائی کو جلسے میں نشانہ بنایا گیا۔
اسی طرح جدید جاپانی تاریخ یعنی 1950 کے بعد اب تک بھی شنزو آبے کے قتل کے واقعے کو سب سے المناک واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
شنزو آبے سے قبل 1960 میں ٹوکیو میں ہی اس وقت کے مقبول سیاستدان انیجیرو اسانوما (Inejiro Asanuma) کو تلوار سے حملہ کرکے ہلاک کیا گیا تھا۔
ٹیکنالوجی سے لیس جاپان جیسے ملک کو دہشت گردی اور انتہاپسندی سے پاک ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، تاہم گزشتہ کچھ عرصے میں وہاں قتل اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق اس وقت تک جاپان بھر میں فائرنگ سے سالانہ ایک درجن کے قریب اموات رپورٹ ہوتی ہیں، تاہم وہاں گزشتہ کچھ سالوں میں مختلف شکلوں میں تشدد کو بڑھتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔
جاپان میں منظم تشدد اور دہشت گردی کا تازہ واقعہ 2019 میں اس وقت پیش آیا تھا جب کہ ایک شخص نے اینمیشن اسٹوڈیو کو آگ لگادی تھی، جس میں 36 افراد جھلس کر جاں بحق ہوئے تھے۔
اسی طرح 2008 میں بھی ایک ٹرک ڈرائیور کی جانب سے لوگوں کے اوپر گاڑی چلانے سے 7 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔