اسکولوں کی چھٹیاں: بچوں کو کیا اور کب سکھائیں؟
والدین پریشان ہونے کے بجائے ‘دن شروع، سرگرمیاں شروع’ والا سادہ فارمولا اپنالیں، یوں ناصرف وقت اچھا گزرے گا بلکہ بچوں کی سرگرمیوں کے ذریعے دیکھ کر سمجھنے اور سمجھ کر خود کرنا اور مہارت حاصل کرنا ایک مشغلہ بن جائے گا۔
چلیے آغاز کرتے ہیں۔
صبح پہلا کام
والدین صبح پہلے خود بیدار ہوں اور بچوں کو بھی جگادیں، عام طور پر صبح جاگتے ہی بچے طے شدہ معمول کے مطابق اپنی ضروریات سے فارغ ہوکر منہ ہاتھ دھوتے ہیں اور ناشتے کی تیاری کرتے ہیں لیکن اب یہ معمول تبدیل کریں۔ یعنی بچے جاگ جائیں تو انہیں کمرے میں بلائیں اور (ترغیب دلانے کے انداز میں) بتائیں کہ بستر پھیلا ہوا ہے اس وجہ سے کمرہ بُرا لگ رہا ہے، پھر بچے کو بستر تہہ کرکے مناسب جگہ رکھ کر دکھائیں۔ بہتر ہوگا کہ بستر تہہ کرنے اور کمرا سمیٹنے کے عمل میں بچے کو اپنے ساتھ شامل کرلیں اور بتاتے جائیں کہ چادر کو کس طرح تہہ کرنا ہے اور باقی چیزیں کس طرح ترتیب سے رکھنی ہیں۔
یہ مرحلہ مکمل ہونے کے بعد بچے سے کہیں کہ چلیں اب آپ اپنا بستر اور کمرا جو پھیلا ہوا اسے سمیٹیں۔ بچہ کام شروع کرے تو اس کا ہاتھ بٹاتے ہوئے بتاتے جائیں کہ یہ اس طرح کرتے ہیں اور وہ اس طرح کرتے ہیں۔ اگر بچہ غلطی کررہا ہے تو بے صبری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اسے غلطی کرنے دیں اور چڑچڑے ہوئے بغیر کام کا وہی مرحلہ دہراتے ہوئے اسے دکھائیں۔
دوسرا کام: ناشتے کی میز پر بچوں کے سیکھنے کے کام
صبح کے وقت عام طور پر گھروں میں ایک جنگ کا سا ‘وقت کم، مقابلہ سخت’ والا ماحول ہوتا ہے۔ نپے تلے وقت میں جاگنے سے لے کر دفتر کی تیاری کرنے اور جلدی جلدی ناشتہ کرنا ہوتا ہے، اس وجہ سے ناشتے کی میز یا دسترخوان پر بچے کے لیے ایک سیکھنے والی سرگرمی کا عمدہ موقع ضائع ہوجاتا ہے، لیکن اگر والدین دفتر جانے کے وقت سے پہلے ہی بچے کے ہمراہ میز پر پہنچ جائیں تو بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ جیسے ناشتے کی تیاری کے دوران ہی والد خود باورچی خانے سے کھانے پینے کے کچھ برتن لاکر میز پر رکھیں (اس موقع پر وضاحت بھی کرتے جائیں کہ پہلے ہم پانی میز پر رکھیں گے پھر فلاں برتن رکھیں اور آخر میں فلاں چیز میز پر رکھیں گے)۔
والد اس ساری مصروفیت کے دوران اس بات پر بھی دھیان رکھیں کہ بچہ آپ کو کام کرتا ہوا دیکھ رہا ہے یا کہیں اور متوجہ ہے، پھر خود بیٹھ جائیں اور بچے سے باقی برتن اور دیگر چیزیں (احتیاط کے ساتھ) لاکر میز پر رکھنے کا کہیں۔ بچے کو کام کے دوران ہلکے پھلکے انداز میں شاباشی بھی دیتے رہیں کہ جس سے اس کا حوصلہ اور اعتماد بڑھے۔
تیسرا کام: ناشتہ مگر کیسے؟
وقت کی کمی کی وجہ سے کھانے کے سارے مہذب انداز طور طریقے ایک طرف رہ جاتے ہیں بس جلدی سے بڑے بڑے نوالے نگل لیے اوپر سے چائے حلق میں انڈیلی اور دفتر کا رخ کیا، لیکن اب ایسا غضب نہیں کریں بلکہ والدین پہلے خود اپنی پلیٹ بھرنے کے بجائے ایک دوسرے کی مرضی معلوم کرکے کھانے کی چیز دوسرے کی پلیٹ میں ڈالیں اور یہی مشق بچے کے ساتھ بھی دہرائیں۔ اس تجربے کے نتیجے میں بچہ ایثار، دوسروں کو اہمیت اور عزت کیسے دی جاتی ہے خوب اچھی طرح سیکھ لے گا۔
کھانے شروع کرنے سے پہلے قدرے اونچی آواز میں بسم اللہ پڑھ کر (عملی مثال کے انداز میں) نوالہ بنانے، نوالے کے سائز اور چبانے کے مہذبانہ طریقہ کے بارے میں بتائیں۔ ناشتہ مکمل ہونے کے بعد 'جس طرح ناشتے سے پہلے صاف برتن میز پر لاکر رکھے تھے اسی طرح استعمال شدہ برتن (پہلے خود کچھ برتن باورچی خانے میں لے جا رکھیں پھر) بچے کو بقیہ برتن لے جاکر رکھنے کا کہیں۔
سیکھنے کا اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟
یہاں ایک اہم نکتہ سمجھ لیا جائے تو بچوں کی چھٹیوں کو زبردست بنانے کے حوالے سے آسانی ہوجائے گی اور وہ نکتہ یہ ہے بچوں کو سکھانے، سمجھانے کے لیے والدین کو اپنی ’غیر ضروری خودساختہ مصروفیات’ ختم کرنا ہوں گی بصورت دیگر بچے کی مثالی تربیت خواہش ہی رہ جائے گی۔
اب آئیے اگلے مرحلے کی طرف۔
کہانی بنائے کردار و شخصیت
دن یا رات کے اوقات میں جب فرصت میسر آجائے تب بچے کی والدہ اسے کہانی سنائیں (کہانی سنانا ایک فن ہے بہتر ہوگا کہ والدین اس فن کو تھوڑا بہت سیکھ لیں)۔
کہانی بچے کے ذہن میں مثالی کردار والی شخصیت کا ایک خاکہ بناتی ہے اور اس جیسا بننے کی خواہش پیدا کرتی ہے اس لیے اگر اس سرگرمی کو ایک لازمی معمول کے طور پر اختیار کیا جائے تو اس کے نتائج بہت عمدہ نظر آئیں گے۔
روزمرہ معمولات کا پہیہ کیسے گھومتا ہے؟
بچہ سن کر جتنا سیکھتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ دیکھ اور اس سے بھی زیادہ اپنے ہاتھوں سے کام انجام دے کر سیکھتا ہے۔ اس حوالے سے ’مشاہدہ’ اس سارے مراحل کی چابی ہے۔
والد کو جب موقع میسر ہو تب وہ بچے کو بتائیں کہ گھر میں جو چیزیں آتی ہیں وہ کن کن مراحل سے گزر کر ہاتھوں تک پہنچتی ہیں۔ مثال کے طور پر محلے کی دکان پر فروخت ہونے والی سبزیاں اور پھل گھر تک کیسے پہنچتے ہیں، یہ سمجھانے کے لیے بچے کو پہلے محلے کی دکان کا مشاہدہ کروائیں، پھر سبزی منڈی لے جائیں اور دکھائیں کہ کس طرح کھیتوں یا گوداموں سے سبزیاں یا پھل سبزی منڈی پہنچتے ہیں۔
بچہ جو جو دیکھتا جائے اس کے بارے میں سوال کریں کہ آیا جو کچھ وہ دیکھ رہا یے اسے سمجھ بھی آرہا یا نہیں؟ بچے کو بھی سوال کرکے جاننے کی ترغیب دلائیں اور تحمل سے ہر ہر نکتے کی وضاحت کرتے جائیں۔ والدین اسی طرح اپنی سہولت سے مزید کاموں کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
اچھا کام ہر جگہ، ہر وقت
صبح سے شام تک ایسے درجنوں مواقع آتے ہیں جب بچے کو کسی کی مدد کرنا، چھوٹوں اور بڑوں سے بات کرنے کے مہذب انداز سمیت دیگر آداب (بطور اچھے کام) سکھائے جاسکتے ہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں