عمران ریاض خان کی گرفتاری کے خلاف صحافیوں نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟
معروف اینکر عمران ریاض خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے معاملے پر صحافی برادری تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ اکثریت کا ماننا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ صحافیوں کی تعریف اور حدود و قیود کا تعین کرلیا جائے۔
عمران ریاض خان کو منگل کے روز اٹک پولیس نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ اور دیگر 6 دفعات کے تحت گرفتار کیا تھا۔ ان پر سوشل میڈیا میں پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔ اطلاعات کے مطابق ملک کے مختلف تھانوں میں ان پر 20 کے قریب ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔
گرفتاری سے قبل اپنے پیغام میں عمران خان نے احتجاج کی اپیل کی تھی مگر ملک کے کسی بڑے شہر میں کسی صحافتی تنظیم کا کوئی بڑا احتجاج نہیں دیکھا گیا۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد نے گرفتاری کی مذمت تو کی لیکن احتجاج کی کال نہیں دی۔ اسی طرح کراچی اور دوسرے پریس کلبوں کی جانب سے بھی کوئی باضابطہ احتجاج سامنے نہیں آیا۔
عمران ریاض خان کی طرح پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی طرف میلان رکھنے والے چند لوگوں نے سمیع ابراہیم کی زیرِ قیادت نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر بدھ کی شام اکٹھے ہوکر چند نعرے ضرور بلند کیے۔ صحافتی تنظیمیں تو کسی بھی صحافی کی گرفتاری پر سراپا احتجاج بن جاتی ہیں لیکن عمران ریاض خان کی گرفتاری پر کوئی بڑا ردِعمل کیوں نہیں ہوا، جب یہ سوال میں نے مختلف انداز سے سینئر صحافیوں کے سامنے رکھا تو انہوں نے کچھ یوں کہا۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) سے منسلک سینئر صحافی ثقلین امام کا کہنا تھا کہ ’کسی ایک شخص پر ایک ہی متن کی کوئی 2 درجن ایف آئی آر انتظامیہ کی ملی بھگت کا نتیجہ معلوم ہوتی ہیں، تاہم اس معاملے پر بات کرنے سے پہلے ہمیں کچھ بنیادی باتیں معلوم ہونی چاہئیں۔ مثلاً آزادی صحافت خبر دینے کی آزادی ہے تو آزادی اظہارِ رائے تبصرہ کرنے کی آزادی کا نام ہے جو ملک کے قانون کے مطابق ہر شہری کو حاصل ہے لیکن تبصرے یا تجزیے کو نفرت آمیز نہیں ہونا چاہیے‘۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’تبصرے اور خبر میں فرق ہے۔ تبصرے کو خبر کے طور پر پیش کرنا پیشہ ورانہ بے ایمانی ہے‘۔ صحافی کی تعریف کرتے ہوئے لاہور پریس کلب کے سابق صدر نے کہا کہ ’صحافی وہ ہے جو خبر نکالے اور مفادِ عامہ میں اسے شائع کرے لیکن اگر کوئی خبر نکال کر کسی ایجنسی کو دے یا کسی ادارے یا شخص کو دے اور شائع نہ کرے تو وہ مخبر تو ہوسکتا ہے صحافی نہیں‘۔
اپنی گرفتاری سے کچھ دن قبل عمران ریاض خان نے اداروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ آپ لڑائی ادھوری چھوڑ کر گئے ہیں لیکن میں نہیں جاؤں گا اور آخر تک لڑوں گا۔
سینئر صحافی منیب احمد کے مطابق ’عمران ریاض خان نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز رپورٹنگ سے کیا اور وہ 2016ء تک بطور رپورٹر ایکسپریس نیوز سے وابستہ تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کے پاس ایک عام سی موٹر سائیکل تھی۔ ایک دن کسی اینکر کی عدم دستیابی کے باعث انہیں میزبانی کا موقع ملا تو انہوں نے خود کو اینکر کے طور پر منوایا۔ عمران ریاض کو اصل شہرت اس وقت ملی جب پی ٹی آئی برسرِ اقتدار آئی۔ انہوں نے اپنے یوٹیوب چینل سے تحریک انصاف کے حق میں ایسا مواد اپلوڈ کرنا شروع کردیا کہ سوشل میڈیا پر ان کی پیروی کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی جبکہ آمدنی کروڑوں میں۔ پنجاب پولیس نے حال ہی میں ان کے جاری کردہ 18 اسلحہ لائسنس منسوخ کیے ہیں۔ عمران ریاض خان کی پی ٹی آئی میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی گرفتاری پر فوری طور پر ناصرف سابق وزیرِاعظم عمران خان نے مذمت کی بلکہ عوام کو بھی احتجاج کے لیے کہا۔ دوسری طرف سابق وزرا فواد چوہدری اور اسد عمر نے تو ملک گیر احتجاجی مہم کا اعلان کردیا‘۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی دورِ حکومت میں صحافیوں کو سخت ترین حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سیکڑوں صحافیوں کو بلا کسی وجہ کے نوکریوں سے فارغ کردیا گیا۔ صحافیوں کو بھری محفل میں تھپڑوں اور گھونسوں سے مارنے کی روایت بھی پی ٹی آئی دور میں ہی شروع ہوئی۔
کراچی پریس کلب کے سیکرٹری محمد رضوان بھٹی کا ماننا ہے کہ صحافی کو غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اپنی تقریروں میں عمران ریاض خان نے کئی جگہ تسلیم کیا کہ انہوں نے اداروں کی لائن ٹو کی یعنی پیڈ کونٹینٹ چلایا تو کیا آپ صحافی رہے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صحافی کو اپنی خبر اور تجزیے میں غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ صحافی کی تنقید تو سمجھ میں آتی ہے لیکن کسی صحافی کا کسی مخصوص سیاسی جماعت کا ترجمان بن جانا ایک سوالیہ نشان ہے‘۔ رضوان بھٹی کے مطابق کراچی پریس کلب نے عمران ریاض کی گرفتاری کے خلاف تاحال کسی احتجاج کی کال نہیں دی ہے۔
منیجنگ ایڈیٹر انڈیپینڈنٹ اردو ہارون رشید کی رائے میں ’ہم بدقسمتی سے ایک وِشیئس سرکل میں پھنس گئے ہیں۔ ہر کسی کو حق ہونا چاہیے کہ وہ جو کہنا چاہے کہے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران ریاض خان کو محض ان کی رائے پر سزا دی جارہی ہے‘۔ تاہم سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ ’صحافی کا کام یہ ہے کہ وہ جو دیکھے اسے بے کم و کاست رپورٹ کردے نہ کہ کسی کی طرف داری کرتا پھرے‘۔ ان کی رائے میں ’جب کوئی صحافی کسی کی طرف داری کرتا ہے چاہے وہ کتنی ہی جائز کیوں نہ ہو تو وہ صحافی نہیں رہتا بلکہ ایکٹوسٹ (سرگرم کارکن) بن جاتا ہے‘۔
عمران ریاض کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والی پہلے سے ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں انہوں نے دھمکی دی تھی کہ ’اگر 5 گھنٹے کے اندر انہیں رہا نہیں کیا گیا تو ان کے چینل پر ایک ایسی ویڈیو اپلوڈ ہوگی جس سے تہلکہ مچ جائے گا۔ جنہوں نے میرے خلاف کارروائی کی ہے، سب کا نام لوں گا۔ ان ایجنسیوں کا بھی، ان اداروں کا بھی اور ان بندوں کا بھی جنہوں نے یہ سب کیا ہے’۔
اسلام آباد میں کئی صحافیوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کی حمایت کے پیچھے سادگی سے زیادہ نوٹوں کی گرمی تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد کچھ صحافیوں نے پی ٹی آئی موافق خبریں دینا شروع کیں تو ان کی ویورشپ بہت بڑھی۔ جب وزرا نے انہیں فالو کرنا اور پروموٹ کرنا شروع کیا تو ان کے یوٹیوب چینلوں کی یومیہ آمدنی ان کی ماہانہ تنخواہ سے بھی بڑھنے لگی۔ پھر وزیرِاعظم ہاؤس تک ایسی دسترس حاصل ہوگئی جو کئی وزیروں تک کو نہیں تھی۔ یوں کئی جوش خطابت میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن گئے۔ سب کو چونکہ یہ بات معلوم ہے اس لیے کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا۔
صحافی رہنما افضل بٹ نے عمران ریاض کی گرفتاری کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس 1950ء سے انسانی حقوق، شہری و عدلیہ کی آزادی، جمہوریت اور پریس فریڈم کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ عمران ریاض کو بھی آزادی اظہار کا وہی حق حاصل ہے جو پاکستان کا آئین ہر شہری کو دیتا ہے تاہم یہ سوال غور طلب ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے جلسے میں تقریر کرنے والے یا کسی سیاسی جماعت کا ہیش ٹیگ استعمال کرنے والے صحافی کو کس زمرے میں رکھا جائے‘۔
سینئر صحافی سمیع ابراہیم سے جب ہم نے اس حوالے سے ان کا نقطہ نظر جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے متعدد کوششوں کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔
تبصرے (3) بند ہیں