اگر ہمیں دیوار سے لگایا گیا تو قوم کے سامنے سب کچھ بول دوں گا، عمران خان

شائع July 5, 2022
سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں اس لیے چپ ہوں کہ میرے ملک کو نقصان نہ پہنچے —فوٹو: ڈان نیوز
سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں اس لیے چپ ہوں کہ میرے ملک کو نقصان نہ پہنچے —فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیر اعظم و پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہمیں دیوار سے لگایا گیا تو میں مجبور ہوکر بولوں گا اور پھر سب کچھ قوم کے سامنے رکھوں گا، میں صرف اس لیے چپ ہوں کہ میرے ملک کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو سے کئی اختلافات ہو سکتے ہیں مگر وہ ملک کو آزاد خارجہ پالیسی دینا چاہتا تھا، جس کا مقصد عوام کی بہتری ہو، پاکستان کا جو جمہوری عمل تھا وہ اب رک گیا ہے، جس سے ملک کا نقصان ہوا ہے، مارشل لا آیا اس کے بعد جمہوری نظام آیا اور اب پھر سے وہ عمل رک گیا ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کا فون ٹیپ کرنے پر سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہیے، شیریں مزاری

انہوں نے کہا کہ 'پہلے اور اب جو کچھ ہوا ہے، اس میں ایک چیز یہ ہوئی ہے کہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی پر امریکا خوش نہیں ہے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ حکم ملے اور پاکستان ان کی جنگ میں شامل ہو جائے اور پاکستان 80 ہزار جانیں ان کے لیے قربان کر دے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پہلے نواز شریف اور دیگر نے ملک سے چوری کی اور پرویز مشرف سے این آر او لیا اور پھر یہ 10 سال حکومت میں آئے اور پھر سے چوری کی، ان کو ہمارے اوپر مسلط کرنے کا مقصد این آر او ٹو لینا تھا'۔

'یہ اپنا پیسہ بچانے کیلئے اسرائیل کو بھی تسلیم کر سکتے ہیں'

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جو لوگ قوم کو یہ کہہ کر آئے تھے کہ ہم مہنگائی کم کریں گے، انہوں نے مہنگائی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور آج ساری قوم جانتی ہے کہ کبھی بھی پاکستان میں اتنے تھوڑے وقت میں اتنی مہنگائی نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ 'ہماری حکومت میں معیشت اچھی سمت میں جا رہی تھی اور تمام شعبوں میں اچھی ترقی ہو رہی تھی تو اچانک ملک میں حکومت گرانے کی سازش ہوئی جس پر قوم نے ردعمل دیا، جس کا مجھے بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس طرح قوم سڑکوں پر نکلے گی'۔

عمران خان نے کہا کہ 'موجودہ حکومت میں بیٹھے لوگوں کا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، یہ غدار ہیں جن کا نظریہ فقط پیسہ ہے جو بیرون ممالک رکھا ہوا ہے اور یہ لوگ اپنا پیسہ بچانے کے لیے اسرائیل کو بھی تسلیم کر سکتے ہیں اور ان کو موقع ملے تو کشمیریوں کی قربانیوں کو بھی نظرانداز کر کے بھارت سے دوستی کرلیں اور پیسے کے خاطر پھر کسی امریکی جنگ میں شامل ہو سکتے ہیں اور روس کا تیل بھی نہیں لیں گے کہ امریکا ناراض نہ ہو جائے'۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف کل سپریم کورٹ جانے کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ 'اس وقت جس طرح کا خوف پھیلایا جارہا ہے میں نے پاکستان میں کبھی بھی اس طرح کی فاشزم نہیں دیکھی'۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ 'پرانے دور میں معلومات روکنا یا خبر روکنا آسان تھا مگر اب دور بدل گیا ہے، سوشل میڈیا کا منہ بند نہیں کیا جاسکتا مگر یہ لوگ ملک کو انارکی کی طرف لے جا رہے ہیں'۔

'صحافیوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں'

صحافی ایاز امیر پر حملے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ان کو سب جانتے ہیں کہ ان کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا اور اس کو لفافہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ ایک نڈر اور پڑھا لکھا انسان ہے اور اس عمر میں ان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا یہ پوری قوم کے لیے شرم ناک واقعہ ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'جو ٹی وی چینل چوروں کی حمایت کرتے ہیں ان کی ریٹنگ سب کے سامنے ہے جبکہ جو حق و سچ کی بات کرتے ہیں ان کی ریٹنگ سب سے زیادہ ہے، اسی طرح صحافی عمران ریاض کو لوگ دیکھتے ہیں کیونکہ وہ حق اور سچ کی بات کرتا ہے اور یوٹیوب پر ایسے ہی لوگ ان کو فالو نہیں کرتے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'صحافی ارشد شریف کے ضمیر کی کوئی قیمت نہیں ہے، اس کا تعلق فوجی گھرانے سے ہے مگر اس پر بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے اور صابر شاکر بھی ملک چھوڑ کر چلا گیا ہے اور صحافی جمیل فاروقی کے بھی پیچھے لگے ہوئے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'معید پیرزادہ سمیت متعدد صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے اور ہماری سوشل میڈیا ٹیم کے سرگرم رکن ارسلان کے گھر میں چلے گئے اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کیا گیا'۔

مزید پڑھیں: سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب قانون میں ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

عمران خان نے کہا کہ 'میں آج اپنی عدلیہ اور عوام سے سوال کرتا ہوں کہ کیا پاکستان میں بنیادی حقوق منسوخ ہوگئے ہیں، پہلے ہی بتا دیتے کہ یہاں مارشل لا نافذ ہوگیا ہے، کون سا آئین ان چیزوں کی اجازت دیتا ہے'۔

'ہمارے لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے'

انہوں نے کہا کہ '25 مئی کو جب ہم ایک پرامن احتجاج کے لیے نکلے تو اس رات ہمارے لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور ایک چھوٹی بچی اپنی ماں کے ساتھ رو رہی تھی کہ ان کے گھر میں پولیس آئی ہے، اسی طرح ایک 11 سالہ بچے کو پولیس اس لیے پکڑ کر لے گئی کہ اس کا والد گھر میں موجود نہیں تھا، کیا یہ مقبوضہ کشمیر ہے یا یہ فلسطین ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری کوئی انتشار کی تاریخ نہیں ہے، ہم ہمیشہ قانون پر رہے ہیں، جب پورے خاندان ہمارے احتجاج میں شرکت کرتے ہیں تو کیا ہم ان کو انتشار کے لیے بلاتے ہیں، ان لوگوں پر 25 مئی کو پاکستان کی پولیس اور رینجرز نے ظلم کیا اور ان پر آنسو گیس پھینکے تو ایسی کیا قیامت آگئی تھی کہ لوگوں پر اتنا ظلم کیا گیا'۔

انہوں نے کہا کہ 'ڈرانے دھمکانے کے جو حربے استعمال کیے جا رہے ہیں یہ ان لوگوں کو ہم پر مسلط کرنے کے لیے ہو رہے ہیں، یہ لوگ ہر دور کے یزید بن کر لوگوں پر ظلم کرنے آتے ہیں، میرے اوپر 15 مقدمات درج کیے ہوئے ہیں اور ہماری پوری قیادت پر دہشت گردی کے مقدمے درج کیے گئے ہیں'۔

'اس لیے چپ ہوں کہ ملک کو نقصان نہ پہنچے'

پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ 'میں یہ سب دیکھنے کے باوجود بھی اس لیے چپ ہوں کہ صرف میرے ملک کو کوئی نقصان نہ پہنچے لیکن میں نے ایک وڈیو ریکارڈ کی ہوئی ہے اور وہ محفوظ جگہ پر رکھی ہے، اگر مجھے کچھ ہوتا ہے تو وہ بھی عوام کو پتا چلے کہ کس نے کیا کیا'۔

عمران خان نے کہا کہ 'اگر اسی طرح ہمیں دیوار سے لگایا گیا تو میں مجبور ہو کر بولوں گا اور پھر سب کچھ قوم کے سامنے رکھوں گا کہ کیا کچھ ہوا'۔

مزید پڑھیں: عمران خان نے 2 جولائی کو اسلام آباد میں احتجاج کے منصوبے کا اعلان کردیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمارے خلاف فیصلوں پر رات کو عدالتیں کھولی جاتی ہیں مگر دو مہینوں سے حمزہ شہباز کے خلاف فیصلہ کیوں نہیں ہو رہا کہ کیا یہ آئینی طور پر وزیر اعلیٰ بن سکتا تھا یا نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'کیا یہ طریقہ ہے کہ انتظامیہ سمیت الیکشن کمیشن کو ساتھ ملا لیں، کیا یہ الیکشن ہے، ملک میں جس طرح سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں جو کچھ ہوا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے کہ 15 فیصد لوگ کھڑے ہی نہیں ہوئے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'میں پوری قوم کو کہتا ہوں کہ پنجاب میں جن 20 حلقوں پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں اس میں گھروں سے نکل کر ووٹ دیں اور ان لوگوں کی دھاندلی کے باوجود ان کو شکست دینی ہے کیونکہ یہ پاکستان کی جنگ ہے کوئی سیاست نہیں ہو رہی ہے'۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024