‘نثری قصیدہ’ صحافت کی نئی صنف
ایک زمانہ تھا کہ بادشاہوں، نوابوں اور شاہی حکام کی شان میں شاعر قصیدے لکھتے اور دام و درہم وصول کرتے تھے۔
قصیدے اب بھی لکھے جاتے ہیں، لیکن خاصے فرق کے ساتھ، کبھی یہ شعری صنف تھی، اب یہ نثری تخلیق ہے، البتہ آپ اسے ‘نثری نظم’ کہہ سکتے ہیں، تب یہ بیسیوں بلکہ سیکڑوں اشعار پر مبنی ہوتے تھے، اب ایک کالم اور کبھی تو بس ایک جملے میں سمٹ آئے ہیں۔
سودا، ذوق اور غالب کے عہد میں قصائد شاعروں کی طبع آزمائی کا نتیجہ ہوتے تھے، ان دنوں یہ بعض صحافیوں کی دبا کر کمائی کا ذریعہ ہیں۔
ایسے کچھ نثری قصیدے آپ نے بھی ملاحظہ کیے ہوں گے، جیسے ایک صالح صحافی کا مشہور قصیدہ جس میں ہمیں ایک شخصیت کے معہ اہلِ خانہ اسلام آباد کلب میں آنے، انڈے کے آملیٹ کی پلیٹ خود اٹھانے، قطار میں لگ کر انتظار کی زحمت سے لدے لمحات بِتانے کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ اسلام آباد کلب تھا، سڑک کنارے کا ہوٹل نہیں، جہاں بھکاری تو کجا ہمارے جیسا کوئی لکھاری بھی نہیں جاسکتا، ورنہ اس قصیدے میں آملیٹ کی پلیٹ میز پر آتے ہی ایک بھوکے فقیر کی صدا لگانے، شخصیت کا اسے ساتھ بٹھا کر سارا آملیٹ کھلانے اور خود معہ اہل و عیال خالی پیٹ چلے جانے کا بھی تذکرہ ہوتا۔
ساتھ یہ بھی باور کرایا جاتا کہ ‘بھکاری کو آملیٹ کھلا دینے کے بعد جب انہوں نے اپنا پرس نکال کر اس میں جھانکا تو آملیٹ کی قیمت کے علاوہ صرف 25 روپے رکھے تھے، اور انہوں نے وہ بھی فقیر کو تھمائے اور خالی پیٹ پر ہاتھ پھیرتے رخصت ہوگئے‘۔
مزید پڑھیے: احسن اقبال صاحب! پارو کو چھوڑ دیں گے، چائے نہ چُھڑوائیں!
انہی صحافی کے دیگر قصیدے بھی صحافتی ادب میں تادیر یاد رکھے جائیں گے۔ مثلاً ایک وزیرِاعظم کے تاجکستان پہنچتے ہی آسمان پر ابر کا چھا جانا، اور ایک خاتون کی جانب سے اس پر وزیرِاعظم کا خوش بختی کی علامت قرار پانا۔ وہ تو خیر ہوئی کہ تاجکستان کی حکومت اور عوام نے یہ دعا نہ مانگ لی،’جب آجائیں تو جم کے برس اور اتنا برس کہ وہ جانا سکیں‘۔ اگر یہ دعا قبول ہوجاتی تو خدشہ تھا کہ یہ سابق وزیرِاعظم آج برطانیہ میں ہونے کے بجائے ابھی تک تاجکستان ہی میں ہوتے اور فریاد کر رہے ہوتے ‘اب تک کیوں نہیں نکالا’۔
ایک اور بزرگ صحافی جو قصیدے لکھتے لکھتے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہجو نگاری پر اتر آئے ہیں، ایک بڑا عمدہ قصیدہ فرمایا تھا جسے ‘قصیدہ سالن شریف’ کہا جاتا ہے۔ اس قصیدے میں ایک ریٹائرڈ جنرل کے بارے میں انکشاف کیا گیا تھا کہ انہیں دولت کمانے سے کوئی دلچسپی نہیں، مزید یہ کہ ان کے گھر میں بس ایک سالن بنتا ہے اور انہوں نے جوانی میں گھر کے اخراجات بچانے کے لیے ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیا تھا۔
ان ‘مصرعوں’ سے ریٹائرڈ جنرل صاحب کی پارسائی کے علاوہ بزرگ صحافی کی اپنے ممدوح کی رسوئی تک رسائی کا بھی پتا چلتا ہے۔ بہرحال ہمیں بزرگ صحافی کی شہادت پر یقین ہے، ورنہ ہماری شہادت یقینی ہوسکتی ہے۔ اگر وہ یہ بھی فرماتے کہ ‘ان’ کے ہاں کبھی کبھی تو ایک سالن بھی نہیں پک پاتا تھا، اور میں داتا صاحب کے مزار سے لنگر لوٹ کر ان کے گھر پہنچایا کرتا تھا، تو ہم اس بیان پر بھی ایمان لے آتے۔
حال ہی میں ایک اور صحافتی قصیدہ سامنے آیا جس میں ایک سابق وزیرِاعظم کی دیانت کی مثال دیتے ہوئے ‘شاعر’ کہتا ہے کہ وہ پانی کی آدھی بوتل بھی ضائع نہیں ہونے دیتے۔ اس قصیدے سے عیاں ہوتا ہے کہ ان صاحب پر ناصرف دیانت ختم ہے، بلکہ وہ پانی کی اہمیت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ خدارا ہمارے جملے کے آپ یہ معنی مت لیجیے گا کہ دیانت ان تک آتے آتے ختم ہوگئی۔
مزید پڑھیے: پاکستان کی قومی لفظیات
ہمیں اس ‘آدھی بوتل والی روایت’ پر پوری بوتل جتنا یقین ہے۔ ہم تو ان سابق وزیرِاعظم سے حُسن ظن رکھتے ہیں کہ اگر ہیلی کاپٹر میں پیٹرول کی جگہ پانی بطور ایندھن استعمال ہورہا ہوتا تو اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں وہ چنگی یا سائیکل پر ایوانِ وزیرِاعظم سے بنی گالہ تک آنا جانا کیا کرتے، کبھی بھی ہیلی کاپٹر استعمال کرکے پانی ضائع نہ کرتے۔
ان صاحب کی شان میں اور بھی صحافیوں نے قصیدے کہے ہیں، جن میں ان کی ایمانداری، دانش مندی، خودداری اور سادگی کی صفات یوں بیان کی گئی ہیں کہ ان قصائد میں وہ سیاستدان سے زیادہ صوفی دکھائی دیتے ہیں، ہم آپ ہی نہیں وہ خود بھی یہ قصیدے پڑھ کر اسی نتیجے پر پہنچے ہیں، چنانچہ ان کی خواہش ہے کہ تمام ادارے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیں اور ان کے حلقے میں یوں داخل ہوجائیں کہ انتخابات میں تمام حلقے ان کی جھولی میں آگریں۔
ایک اور ذرا پرانا صحافتی قصیدہ ملاحظہ کیجیے: ‘اب سیاستدان نہیں رہے وہ سقراط، منصورحلاج اور مارٹن لوتھر کنگ کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں’۔
مزید پڑھیے: سیاستدانوں میں پھیلی ‘مِلو ناں’ کی وبا
یہ قصیدہ پڑھتے ہی آپ سقراط، منصور اور مارٹن کنگ لوتھر کے بارے میں اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہوں گے کہ شاید وہ بھی مشکل وقت پڑتے ہی بیمار پڑجاتے ہوں گے اور اپنے بہادری کے دعوؤں کی لاج رکھنے کے بجائے علاج کے لیے بیرون ملک کی راہ لیتے ہوں گے، آپ کی چشم تصور سقراط کے ہاتھ میں زہر کے بجائے دودھ سے بھرا پیالہ دکھا دیتی ہوگی، منصور ‘اناالحق’ کی جگہ ‘ضیاءالحق’ کا نعرہ لگاتا نظر آتا ہوگا اور مارٹن کنگ لوتھرکی مشہور تقریر ‘میرا ایک خواب ہے’ کے بارے میں آپ سوچنے لگے ہوں گے کہ یہ خود وزیراعظم بننے، بنے رہنے یا بھائی بھتیجے کو اقتدار میں دیکھنے کا خواب ہوگا۔ لیکن یقین مانیے یہ تینوں شخصیات انسانیت نواز اور بہت شریف تھیں، چنانچہ ان سے اپنی بدگمانی فی الفور ختم کردیجیے۔
ہم جامعات کے شعبہ ابلاغ کو مشورہ دیں گے کہ ان اور ان جیسے دیگر صحافتی قصائد کو الگ صحافی صنف کے طور پر نصاب کا حصہ بنایا جائے، تاکہ ابلاغیات کے طلبہ اس صنف کے اسرار و رموز جان کر صحافت میں آئیں اور نام کمائیں، اور نام میں بھی کیا رکھا ہے، بس دل بھر کے کمائیں۔
تبصرے (2) بند ہیں