مسلم لیگ (ن) آج پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کیلئے پراعتماد
پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے آج بروز جمعہ سہ پہر دوبارہ کارروائی شروع ہوگی، چیف ایگزیکٹو کے انتخاب کے لیے دوبارہ ہونے والی گنتی میں کامیابی کے لیے حکومت اور اپوزیشن پارٹیاں اپنی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے رات گئے تک متحرک اور سرگرم رہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز دوبارہ گنتی کے معاملے پر خوش نظر آتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ انہیں ایوان میں ’واضح سادہ اکثریت‘ حاصل ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) نے آج کے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، اپوزیشن اتحاد سمجھتا ہے کہ کارروائی کے دوران ایوان میں ان کی موجودگی سے اس عمل کی توثیق ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب: منحرف ارکان کے بغیر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم
لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بینچ کے پنجاب اسمبلی کے 40ویں اجلاس کو دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے نے اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے پنجاب اسمبلی کی عمارت اور ایوان اقبال میں الگ الگ بلائے گئے 41ویں اجلاس کو کالعدم کردیا ہے، ایوان اقبال میں بلائے گئے 41ویں اجلاس کے دوران حکمران اتحاد نے مالی سال 23-2022 کے لیے پنجاب کا بجٹ پیش اور منظور کیا تھا۔
آج کے اجلاس کے سلسلے میں پنجاب اسمبلی سیکریٹریٹ نے حفاظتی اقدامات کیے ہیں، ایس او پیز بنائی ہیں اور تمام ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے ہمراہ مہمانوں کو نہ لائیں اور اپنے موبائل فون اور ہینڈ بیگ سiکیورٹی کے پاس جمع کرائیں، اراکین سے کہا گیا ہے کہ وہ ایوان میں بلاروک ٹوک داخلے کے لیے اپنا قومی شناختی کارڈ اور اسمبلی کارڈ ساتھ لائیں۔
وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے مقامی ہوٹل میں مقیم مسلم لیگ (ن) کے ایم پی ایز سے طویل اور اہم ملاقات کی اور اپوزیشن سے نمٹنے اور صاف و شفاف الیکشن کرانے کی حکمت عملی طے کی۔
مسلم لیگ (ن) کے چیف وہپ کا کہنا تھا کہ حکمران اتحاد کو 177 ایم پی ایز کی حمایت حاصل ہے، ان اراکین پنجاب اسمبلی میں سے زیادہ تر ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: حمزہ شہباز کا انتخاب: ’دیکھنا ہوگا آرٹیکل 63-اے کی تشریح ان حالات میں لاگو ہوگی یا نہیں؟‘
حمزہ شہباز وزارت اعلیٰ کے عہدے پر دوبارہ منتخب ہونے کے لیے پُراعتماد ہیں کیونکہ انہیں واضح سادہ اکثریت حاصل ہے، رن آف الیکشن کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت حکمراں اتحاد 9 ووٹوں کی اکثریت کا دعویٰ کر سکتا ہے جبکہ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ابھی تک 5 مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی گئیں۔
تاہم پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) 3 وجوہات کی بنا پر وزیر اعلیٰ کے لیے اس 'ہنگامی' انتخاب میں دلچسپی نہیں لے رہیں، ان وجوہات میں سے ایک وجہ 5 مخصوص نشستوں کا اعلان نہ کیا جانا، دوسری وجہ ان پارٹیوں کے 6 ارکان ملک سے باہر ہیں جن میں حج کے لیے جانے والے بھی شامل ہیں اور تیسری وجہ صوبے کی 20 عام نشستوں پر 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں۔
ان پارٹیوں کا مؤقف ہے کہ جب پنجاب اسمبلی ہی مکمل نہیں ہے تو 24 گھنٹے کے نوٹس پر وزیر اعلیٰ کے اہم ترین انتخاب کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟
مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما مونس الہٰی نے کہا کہ دونوں اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ہم لاہور ہائی کورٹ کا حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے جارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب: پی ٹی آئی نے ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے مونس الہٰی نے بتایا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کرکے اس کے درست ہونے کا جواز نہیں دیں گے، ہم 24 گھنٹوں میں ہنگامی بنیادوں پر حمزہ شہباز کو ان کے 'جعلی' عہدے سے ہٹائے بغیر انتخابات کرانے کے لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رہے ہیں۔
پارٹی پوزیشن
اسمبلی میں موجودہ پارٹی پوزیشن سے پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ق) کو کل 168 ارکان کی حمایت حاصل ہے جن میں سے پی ٹی آئی کی 158 نشستیں اور مسلم لیگ (ق) کی 10 سیٹیں ہیں، پی ٹی آئی ای سی پی کی جانب سے 5 مخصوص نشستوں کے نوٹی فکیشن کی بھی منتظر ہے۔
پنجاب میں حکمراں اتحاد کے 177 ارکان ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) کے 165، پیپلز پارٹی کے 7، راہ حق پارٹی کا ایک اور 4 آزاد اراکین شامل ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا ہے اور اب بھی کریں گے۔
ماڈل ٹاؤن میں پارٹی کے اراکین سے گفتگو کرتے ہوئے حمزہ شہباز نے کہا کہ پنجاب میں گزشتہ 3 ماہ سے جاری آئینی بحران عدالت کے فیصلے سے ختم ہو جائے گا۔
مزید پڑھیں: عمران خان کا لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف کل سپریم کورٹ جانے کا اعلان
ان کا کہنا تھا کہ میں سیاست برائے سیاست پر یقین نہیں رکھتا، ہمارا مقصد عوامی خدمت ہے، میری زندگی اور سیاست کا مقصد لوگوں کی زندگیوں کو آسان کرنا اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنا ہے۔
اس موقع پر اپنے خطاب کے دوران مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر نے زور دے کر کہا کہ اپوزیشن نے اپنی انا کی خاطر صوبے کو آئینی بحران کی جانب دھکیل دیا ہے۔
حمزہ شہباز نے اپنے اتحاد کے 177 ارکان کے اعزاز میں اس ہوٹل میں عشائیہ بھی دیا جہاں ان میں سے زیادہ تر اراکین پنجاب اسمبلی ٹھہرے ہوئے ہیں، عشائیے گا مقصد عدالت کے حکم کے مطابق آج دوبارہ ہونے والی گنتی کے لیے یا صوبائی چیف ایگزیکٹو کے دوبارہ انتخاب کے لیے حکمت عملی طے کرنا تھا، ملاقات رات گئے تک جاری رہی۔
اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما و پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی نے عدلیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن جس پریزائیڈنگ افسر کی وجہ سے سارا کچھ ہوا پھر اس کو دوبارہ پریزائیڈنگ افسر بنا دیا گیا ہے جو کسی شکل میں قابل قبول نہیں ہے۔
لاہور میں سابق وزیر قانون راجا بشارت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پرویز الہٰی نے کہا کہ جس سے امید ہی نہیں ہے، جس نے سارا گند کروایا اور لوگوں کو زخمی کروایا اب اس افسر کو دوبارہ کرسی پر بٹھا دیا گیا ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہے۔
پرویز الہٰی نے کہا کہ یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ پولیس کو کسی پارلیمنٹ میں اندر بلایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے قانونی ٹیم سے مشاورت کرلی ہے اور کل تک کچھ فیصلے چھوڑے ہیں جن کا اعلان ہم کل کے بعد کریں گے، ان لوگوں نے ہمارے ہاتھ اور پاؤں باندھ دیے ہیں اور اب کہتے ہیں کہ الیکشن کروا کر دکھاؤ۔
مزید پڑھیں: وزارت اعلیٰ پنجاب کیلئے نمبر گیم کی رسہ کشی جاری
راجا بشارت نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج جو فیصلہ آیا ہے اس میں لاہور ہائی کورٹ نے واضح طور پر طے کردیا ہے کہ جو وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے 16 اپریل کو انتخاب ہوا تھا اس کو فیصلے میں کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔
سابق صوبائی وزیر نے کہا کہ اب اگر عدالت نے انتخاب کالعدم قرار دے دیا ہے تو اب اس شخص (حمزہ شہباز) کو عہدے پر رہنا کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ وہ تو منتخب ہے ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ 16 اپریل سے لے کر آج کی تاریخ تک اور کل دوبارہ انتخاب ہونے تک جتنے بھی اس کے احکامات تھے ان کو قانونی شکل دی گئی ہے تو عوام کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب ایک شخص کا انتخاب ہی کالعدم ہو تو وہ بطور وزیر اعلیٰ کام ہی نہیں کر سکتا تو اب اس کے فیصلوں کو ہم کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں۔