• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

انسانی پلک جتنا دنیا کا سب سے بڑا بیکٹیریا دریافت

شائع June 25, 2022
—فوٹو : مقالہ/ولارڈ ایٹ آل
—فوٹو : مقالہ/ولارڈ ایٹ آل

سائنسدانوں نے کیریبین جزیرے گواڈیلوپ کی ایک دلدل میں دنیا کا سب سے بڑا بیکٹیریا دریافت کیا ہے جس کا سائز انسانی پلکوں جتنا ہے اور دیکھنے میں سفید دھاگے کی طرح ہے۔

’تھائیومارگاریٹا میگنیفیکا‘ نامی یہ بیکٹیریا ایک سینٹی میٹر لمبا ہے اور اب تک دریافت ہونے والے بڑے بیکٹیریا کی دیگر اقسام سے 50 گنا زیادہ بڑا ہے۔

پتلے سفید دھاگوں نما بیکٹیریا سمندری دلدل میں گلتے ہوئے مینگروو کے پتوں کی سطح پر دریافت ہوا، یہ دریافت اس لیے حیران کن ہے کیونکہ سیل میٹابولزم کے ماڈلز کے مطابق بیکٹیریا اتنا بڑا نہیں ہوسکتا۔

نئے بیکٹیریا کی دریافت سے قبل سائنسدانوں نے بیکٹیریا کے سائز کی ممکنہ حد اس سے 100 گنا چھوٹی طے کی تھی۔

—فوٹو : مقالہ/ولارڈ ایٹ آل
—فوٹو : مقالہ/ولارڈ ایٹ آل

اس بیکٹیریا کو دریافت کرنے والی ٹیم میں شامل لارنس بارکلے نیشنل لیبارٹری کی ماہر جین میری وولینڈ نے اس کا دیگر بیکٹیریا سے موازنہ سمجھانے کے لیے بتایا کہ ’آپ تصور کریں کہ ایک انسان کا کسی ایسے دوسرے انسان سے سامنا ہوجائے جو ماؤنٹ ایورسٹ جتنا لمبا ہو‘۔

اس بیکٹیریا کو یونیورسٹی ڈیس اینٹیلیس میں سمندری حیاتیات کے پروفیسر اولیور گروس نے گواڈیلوپ میں اس وقت دریافت کیا جب وہ مینگروو ماحولیاتی نظام میں ’سمبیوٹک بیکٹیریا‘ کی تلاش کر رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ جب ہم نے اس بیکٹیریا کو دیکھا تو ہمیں عجیب لگا، جب ہم نے خوردبین میں اس کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک واحد سیل ہے۔

—فوٹو : مقالہ/ولارڈ ایٹ آل
—فوٹو : مقالہ/ولارڈ ایٹ آل

جین میری وولینڈ نے کہا کہ بیکٹیریا کی زیادہ تر اقسام میں ڈی این اے خلیات کے اندر آسانی سے گردش کرتا ہے مگر تھائیومارگاریٹا میگنیفیکا بظاہر اپنے ڈی این اے کو خلیات کے مختلف جھلیوں میں زیادہ منظم طریقے سے رکھتا ہے جو کسی بیکٹیریا کے لیے بہت عجیب بات ہے۔

اس بیکٹیریا میں دیگر اقسام کے بیکٹیریا کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ جینز موجود ہیں اور ہر خلیے میں جینوم کی لاکھوں نقول ہیں جو اسے غیر معمولی طور پر پیچیدہ بناتی ہیں۔

سائنس دانوں کو تاحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ بیکٹیریا اتنا بڑا کیسے بنا؟ ایک امکان یہ ہے کہ اس نے شکار سے بچنے کے لیے خود کو اس طرح ڈھال لیا ہے۔

جین میری وولینڈ نے کہا کہ اگر آپ اپنے شکاری سے سیکڑوں یا ہزاروں گنا بڑے ہوتے ہیں تو آپ اس کا شکار نہیں بن سکتے۔

تاحال یہ بیکٹیریا دیگر مقامات پر نہیں ملا ہے اور جب محققین حال ہی میں واپس گواڈیلوپ آئے تو یہ وہاں سے بھی غائب ہوچکا تھا جس کی ممکنہ وجہ اس کا موسمی جاندار ہونا ہوسکتی ہے۔

تاہم ’جنرل سائنس‘ میں شائع ہونے والے مقالے میں محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس نئے بیکٹیریا کی دریافت یہ بتاتی ہے کہ بڑے اور زیادہ پیچیدہ بیکٹیریا ہماری نظروں کےسامنے موجود ہوتے ہوئے بھی چھپے ہو سکتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024