بلوچستان کی ترقی اور سی پیک کی تکمیل کے لیے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
میں نے جلتے سلگتے بلوچستان میں 29 مئی کے بلدیاتی انتخابات کو اسی بلاگ میں امید کی ایک کرن قرار دیا تھا۔ ساتھ ہی انتہائی محتاط الفاظ میں کوئٹہ اور اسلام آباد کی سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے گوش گزار کیا تھا کہ کسی خوش فہمی میں نہ رہا جائے اور سخت سیکیورٹی کے حصار میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ سب اچھا ہے۔
عموماً بلوچستان کے بارے میں لکھتے ہوئے معتبر بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے مکالمہ ضرور کرتا ہوں کہ کتنا ہی باخبر کیوں نہ ہوں بہرحال کراچی میں بیٹھ کر ان گرم پانیوں کی لہروں سے پورے طور پر آشنا نہیں ہوں۔
پھر بلوچستان اور سی پیک کے قضیے میں ایران اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ متصل علاقے اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) سمیت 3 بڑی مزاحمتی تنظیمیں اب ایک مؤثر فریق ہیں۔ صرف محفوظ بلوچستان ہی نہیں بلکہ پاکستانی ریاست کی سلامتی کے لیے بھی انہیں انگیج کرنا یعنی مذاکرات کی میز پر لانا پڑے گا۔
اگلے ہی دن مین اسٹریم میڈیا پر یہ خبر نظر سے گزری کہ اسلام آباد میں سی پیک کے حوالے سے ہونے والی ایک انتہائی اعلی سطح کی کانفرنس میں چینی ناظم الامور نے بغیر کسی لگی لپٹی کے اپنی حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے واضح کردیا کہ سی پیک کے خلاف جعلی خبروں کے ساتھ پروپیگنڈا مہم جاری ہے۔
انہوں نے تو سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان ممالک کی نشاندہی بھی کی جو سی پیک دشمنی میں اپنی تمام حدود پھلانگ چکے ہیں۔ چینی ناظم الامور نے امریکا کی جانب سے تشکیل دیے ہوئے کواڈ اتحاد اور انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک کا حوالہ دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ سی پیک ہی نہیں چین کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔
چینی سفیر نے کواڈ اتحاد کا ذکر کیا مگر حیرت ہے کہ وہ بھارت، افغانستان اور ایران کو نظر انداز کرگئے۔ اسلام آباد کی سویلین اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک یہ ممالک اس وقت بلوچستان کی سرحد کی دونوں جانب بی ایل اے سمیت ساری مزاحمتی تنظیموں کی مکمل پشت پناہی نہ بھی کررہے ہوں تو انہیں اتنی چھوٹ ضرور دی ہوئی کہ وہ ہمارے روایتی دشمنوں سے عسکری و مالی تعاون لینے میں آزاد ہیں۔
یہاں تک پہنچا ہوں تو سی پیک کی حساسیت کے سبب پھر بھی محتاط رہنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ برسوں سے ہماری حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ یہ دعویٰ کر رہی تھیں اور اب بھی کررہی ہیں کہ گوادر سی پیک کا دروازہ ہے جس سے بلوچستان میں ترقی و خوشحالی کی لہریں نہیں دریا بہنا شروع ہوگئے ہیں۔
اکثر و بیشتر لکھتے اور بولتے اپنے استاد محترم مرحوم صحافی نثار عثمانی کا ذکر ضرور کرتا ہوں، وہ تلقین کرتے تھے کہ کسی ایسے موضوع کو مضمون نہ بناؤ اور نہ ہی قلم اٹھاؤ جب تک کہ اس مقام کے معاشرتی، سماجی پس منظر سے آگاہ نہ ہو (ادھر صورتحال یہ ہے کہ پشاور گئے نہیں ڈیورنڈ لائن پر معلومات کے دریا بہا رہے ہیں، کوئٹہ گئے نہیں اور آزاد بلوچستان کے بارے میں پیشگوئی کررہے ہیں)۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سی پیک کے حوالے سے اسلام آباد میں ہونے والی جس کانفرنس میں چینی ناظم الامور نے سی پیک کے دشمنوں کی نشاندہی کی، اس میں کسی بلوچ سیاسی رہنما، دانشور اور صحافی کی موجودگی کی خبر نہ ملی۔ ہاں ہمارے سینیٹر سید مشاہد حسین ضرور سی پیک سے متعلق دہائی سے زائد سے ہونے والی ہر چھوٹی بڑی تقریب میں ہوتے ہیں۔
اسلام آباد میں ہونے والی اس انتہائی اہم میڈیا کانفرنس میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے پاکستان میں چینی اہلکاروں کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں متنبہ کرنے کے ساتھ ساتھ، انتہائی سادگی سے یہ بھی فرمایا کہ اب ہم مقامی لوگوں سے رابطہ کریں گے تاکہ وہ سی پیک مخالف پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔
اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا
حیرت اور ساتھ ہی افسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد کانفرنس میں موجود شرکا اس بات سے بے خبر تھے کہ اس وقت گوادر سمیت مکران ہی نہیں بلکہ بلوچستان میں مزاحمتی تنظیموں کا نیٹ ورک کتنا زور پکڑ چکا ہے۔ غالباً ایسی ہی سوچ اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ میں ہے جو چینیوں کے خلاف بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے حملوں کو محض بھارت کے کھاتے میں ڈال کر فائل بند کردیتے ہیں۔ روایتی دشمن کی طرف سے کتنی ہی مالی عسکری سرپرستی ہورہی ہو مگر بلوچ معاشرے میں خاتون خودکش حملہ آوروں کا تیار ہونا محض سی پیک دشمنی یا پیسوں کے حصول کے لیے نہیں ہے، بات اس سے بہت آگے کی ہے۔
54 ارب ڈالر کا یہ گیم چینجر منصوبہ اب لگتا ہے کہ کم از کم چین کے لیے مشکل بنتا جا رہا ہے۔ میں اسلام آباد کی سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سنجیدگی کے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کروں گا کہ اس اشرافیہ کی پہلی ترجیح ان کی ذات خاندان اور مالی و سیاسی مفادات ہیں۔
مگر پھر پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بلوچستان میں موجود دہائیوں کی محرومیاں اور عوام کی اسلام آباد سے شدید ناراضگی کے باوجود بلوچوں کی اکثریت پاکستان کے اندر رہ کر ہی اپنے حقوق کی جنگ لڑنا چاہتی ہے جس کا اظہار بلوچستان کے حالیہ بلدیاتی انتخابات سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان انتخابات میں تمام نمائندہ قوم پرست تنظیموں نے بھرپور شرکت کی اور غیر معمولی طور پر ووٹ ڈالنے کی شرح 50 فیصد کے لگ بھگ رہی۔ اسی لیے اس شدید محاذ آرائی کے ماحول میں بلوچستان میں ہونے والے انتخابات کو امید کی ایک کرن قرار دیا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں