اوڈنسے ڈنمارک کا تیسرا بڑا شہر ہے اور کوپن ہیگن سے تقریباً سوا گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے۔ کوپن ہیگن شی لینڈ جزیرے پر اور اوڈنسے فیون نامی جزیرے پر واقع ہے۔ دونوں جزیروں کو ملانے والے پُل کا نام اسٹوا بیلٹ ہے جسے آپ بڑا پُل کہہ سکتے ہیں۔
اسٹوا بیلٹ، لل بیلٹ اور اورسنڈ برج، یہ 3 پُل سویڈن اور ڈنمارک کو باقی یورپ سے ملانے کا ذریعہ بنے۔ اسٹوا بیلٹ اور اورسنڈ برج 1998ء اور 1999ء میں مکمل ہوئے اور ٹریفک کے لیے کھولے گئے۔ اس سے پہلے یہ سفر فیری کے ذریعے مکمل کیا جاتا تھا۔ 18 کلومیٹر لمبا یہ پُل سمندر کو پار کرنے کا ایک دلچسپ تجربہ ہے۔ اس پُل سے کچھ ہی فاصلے پر اوڈنسے نامی یہ شہر ہے جو میرے یورپ ٹور 2022ء کی پہلی منزل ہے۔ 1200 کلومیٹر سے زائد کا یہ سفر ہم نے بذریعہ کار شروع کیا۔
ہر شہر میں ہماری پہلی منزل اس کا ٹاؤن ہال ہوتی ہے۔ اوڈنسے ٹاؤن ہال کے پاس ہی ایک پارکنگ پلازہ میں گاڑی کھڑی کی اور ٹاؤن ہال کا رخ کیا۔ ہماری پارکنگ ایونچوا پارک سے متصل تھی۔ پارکنگ سے نکلتے ہی سڑک کے دوسرے کنارے ایک سوئمنگ پول ہے اور اس بلڈنگ کے باہر دیوار پر ائیوی نامی بیل نے دیوار کو سرسبز رکھا ہوا ہے۔ اس بیل پر خزاں کے رنگ اترنے کی کہانی بہت دلکش ہے، کھڑکیوں کو گھیرتی بیلیں دیکھ کر پروین شاکر کے ایک شعر نے دماغ کو گھیر لیا کہ
اس تصویر کو دیکھ کر ہی پروین شاکر کے شعر کو سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں سے ٹاؤن ہال کی طرف رخ کریں تو سڑک کے ساتھ ساتھ سائیکل کے لیے الگ سے بنا ہوا راستہ آپ کو ڈنمارک میں ہونے کا پتا دیتا ہے۔ یہاں سائیکل والوں کا مرتبہ گاڑی والوں سے زیادہ ہے، ان کی جگہ پر اگر آپ چلیں گے تو لوگ آپ کو غصے سے بھی دیکھیں گے اور ہوسکتا کہ گھنٹی بجا کر احتجاج بھی کریں، جس کا کم از کم مطلب یہی ہے کہ پرے مر۔
سامنے ہی اوڈنسے کے ڈوم چرچ کی پُرشکوہ عمارت آپ کی ساری توجہ اپنی جانب مبذول کرواتی ہے۔ یہ جگہ ایک صدی پہلے سے ہی چرچ کے استعمال میں رہی لیکن وقت کے ساتھ عمارت کے انداز بدلتے رہے۔ چرچ کی موجودہ صورت 14ویں صدی میں بنائی گئی ہے جسے بعد میں برقرار رکھا گیا ہے۔
اس مختصر قیام میں ہمارا ارادہ کسی بھی عمارت کے اندر جانے کا نہیں تھا اس لیے اس کو دُور سے دیکھنے پر ہی اکتفا کیا۔ چرچ سے نظریں ہٹائیں تو سامنے ہی اوڈنسے کا ٹاؤن ہال ہے۔
یہ عمارت بھی 14ویں صدی میں خاصی چھوٹی تھی جسے 19ویں صدی میں توسیع دی گئی۔ آپ کو ان 2 عمارتوں کی تاریخ سے سمجھ لینا چاہیے کہ شہر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
اس شہر کو 4 ہزار سال بوڑھا بتایا جاتا ہے لیکن اس کا باقاعدہ کتابوں میں تذکرہ کم از کم ایک صدی پرانا ہے۔ 2، 3 عشرے پہلے شہر کے ایک ہزار سال مکمل ہونے کی تقریبات بھی یہاں منعقد کی گئی تھیں جس سے آپ ان در و دیوار کے پیچھے چھپی کہانیوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
چرچ کے منظر سے چند قدم آگے ٹاؤن ہال کی طرف چلیں تو درمیان والی سڑک کے عین سنگم پر ایک اور چرچ کی عمارت آپ کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ یہ کیتھولک چرچ ہے جو قریباً 100، سوا سو سال پہلے ہی تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں ٹاؤن ہال کے سامنے سے واکنگ اسٹریٹ کی طرف جانے والے راستے پر سڑک کی نشاندہی کرنے والے اشاروں پر ڈینش کے ساتھ ساتھ چینی زبان میں بھی راستوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہاں چینی سیاح خاصی تعداد میں آتے ہیں۔
اس شہر کی ایک بڑی وجہ شہرت ایچ سی اینڈرسن کی جائے پیدائش ہے۔ اس کا بچپن والا گھر اب ایک میوزیم کا درجہ حاصل کرچکا ہے اور اس کی کہانیوں سے بچپن کو طلسماتی بنانے والے لوگ اس لکھنے والے کو خراج تحسین پیش کرنے اس کے بچپن کے گھر تک چلے آتے ہیں۔ اسی لیے آپ کو کوپن ہیگن کی جل پری کے مجسمے سے لیکر اوڈنسے تک ایچ سی اینڈرسن کی تخلیقات کو سراہنے والے نظر آتے ہیں۔
واکنگ اسٹریٹ پر تھوڑا آگے آئیں تو وہی اسکینڈے نیویا کے جانے پہچانے برانڈ جو سبھی شہروں میں پائے جاتے ہیں۔ مئی کی اس دوپہر میں درجہ حرارت 17، 18 ڈگری اور دھوپ کا تڑکا تھا لہٰذا ورکنگ ڈے ہونے کے باوجود شہر کے بارز پر خاصا رش تھا۔ اس موسم کا اپنا نشہ سب مشروبات پر بھاری ہے، ایسی دوپہروں میں اسکینڈے نیویا کا سُکھ، سادگی اور حُسن دیکھنے والا ہوتا ہے۔
اسکینڈے نیویا کے لوگ دیگر یورپ کے مقابلے میں تھوڑے درویش منش ہیں، اپنے کام سے کام رکھنے والے، شوخ رنگوں کے بجائے سوبر انداز کے رنگوں میں سنورنے والے اور زندگی کو اپنے نرالے ڈھنگ میں جینے والے ہیں۔ یہاں بینک کی دولت کسی کے مرتبے کا فیصلہ نہیں کرتی۔ آپ ان کے سامنے اجنبی بن کر دیکھیں تو یہ آپ کو مہربان بن کر ہی ملیں گے۔
واکنگ اسٹریٹ کی گلیوں سے گھومتے ہوئے اور اوڈنسے کے تھیٹر کی طرف سے جاتے ہوئے ہم سینٹرل اسٹیشن تک گئے۔ یہاں ابھی تک ٹرام کے کچھ کنیکش موجود ہیں وگرنہ کوپن ہیگن میں ٹرام کی جگہ میٹرو لے چکی ہے۔ اسٹیشن کے سامنے پارک میں لوگ دھوپ اور خوبصورت موسم منانے نکلے ہوئے ہیں۔ بس ایسے ہی لوگوں کی مسکراہٹوں کو دیکھتے اور عمارتوں کی اونچائیاں ناپتے ہم نے واپسی کی راہ لی۔
ایچ سی اینڈرسن کی یادگار سے ملے بغیر آوڈنسے کا سفر ادھورا ہی سمجھیے۔ ٹاؤن ہال کے ساتھ والے ڈوم چرچ کے پیچھے پارک میں ایچ سی اینڈرسن کا ایک مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ اس کو الوداعی خراج عقیدت پیش کیا اور اسی پارک کے راستے پارکنگ تک چلے آئے۔ یوں راستے سے گزرتے گزرتے ہم نے اس شہر کو ایک آنکھ سے دیکھا لیکن جی بھر کر نہیں دیکھا، ویسے بھی
رمضان رفیق دنیا سیاحت کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.
تبصرے (12) بند ہیں