عوام اور اشرافیہ سب کا یہی خیال تھا کہ موجودہ اتحادی حکومت سخت فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے اور وہ جلد یا بدیر سخت فیصلے کیے بغیر معاملات کو نگران حکومت کے سپرد کرتے ہوئے انتخابات کی طرف جائے گی۔ یوں نگران حکومت عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط کو من و عن تسلیم کرے گی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سمیت سخت فیصلے کرنے اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ منتقل کرنے کے اقدامات کرے گی۔
جب موجودہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کردیا تب بھی لوگ یہی پیش گوئی کررہے تھے کہ بجٹ تک یہ حکومت ٹھہرتی نظر نہیں آرہی ہے مگر اب بالآخر حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کردیا ہے۔
اس بجٹ سے قبل ایک خوف کی فضا قائم تھی جس میں یہ سمجھا جارہا تھا کہ بجٹ میں ایسے اقدامات اٹھائے جائیں گے جو عام آدمی کی روزمرہ زندگی کو مزید مشکل بنادیں گے۔ مگر وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی بجٹ تقریر اور سامنے آنے والے فنانس بل نے وہ خوف کی فضا تقریباً ختم کردی جس پر عوام اور کاروباری برادری سکھ کا سانس لیتے ہوئے نظر آئے۔
اب اس بجٹ کو کیا کہیں کہ حکومت نے موت دکھا کر بخار پر راضی کرلیا ہے یا پھر مفتاح اسمٰعیل نے رابن ہڈ کی طرح امیروں پر ٹیکس لگا کر غریبوں کو ریلیف دے دیا ہے۔
مشکل حالات کے مقابلے کا عزم
مفتاح اسمٰعیل نے مشکل معاشی حالات کے باوجود حکومت میں رہنے اور سخت فیصلے کرنے کے عمل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ جانتے ہوئے حکومت میں آئے کہ معاشی حالات خراب ہیں۔ ہمارے پاس 2 راستے تھے ایک یہ کہ ملک کو اسی حالت میں چھوڑ کر انتخابات کا اعلان کردیتے مگر اس طرح معیشت کا بیڑا غرق ہوجاتا اور ملک کو دوبارہ پٹری پر چڑھانا مشکل ہوجاتا۔ اس لیے ہم نے دوسرا راستہ اپنایا اور مشکل فیصلے کرنا شروع کیے۔
مفتاح اسمٰعیل نے مریم نواز شریف کی جانب سے متعارف کروائے جانے والے اس نعرے کو بھی تقریر کا حصہ بنایا کہ 'ہم نے پہلے بھی کرکے دکھایا ہے، ہم کرسکتے ہیں اور کرکے دکھائیں گے'۔
معاشی ترقی اور مہنگائی
رواں مالی سال میں معاشی ترقی کی شرح 6 فیصد رہی جبکہ ہدف 4.8 فیصد تھا جبکہ رواں مالی سال میں افراطِ زر کی شرح 11 فیصد رہی اس طرح اگر ترقی میں سے افراطِ زر کو منہا کردیا جائے تو حقیقی ترقی منفی 5 فیصد رہ جاتی ہے۔ مفتاح اسمٰعیل نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں ترقی کا ہدف 5 فیصد جبکہ افراطِ زر یعنی قیمتوں میں اضافے کی شرح 11.5 فیصد رکھنے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ اس طرح آئندہ مالی سال میں بھی مہنگائی ہونے والی ترقی کو کھا جائے گی اور حقیقی ترقی منفی 6.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
پاکستان میں منافع کمانے کے لیے کارکردگی یا پیداوار کو بڑھانے کے بجائے اجناس کی قیمت بڑھانے کا رجحان ہے اسی لیے مہنگائی، خصوصاً زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت خوش آئند قرار دیتی تھی۔
شوکت ترین کا رواں مالی سال کی بجٹ تقریر میں کہنا تھا کہ اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے کسانوں کو 3100 ارب روپے منتقل ہوئے ہیں۔ جبکہ گزشتہ سال 2300 ارب روپے منتقل ہوئے تھے۔ اس طرح کسانوں کو منتقل ہونے والی رقم میں 32 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ 32 فیصد اضافہ پیداوار بڑھا کر نہیں ہوا تھا بلکہ اسٹاک پر بڑھنے والی قیمت سے ہوا تھا۔ جس کی ادائیگی عام صارفین، غریب اور متوسط طبقے کی جیب سے کی گئی۔ اسی تقریر میں یہ بھی اعتراف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں غذائی قلت سنگین ہوتی جارہی ہے۔
روپے کی قدر
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ 2013ء سے 2018ء کے درمیان پاکستانی کرنسی میں استحکام نظر آیا مگر پھر معاشی بدانتظامی کی بنا پر 2018ء سے 2022ء کے درمیان روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر 115 روپے سے 189 تک پہنچ گیا اور آفر شاکس کی وجہ سے 200 کی حد بھی پار کرگیا۔ ہم نے کرنسی کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ اگر روپے کی قدر میں 10 روپے کی کمی ہوگی تو اس سے تقریباً 1.5 فیصد سے 2 فیصد تک مہنگائی بڑھے گی۔
شوکت ترین نے رواں مالی سال کے بجٹ کی تقریر کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر روپے کی قدر مصنوعی سطح پر برقرار رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابقہ حکومت نے درآمدات کو بڑھایا اور جو زرمبادلہ ذخائر بڑھائے وہ بھی قرض لے کر بڑھائے گئے۔ ان کی حکومت نے 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو مکمل طور پر ختم کیا اور 80 کروڑ ڈالر سر پلس کردیا۔
بجٹ کا حجم
مفتاح اسمٰعیل کے پش کردہ بجٹ کا کُل حجم 9502 ارب روپے ہے جو رواں مالی سال کے بجٹ سے 1015 ارب روپے زائد ہے۔ بجٹ میں کُل اخراجات کا تخمینہ 9502 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 800 ارب روپے، پنشن کی مد میں 530 ارب روپے اور اعلٰی تعلیم کے لیے 65 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاع کے لیے 1523 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ گزشتہ سال 1370 ارب روپے رکھے گئے تھے اس طرح دفاعی بجٹ میں 153 ارب روپے اضافہ کیا گیا ہے۔ سال 2018ء مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دفاعی بجٹ 1200 ارب روپے مختص کیا تھا یعنی تقریباً 4 سال میں دفاعی بجٹ میں 323 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
رابن ہڈ بجٹ
وفاقی بجٹ میں رواں مالی سال فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر ) کا محصولات کا ہدف 6 ہزار ارب روپے سے بڑھا کر 7004 ارب روپے کردیا گیا ہے۔ رواں سال صوبوں کو 3512 ارب روپے منتقل ہوئے جبکہ آئندہ مالی سال 4100 ارب روپے منتقل ہوں گے۔ اس طرح رواں مالی سال وفاق کے حقیقی محصولات 3803 ارب روپے سے بڑھ کر 4904 ارب روپے ہوں گے۔
نئے وفاقی بجٹ میں امیر طبقے پر ٹیکسوں کو بڑھایا گیا ہے اور اس کا برملا اعتراف وزیرِ خزانہ نے اپنی تقریر میں بھی کیا، اس لیے میں اس بجٹ کو رابن ہڈ بجٹ کہتا ہوں۔
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت نے امیر طبقے کو مراعات دیں جس سے اس نے ترقی کا ہدف حاصل کیا مگر اب وقت آگیا ہے کہ ٹیکس کا بوجھ غریب سے امیر کی طرف منتقل کیا جائے۔ اسی لیے سب سے پہلے وفاقی حکومت نے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے کم از کم قابل ٹیکس آمدنی 6 لاکھ روپے سالانہ سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے سالانہ یا ایک لاکھ روپے ماہانہ کردی ہے۔ بجٹ تجویز کے مطابق 6 لاکھ روپے تک آمدن پر ٹیکس استثنیٰ ہوگا اور 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے تک تنخواہ پر 100 روپے ٹیکس ہوگا۔
چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو بھی ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے اور انہیں ٹیکس کی چھوٹ 4 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ روپے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح چھوٹے دکانداروں پر فکسڈ ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔ یہ ٹیکس 3 ہزار روپے سے لے کر 10 ہزار روپے ہوگا جو بجلی کے بلوں کے حساب سے عائد کیا جائے گا۔ ایف بی آر کے تخمینے کے مطابق ملک میں 65 لاکھ دکانیں موجود ہیں اور اگر ان پر اوسطاً 6 ہزار روپے ٹیکس وصول کیا جائے تو یہ تقریباً 40 ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔
بجٹ میں ایک طرف تو تنخواہ دار اور چھوٹے کاروباری افراد پر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے تو دوسری طرف امیر طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھایا گیا ہے۔ ایسے تمام افراد اور کمپنیاں جن کی سالانہ آمدن 30 کروڑ روپے یا اس سے زائد ہو، ان پر 2 فیصد اضافی ٹیکس عائد کرتے ہوئے 29 فیصد سے بڑھا کر 31 فیصد کردیا گیا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس میں کمی کی تھی۔
ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس کا نفاذ بھی امیروں پر ٹیکس لگانے کے لیے کیا گیا ہے۔ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ صاحبِ حیثیت افراد کی دولت کا بڑا حصہ پاکستان کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں موجود ہے، یہ دو دھاری تلوار ہے، اس سے ایک طرف غیر پیداواری اثاثے جمع ہوتے ہیں اور دوسری طرف غریب اور کم آمدنی والے طبقوں کے لیے مکانات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں لہٰذا اس عدم توازن کو درست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
وزیرِ خزانہ نے بتایا کہ وہ تمام افراد جن کی ایک سے زائد غیر منقولہ جائیداد پاکستان میں موجود ہے اور جس کی مالیت ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ ہے تو اس پر مارکیٹ ویلیو کی 5 فیصد مالیت کو فرضی آمدن یا فرضی کرایہ سمجھا جائے گا اور اس فرضی آمدن/ کرائے پر ایک فیصد ٹیکس لیا جائے گا۔ تاہم ہر کسی کا ایک عدد ذاتی رہائشی گھر اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگا۔
اس کے علاوہ ریئل اسٹیٹ اور دیگر غیر منقولہ جائیداد کے ایک سال یا کم عرصے میں فروخت پر 15 فیصد کیپٹل گین ٹیکس عائد کیا ہے۔ یہ ٹیکس ہر سال ڈھائی فیصد کی کمی کے ساتھ 6 سال بعد جائیداد فروخت کرنے پر صفر ہوجائے گا۔
ٹیکس فائلرز کے لیے جائیدادوں کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح ایک فیصد سے بڑھا کر 2 فیصد جبکہ نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کے لیے ایڈوانس ٹیکس کی شرح 5 فیصد کردی ہے۔
اس طرح گاڑیوں کی خریداری پر بھی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ 1600 سی سی سے زیادہ کی گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس بڑھایا گیا ہے۔ الیکٹرک گاڑی 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ٹیکس جبکہ نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح کو 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت نے پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے بینکوں پر ٹیکس کی شرح جو 39 فیصد تھی کو بڑھا کر 45 فیصد کردیا ہے۔ اس میں 3 فیصد سپر ٹیکس بھی شامل ہے۔
ریئل اسٹیٹ اور طبقہ امراء پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے معروف سرمایہ کار عارف حبیب نے راقم سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ ’گزشتہ چند سال میں ریئل اسٹیٹ نے جو منافع کمایا ہے اس کے حوالے سے ٹیکس کی شرح بہت زیادہ عائد نہیں کی گئی ہے۔ موجودہ ملکی حالات میں سب کو ٹیکس میں اپنا حصہ ڈالنا ہے‘۔ عارف حبیب کا کہنا تھا کہ ’حکومت تو غریبوں سے بھی غریب ہے کیونکہ وہ پہلے دن سے قرضہ لینا شروع کرتی ہے اور مالی سال کے آخر تک قرض ہی لیتی رہتی ہے‘۔
عارف حبیب نے جائیداد پر ٹیکس عائد ہونے اور دیگر اقدامات کی روشنی میں پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے سرمایہ کاروں کے لیے بہتر بجٹ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر بینکوں اور بڑی کمپنیوں کے ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے تو پھر بھی اس سے فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اس وقت حصص کی مالیت بہت کم ہے اور بڑے ڈسکاؤنٹ پر دستیاب ہیں۔ اسی طرح اگر آئی ایم ایف سے معاہدے کی راہ ہموار ہوتی ہے تو اس پر سرمایہ کار متحرک ہوگا‘۔
عارف حبیب کا کہنا تھا کہ ’رواں مالی سال کے بہت سے اہداف حاصل ہوئے ہیں، مگر اس کے باوجود پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی صفر رہی جبکہ نان ٹیکس ریونیو میں کاروباری اداروں سے منافع حکومت کو منتقل نہیں ہوا اور نئے مالی سال میں اہداف حاصل کرنے کے حوالے سے سخت محنت کرنا ہوگی‘۔ عارف حبیب کا کہنا تھا کہ ’اس وقت دنیا میں کموڈٹی سپر سائیکل چل رہا ہے اور توانائی کے علاوہ اجناس بھی مہنگی ہورہی ہیں‘۔
موبائل فونز پر عائد لیوی
ایک طرف حکومت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کو بڑھانا چاہتی ہے تو دوسری طرف موبائل فونز کی درآمد کی حوصلہ شکنی بھی کررہی ہے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق بجٹ 23ء-2022ء میں 30 ڈالر سے 700 ڈالر کے موبائل فون پر 100 روپے سے لے کر 8 ہزار روپے تک لیوی عائد کی گئی ہے جبکہ 701 ڈالر یا اس سے زائد مالیت کے موبائل فون پر 16 ہزار روپے لیوی عائد ہوگی۔ اس طرح موبائل فونز مزید مہنگے ہوجائیں گے۔
بجٹ میں صرف موبائل فونز پر لیوی عائد نہیں کی گئی بلکہ ٹیلی کمیونیکیشن سروسز پر ایکسائز ڈیوٹی 16 فیصد سے بڑھا کر 19.5 فیصد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان پہلے ہی موبائل فونز خدمات پر سب سے زیادہ ٹیکس عائد کرنے والا ملک بن گیا ہے اور اب لیوی اور ایکسائز ڈیوٹی کے اضافے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مقامی اور برآمدی فروغ کو شدید دھچکا لگے گا۔
آٹوموبیل کی صنعت
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں توقع کے عین مطابق حکومت نے نئی سرکاری گاڑیوں کی خریداری پر پابند عائد کردی ہے جبکہ 1600 سی سی سے زائد کی موٹر گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس بڑھانے کی تجویز دی ہے۔ اس کے علاوہ الیکٹرک گاڑیوں پر قیمت کے 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ٹیکس بھی وصول کیا جائے گا جبکہ نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح کو موجودہ 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کیا جائے گا۔
ان اقدامات سے آٹوموبیل سیکٹر کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ حکومتی سطح پر گاڑیوں کی خریداری بند ہونے سے یہ سیکٹر اپنے سب سے بڑے خریدار سے محروم رہ جائے گا۔ ٹیکس میں اضافے سے عام خریدار کی قوت خرید میں کمی ہوگی جبکہ پہلے ہی اسٹیٹ بینک گاڑیوں کی فنانسنگ پر مدت میں کمی اور ڈاؤن پیمنٹ کی شرح میں اضافہ کرچکا ہے۔
سابقہ حکومت اور موجودہ حکومت کے بجٹ میں فرق اور سیلز ٹیکس کی چھوٹ
بجٹ یوں تو کسی بھی حکومت کے ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کے سیاسی عزائم کا آئینہ دار ہوتا ہے، مگر اس موقع پر سابقہ حکومت یا اپنی مخالف سیاسی قوتوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کا عمل بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ہے۔
شوکت ترین نے رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے 2018ء میں ختم ہونے والی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے ورثے میں ملنے والی تباہ حال معیشت کو بحال کیا اور کورونا وبا کے سے نبردآزما ہوئی۔ بہت زیادہ قرضوں کی وجہ سے ملک کو دیوالیہ ہونے کا سامنا تھا۔ ماضی میں آنے والی شاید ہی کسی حکومت کو اس مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہو جیسا کہ ہم کررہے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح 20 ارب ڈالر پر پہنچ گیا تھا، درآمدی بل 56 ارب ڈالر کے ساتھ 25 ارب ڈالر کی برآمدات کا 224 فیصد تھا۔ انہوں نے دیگر الزامات بھی عائد کیے مگر اس بجٹ کو تمام تاجر تنظیموں نے خوش آئند قرار دیا تھا جبکہ ماہرین معیشت نے اس بجٹ کو کھپت کی بنیاد پر ترقی دینے والا یا کمزنشن بجٹ قرار دیا تھا۔
مگر دسمبر میں حکومت نے آئی ایم ایف شرائط کو مانتے ہوئے ضمنی بجٹ ایوان میں پیش کیا جس میں تقریباً 150 اشیا پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز دی گئی جس کی منظوری کے بعد ان پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد تک بڑھا دی گئی۔ ریسٹورنٹ، بیکری اور فوڈ چین میں تیار ہونے والی بریڈ پر 17 فیصد ٹیکس لگایا، بیکریوں اور مٹھائی کی دکانوں پر تیار ہونے والے سامان پر بھی ٹیکس ساڑھے 7 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کیا گیا۔
اس کے علاوہ نومولود بچوں کے دودھ پر ٹیکس صفر سے بڑھا کر 17 فیصد کردیا گیا تھا اور دیگر ڈیری مصنوعات جیسا کہ فلیورڈ دودھ پر ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد جبکہ ڈبے کا دہی، پنیر، مکھن، کریم، دیسی گھی اور دودھ پر بھی ٹیکس 17 فیصد کردیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سولر پینلز اور ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال پر بھی سیلز ٹیکس عائد کردیا گیا تھا۔
اس کے جواب میں مالی سال 23ء-2022ء کا بجٹ پیش کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ حکومت کو گزشتہ پونے 4 سال کی بُری کارکردگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی ابتر معاشی صورتحال بہتر بنانے کا مشکل چیلنج درپیش ہے۔ گزشتہ حکومت کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے معاشی ترقی رک گئی، سماجی ڈھانچا متاثر ہوا اور اس دوران معاشی بدانتظامی عروج پر رہی جس کی وجہ سے عام آدمی بُری طرح متاثر ہوا اور روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی دیکھنے میں آئی اور ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔
اس بجٹ میں مختلف اشیا پر سے سیلز ٹیکس کو ختم کردیا گیا ہے۔ ان میں سرِفہرست ماحوال دوست توانائی کے حصول کا اہم ذریعہ سولر پینل ہیں جن پر پہلے 17 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا تھا مگر اب اس کو واپس لے لیا گیا ہے جبکہ ادویات کے خام مال پر عائد سیلز ٹیکس کو بھی واپس لیا گیا ہے۔ فارماسیوٹیکل سیکٹر کے لیے 30 سے زیادہ ایکٹیو فارماسیوٹیکل انگریڈینٹس (کسی دوا کے لیے درکار اجزا) کو کسٹم ڈیوٹی سے مکمل استثنیٰ دیا گیا ہے۔
خوردنی تیل کی قیمت
گزشتہ 3 سال میں عالمی منڈی میں خوردنی تیل کی قیمت 119 فیصد بڑھی ہے جبکہ پاکستان میں روپے کی قدر میں 23 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے پاکستان میں درآمدی خوردنی تیل کی قیمت میں ہوش رُبا اضافہ ہوا اور خوردنی تیل کی قیمت جو 2019ء میں 225 روپے تھی وہ مئی 2022ء میں بڑھ کر 509 روپے ہوگئی۔ اس طرح خوردنی تیل کی قیمت میں 126 فیصد کا اضافہ ہوا۔ دوسری جانب پاکستان کا خوردنی تیل کا درآمدی بل 2 ارب 63 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 5.45 ارب ڈالر ہوگیا ہے یعنی اس میں 107 فیصد اضافہ ہوا۔
اسی اضافے کو مدِنظر رکھتے ہوئے وفاقی وزیرِ خزانہ نے خوردنی تیل کے مقامی بیجوں یعنی کنولا، بنولا اور سورج مکھی کی کاشت پر کسانوں کو مراعات دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ زرعی مشینری کے حوالے سے بھی کسانوں کو بجٹ میں رعایت دی گئی ہے۔
یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ حکومت نے مشکل ترین حالات میں ایک بہتر اور متوازن بجٹ پیش کیا ہے جس میں نئے ٹیکسوں کا بوجھ طبقہ امرا پر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بہرحال اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی طرح بجٹ کے بعد کوئی ضمنی بجٹ پیش نہیں کیا جائے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو بجٹ کے سارے عمل سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں