وزیراعظم کےخلاف منی لانڈرنگ کیس میں نامزد ملزم مقصود ’چپڑاسی‘ انتقال کرگئے
وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کے مرکزی ملزم ملک مقصود احمد، جنہیں عام طور پر مقصود چپڑاسی کہا جاتا ہے، دبئی میں انتقال کر گئے۔
متحدہ عرب امارات کی وزارت صحت سے جاری ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی ڈان کو موصول ہونے والی نقل کی اسلام آباد میں موجود یو اے ای کے سفارتخانے نے بھی تصدیق کردی ہے۔
ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے مطابق 49 سالہ مقصود احمد کی موت 7 جون کو دبئی میں ہوئی، تاہم سرٹیفکیٹ میں موت کی وجہ درج نہیں کی گئی۔
یہ بھی دیکھیں: 'ایف آئی اے مقصود چپڑاسی کا کیس ختم کرنے جارہی ہے'
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اسپیشل پراسکیوٹر فاروق باجوہ نے بھی مقصود احمد کی وفات کی تصدیق کی۔
خیال رہے کہ ایف آئی اے نے مقصود احمد کو ملزم نامزد کر رکھا تھا ان کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے آنے کا الزام تھا۔
اس سلسلے میں اسپیشل سینٹرل کورٹ نے مقصود احمد کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے تھے۔
تاہم جب پراسیکیوٹر ایف آئی اے فاروق باجوہ سے استفسار کیا گیا کہ کیا مقصود احمد کی وفات سے کیس پر کوئی اثر پڑے گا؟ تو انہوں نے کہا کہ ان کی وفات سے کیس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ ملک مقصود گواہ نہیں تھا ملزم تھا اس لیے کیس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، ملزمان کے خلاف کیس ایف آئی اے عدالت میں چل رہا ہے۔
مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف، حمزہ شہباز کی ضمانت میں 28 مئی تک توسیع
ملک مقصود احمد ایف آئی اے کیسز کے علاوہ نیب کے شریف خاندان سے متعلق ریفرنسز میں بھی نامزد ملزم تھے۔
کیس کی تفصیلات
ایف آئی اے نے دسمبر 2021 میں شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف چینی اسکینڈل کیس میں 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر خصوصی عدالت میں چالان جمع کرایا تھا۔
عدالت میں جمع کرائی گئی ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق 'تفتیشی ٹیم نے شہباز شریف کے خاندان کے 28 بے نامی اکاؤنٹس کا پتا لگایا ہے جن کے ذریعےسال 2008 سے 2018 کے دوران 16 ارب 30 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی، رپورٹ کے لیے ایف آئی اے نے 17 ہزار کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کی جانچ کی۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ رقم 'خفیہ اکاؤنٹس' میں رکھی گئی تھی اور ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: ایف آئی اے کا شہباز شریف، حمزہ شہباز کےخلاف ٹرائل نہ کرنے کا فیصلہ
ایف آئی اے نے الزام لگایا تھا کہ اس رقم (16 ارب روپے) کا (شہباز خاندان کے) چینی کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا اور شہباز شریف کی جانب سے کم اجرت والے ملازمین کے اکاؤنٹس سے حاصل کی گئی رقم ہنڈی/حوالہ نیٹ ورکس کے ذریعے پاکستان سے باہر منتقل کی گئی، جو بالآخر اس کے خاندان کے افراد کے ہی استعمال میں آئی۔
شریف گروپ کے 11 کم تنخواہ والے ملازمین جنہوں نے اصل ملزم کی جانب سے منی لانڈرنگ کی اور رقم کو 'معلق اور قبضے میں رکھا'، وہ منی لانڈرنگ میں سہولت کاری کے مجرم قرار پائے ہیں۔
ایف آئی اے کے مطابق شریف گروپ کے تین دیگر شریک ملزمان نے بھی منی لانڈرنگ میں فعال طور پر سہولت فراہم کی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ رمضان شوگر ملز کا چپڑاسی مقصود 'چپڑاسی' اس مقدمے میں اشتہاری مجرمان میں سے ایک تھا، ملزم نے اپنے بینک اکاؤنٹ میں 3 ارب روپے وصول کیے تھے۔
ایف آئی اے کے چالان کی کاپی کے مطابق مقصود رمضان شوگر ملز، لاہور میں ٹی بوائے یا پیون کے طور پر کام کرتے تھے، سال 2017 میں ان کی آخری تنخواہ 25 ہزار روپے تھی اور پھر 'وہ 14 مارچ 2018 کو متحدہ عرب امارات فرار ہوگئے تھے'۔
مزید پڑھیں: شہباز شریف، حمزہ شہباز کی ایف آئی اے کے منی لانڈرنگ کیس کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر
ایف آئی اے نے اپنے چالان میں کہا کہ ان کے نام پر کم از کم 7 بے نامی اکاؤنٹس کھولے گئے جہاں سے 29 کروڑ 66 لاکھ روپے کی رقم منتقل کی گئی، مقصود احمد لاہور کے رہائشی تھے اور یہ ناممکن ہے کہ وہ دور افتادہ علاقے چنیوٹ میں کاروباری اکاؤنٹس چلا سکیں'۔
ایف آئی اے نے نشاندہی کی تھی کہ منی لانڈرنگ کیس کے 'تین اہم سہولت کار' یعنی سلیمان شہباز، سید محمد طاہر نقوی اور ملک مقصود احمد بیرون ملک 'مفرور' ہو گئے تھے اور خیال کیا جاتا تھا کہ وہ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اکثر شریف خاندان پر اپنی شوگر ملز کے ملازمین کے ذریعے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے رہے ہیں اور خاص طور پر مقصود چپڑاسی کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف پر مبینہ طور پر فیکٹری ورکرز کو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔
البتہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔