• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بجٹ 23ء-2022ء: 'ریلیف ممکن ہے اور نہ ہی دیا جانا چاہیے'

'ممکن ہے کہ یہ ایک سخت بجٹ ہوگا جس میں ٹیکسوں میں اضافہ ہوگا، یہ بھی ممکن ہے کہ سبسڈی کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے'۔

آج سے ٹھیک 2 ماہ قبل 9 اپریل ہی تاریخ تھی جب اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے قومی اسبملی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ ایک ہنگامہ خیز دن گزرنے کے بعد نصف شب کو ووٹنگ کا عمل مکمل ہوا، عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار ہوا اور انہیں وزیرِاعظم کے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا۔

وہ دن یقیناً اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے لیے ایک بڑا دن تھا لیکن ملک کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والوں نے اسی دن خبردار کردیا تھا کہ مستقبل میں بننے والی نئی حکومت کے لیے آگے مشکلات کے انبار کھڑے ہیں۔

اب ٹھیک 2 ماہ بعد اس حکومت کو بجٹ پیش کرنے کا سخت چیلنج درپیش ہے۔ گزشتہ حکومت کی معاشی پالیسیوں اور خاص طور پر حکومت کے آخری دنوں میں پیٹرول اور ڈیزل پر دی جانے والی سبسڈی سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے تو دوسری جانب آئی ایم ایف پروگرام میں بھی خلل پڑگیا۔ ان اقدامات اور کچھ عالمی حالات نے معیشت پر جو بوجھ ڈالا اسے برداشت بلآخر عوام نے ہی کیا۔

کل پیش کیے جانے والے میں بجٹ میں حکومت کی ترجیح ملکی آمدن میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کرکے معیشت کو مستحکم کرنا ہوگی۔ دوسری جانب عوام کو امید ہے کہ اس بجٹ کے نتیجے میں ملک میں آنے والا مہنگائی کا طوفان تھمے گا، تنخواہوں میں اضافہ ہوگا اور انہیں کسی حد تک ریلیف ملے گا۔

ڈان بلاگز نے ماہرین سے رابطہ کرکے آنے والے بجٹ کے حوالے ان کی توقعات جانیں اور یہ دریافت کرنے کی کوشش کی کہ آیا اس بجٹ میں حکومت اپنی ترجیحات پر عمل کرے گی یا عوام کی امیدیں پوری ہوں گی یا پھر حکومت ایک متوازن بجٹ پیش کرسکے گی۔


طاہر عباس

ہیڈ آف ریسرچ، عارف حبیب لمیٹڈ


آنے والا بجٹ متوقع طور پر ایک سخت بجٹ ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے اور بجٹ میں آئی ایم ایف کی تجاویز کو شامل کرنے کی بھی کوشش کرے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی توجہ ان طویل مدتی اسٹرکچرل مسائل کے حل پر رکھے جو حکومت کے مالی معاملات کو بہتر طور پر چلانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ حکومت کو ریونیو موبلائزیشن اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو میں اضافے، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور ٹیکس نظام میں موجود نقائص کو دُور کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔

ان امور کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنے اخراجات میں بھی کمی لانی ہوگی تاکہ معاشرے کے نچلے طبقے کا خیال رکھنے کے لیے درکار فنڈز کو برقرار رکھا جاسکے۔ آنے والے بجٹ میں ایک اہم پہلو مہنگائی کے بہتر انتظام کا بھی ہوگا کیونکہ ایندھن کی موجودہ قیمتوں اور بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہونے والے ممکنہ اضافہ سے مہنگائی میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

آخری اور اہم بات یہ کہ حکومت کو نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت اپنا کردار ادا کرے۔ اس کے علاوہ نجی شعبے کے تحت اسٹریٹجک منصوبے بھی شروع کیے جانے چاہئیں۔


ڈاکٹر ندیم الحق

وائس چانسلر، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس


اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ریلیف کچھ نہیں ہوتا۔ یہ ایک فضول سی اصطلاح ہے جس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیٹرول 250 روپے فی لیٹر ہونا چاہیے کیونکہ ہم اب مزید نوازنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ عوام کو جو سب سے بڑا ریلیف مل سکتا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت ہماری چھاتی سے اٹھ جائے۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ تو مراد یہ ہے کہ ہمارے حکمران خود کو بادشاہ سلامت سمجھنا چھوڑ دیں۔ ہمارے یہاں یہ عجیب مذاق ہے کہ سڑک چاہیے سڑک دے دو، لنگر خانے چاہیے وہ دے دو، یعنی ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اور ہم ہیں کہ مستقل پیسے بانٹے جارہے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کے لیے سب سے بڑی غربت کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ اس کا پڑھا لکھا نوجوان بےروزگار ہو اور اس کے لیے نوکریاں نہ ہوں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر پڑھا لکھا شخص ملک سے بھاگنا چاہتا ہے۔ سرمایہ کار کو ہم نے اتنا تنگ کیا ہوا ہے کہ وہ یہاں کام نہیں کرنا چاہتا۔ یہاں بس وہی سیٹھ کام کرسکتا ہے کہ جس کے تعلقات ہوں۔

پاکستان میں ایک بڑا استحصال این او سی کے نام پر ہوتا ہے۔ آپ نے دکان کھولنی ہے، کوئی کھوکھا کھولنا ہے یا کوئی پلازہ بنانا ہے، ہر ایک چیز کے لیے سرکاری اداروں سے اجازت لو اور اس اجازت کے نام پر جو پیسہ کھایا جاتا ہے اس کا کوئی حساب نہیں۔

یہاں کسی جج کے راستے میں کھوکھا آجائے تو فوری حکم آجاتا ہے کہ اسے گرا دیا جائے، ارے بھائی پوری دنیا میں یہ کھوکھے ہوتے ہیں۔ نیویارک میں لاکھوں کھوکے ہیں، لندن میں بھی ہیں، سنگاپور میں تو تقریباً 2 کڑور ہیں۔ ہم انٹرپرینیور بننے پر زور دے رہےہیں اور آج کل اسٹارٹ اپس کی بہت بات ہوتی ہے، تو یہ کھوکھے بھی تو اسٹارٹ اپس ہی ہیں، ان سے ہمیں اتنا مسئلہ کیوں ہے؟

اس لیے حکومت سے بجٹ میں جو ریلیف ملنے کی توقع کرنی چاہیے وہ صرف یہ ہے کہ عوام کو کام کرنے دیا جائے اور اس راستے میں جو رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں وہ ختم کردی جائیں کیونکہ اگر بجٹ میں پیٹرول سستا ہوگا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھی ان سیٹھوں، سرکاری اور دیگر افسران کو ہوگا۔

بجٹ میں جس بات پر توجہ دینی چاہیے وہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کا کیا کیا جائے؟ یہ ایسے لوگ ہیں جو پورا سال کچھ نہیں کرتے، مگر ان کا کوئی احتساب نہیں، بلکہ سالانہ تنخواہوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے، کوئی تو پوچھے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میں تو سرکاری نوکری کو اکبر بادشاہ کی نوکری سمجھتا ہوں۔

دیکھیے انسان کا بلڈ پریشر دیکھ کر ہی ڈاکٹر سمجھ جاتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے، لیکن اگر وہ محض بلڈ پریشر پر ہی شور مچانا شروع کردے اور اصل بیماری کو ٹھیک کرنے کے لیے سرجری نہ کرے، تو انسان کے لیے اس سے خطرناک بات کچھ نہیں ہوسکتی۔ ہاں سرجری میں وقتی تکلیف ہوگی، مگر دیرپا سکون بھی میسر آجائے گا۔

اس لیے پوری بات کا خلاصہ یہی ہے کہ بجٹ میں ریلیف دینے کے بجائے قوم کو پیسہ کمانے کے لیے سہولت فراہم کی جائے، نوکریوں کا بندوبست کیا جائے اور عام آدمی کو بھی کاروبار کرنے کی اجازت دی جائے۔


خلیق کیانی

نمائندہ ڈان


آنے والے بجٹ کے حوالے سے 2 چیزیں بہت اہم ہیں۔ پہلی یہ کہ مہنگائی کو دیکھتے ہوئے حکومت کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ مہنگائی کی وجہ سے عوام پر پڑنے والا شدید بوجھ کسی حد تک کم کیا جاسکے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تناظر میں ممکن ہے کہ حکومت مالیاتی پالیسی کو سخت کرے لیکن موجودہ صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ کام اس طرح کیا جائے کہ نجی شعبے میں لوگوں کا روزگار اور نوکریاں متاثر نہ ہوں۔

اگر حکومت کی جانب سے کسی خاص شعبے پر زیادہ ٹیکس لگایا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ اس شعبے سے منسلک افراد کا روزگار متاثر ہو۔ یہ 2 کام اس وقت عوامی جذبات کو کسی حد تک ٹھنڈا رکھنے کے لیے ضروری ہوں گے۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ شاید آئی ٹی کے شعبے پر ٹیکس لگایا جائے حالانکہ یہ وہ شعبہ ہے جو عوام کی آمدن بڑھانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ شعبہ ان لوگوں کو روزگار فراہم کررہا تھا جنہیں سرکاری یا نجی شعبے میں ملازمت نہیں ملتی۔ اس وجہ سے ہونا تو یہ چاہیے کہ اس شعبے پر ٹیکس میں اضافہ کرنے کے بجائے اس پر ٹیکس کو ختم کردیا جائے یا بہت معمولی ٹیکس عائد کیا جائے۔

اس کے علاوہ آج کل بچت کے لیے سرکاری ملازمین کو دی گئی گاڑیوں اور سرکاری پیٹرول میں کمی کی باتیں ہورہی ہیں۔ میرے خیال میں اس سہولت کو ختم کرنے کے بجائے اس کا انتظام بہتر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا غلط استعمال بھی بہت زیادہ ہورہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ سرکاری اخراجات میں بچت کرکے آپ مجموعی طور بہت زیادہ بچت نہیں کرسکتے۔ کچھ ماہرین کی رائے میں غیر جنگی دفاعی بجٹ کو کم کیا جانا چاہیے۔ میرے خیال میں ان غیر معمولی حالات میں اگر اس قسم کی تجویز آرہی ہے تو اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو میرے خیال میں آنے والا بجٹ بہت سخت ہوگا۔ پھر اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں پر نظر ڈالی جائے تو اگلی سہ ماہی کے لیے اس میں اضافہ ہی نظر آرہا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں آنے والے مالی سال کا نصف اوّل مشکل ہوگا۔


ڈاکٹر خرم شہزاد

ماہر معیشت


میرے خیال میں موجودہ بجٹ میں کسی قسم کے ریلیف کی توقع نہیں رکھنی چاہیے اور ریلیف ملنا ممکن بھی نہیں ہے۔ یہ بہت مشکل حالات ہیں اور آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لیے ہمیں وہ سارے اقدامات اٹھانے ہیں جو ہم دوسری صورت میں نہ اٹھاتے۔

ان اقدامات میں شرح سود اور ٹیکسوں میں اضافہ شامل ہے اور پھر روپے کی قدر تو پہلے سے ہی کم ہورہی ہے۔ اسی وجہ سے توقع یہ کی جارہی ہے کہ یہ ایک سخت بجٹ ہوگا جس میں ٹیکسوں میں اضافہ ہوگا اور سبسڈی میں کمی کی جائے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سبسڈی کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔

حکومت اس بجٹ میں ریلیف کے طور پر یہ ضرور کرسکتی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور اس جیسے دیگر پروگراموں کے لیے مختص رقم میں اضافہ کردے۔

نئے ٹیکسوں کے باعث مستقبل میں مہنگائی بڑھنے کے امکانات بھی موجود ہیں اس وجہ سے ممکن ہے کہ حکومت ان لوگوں پر عائد ٹیکس میں بہت کم اضافہ کرے جن کی ماہانہ آمدن ایک لاکھ روپے یا اس سے کم ہے۔ اس کے برعکس ماہانہ ایک لاکھ روپے سے زائد کمانے والے افراد پر پہلے سے عائد ٹیکسوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

یہاں اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ آپ ایک بجٹ سے یہ امید نہیں لگا سکتے کہ اس سے سب کچھ درست ہوجائے گا۔ بجٹ میں صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ کس چیز پر کتنے پیسے لگائے جائیں گے اور وہ پیسے کہاں سے آئیں گے۔

اس وقت حکومت کے اپنے اخراجات ہی 500 ارب سے زیادہ کے ہیں جس میں کمی لانا بہت ضروری ہے۔ حکومت نے حالیہ دنوں میں سرکاری افسران کو ملنے والے پیٹرول میں کمی اور ورک فرام ہوم کا جو اعلان کیا ہے وہ بہت پہلے ہی کردینا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ حکومت کو مجموعی سبسڈی کے بجائے اب ہدفی سبسڈی دینے کی ضرورت ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان چیزوں کو بجٹ میں کس طرح شامل کیا جاتا ہے اور ایک ایسا توازن کیسے حاصل کیا جاتا ہے جس میں مہنگائی بھی محدود رہے، کسی نہ کسی سطح پر عوام کو ریلیف بھی ملے اور ساتھ ہی آئی ایم ایف کے مطالبات کو بھی پورا کیا جاسکے۔


عمید فاروقی ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں


،
،

فہیم پٹیل ڈان کے بلاگز ایڈیٹر ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔ آپ کا ٹوئٹر اکاونٹ یہ ہے: patelfahim@

محمد عمید فاروقی

عمید فاروقی ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
فہیم پٹیل

فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔