فلم ’کملی‘: بڑے پردے کی متحرک پینٹنگ
پاکستانی فلم بینوں کو نوید ہوکہ آخرکار عہدِ حاضر میں ایک ایسی فلم تخلیق ہوگئی ہے جس کو دیکھنے کے بعد بھی کئی روز تک آپ اس کے سحر میں رہیں گے۔ اس فلم کے نغمات اور دُھنیں آپ کی سماعتوں کو سیراب کریں گے اور کہانی کے کردار دھیرے دھیرے آپ پر منکشف ہوں گے کیونکہ خواب کی سی کیفیت میں ڈوبی ہوئی اس طلسماتی فلم کا نام ’کملی‘ ہے جو اپنے فن میں باکمال ہے۔
یہ فلم نہیں ہے بلکہ ایک پینٹنگ ہے جس کو ہدایت کار سرمد کھوسٹ نے سوز اور ساز کی کیفیات میں غرق ہوکر بنایا ہے۔ اس پینٹنگ کے رنگوں سے مزین فلم کے کردار ہماری حقیقی زندگیوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں مگر ان کی زبان خاموشی ہوتی ہے۔
فلم ساز نے ایسے احساسات کو گویائی دی ہے اور کیا خوب دی ہے۔ بہت عرصے بعد کوئی ایسی پاکستانی فلم دیکھنے کو ملی ہے جس کو دوبارہ دیکھنے کو دل چاہا۔
فلم کی کہانی اور اسکرپٹ
اس فلم کی کہانی کا بنیادی خیال ایک طالب علم کا تھا جس نے اپنی تدریسی ضرورت کے تحت ایک مختصر فلم کی کہانی لکھی تھی پھر ’کملی‘ کے فلم ساز سرمد کھوسٹ نے اس کہانی کے حقوق خریدے اور کہانی کو نئے سرے سے لکھوایا۔
فاطمہ ستار نے اس فلم کا اسکرپٹ لکھا اور عمدہ لکھا۔ بالخصوص کہانی کی شروعات، اس میں کرداروں کی آمیزش، صورتحال کا اتار چڑھاؤ اور مکالمے، سب خوب رہا۔ کہانی میں بیان کیے گئے معاملات کو بھی خوش اسلوبی سے نمٹا دیا گیا، لیکن سب سے اہم چیز اس فلم کا کلائمکس ہے، اس موڑ سے جب کہانی گزرتی ہے تو لگتا ہے کہ بند مٹھی سے ریت بہہ نکلی۔
کہانی میں 3 مرکزی کردار ہیں جن کے نام زینت (نمرہ بچہ)، سکینہ (ثانیہ سعید) اور حنا (صبا قمر) ہیں۔ حنا ایک شادی شدہ حسین اور تشنہ لب عورت ہے جس کا شوہر کئی برسوں سے لاپتا ہے۔ سکینہ اس کی نند ہے، جبکہ زینت ایک مصورہ ہے جس کے پاس حنا بطور ماڈل کام کرتی ہے۔
گاؤں کے پس منظر میں کرداروں کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ زندگی کے مصائب، پچھتاوے، اذیتیں، امیدیں، پیاس اور تشنگی استعاروں میں بیان ہوگئی۔ آگے چل کر کہانی میں ذیلی کردار بھی داخل ہوتے ہیں جو کہانی کو مزید کھولتے ہیں۔ ان کرداروں میں مصورہ کا شوہر، حنا کا گمشدہ شریک حیات، پھر تصوراتی محبوب اور گاؤں کے مکین سمیت دیگر کردار شامل ہیں۔
کہانی کو افسانے کی تکنیک پر لکھا گیا ہے یعنی افسانہ نگاری کے اصولوں کے مطابق کہانی کو ایک خاص موڑ تک لاکر روک دیا جائے اور قاری خود کہانی کی سمت کا تعین کرے۔ یوں اس فلم کی کہانی بھی طے کرتی ہے کہ فلم بین خود اس کیفیت کا تجربہ کرے جس سے فلم کے کردار گزر رہے ہیں۔
بہت غور سے دیکھنے پر آپ اس فلم کی کہانی میں داخل بھی ہوسکتے ہیں، البتہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس سے باہر آنے میں کتنا وقت لگ جائے گا۔ ہم سب کے اندر ایسی کچھ کہانیاں سانس لیتی ہیں، اس فلم کی کہانی بھی ایسی ہی ایک کہانی ہے جس کے بیان میں آپ کہیں سے بھی آجائیں، وہ ہاتھ تھام کے آپ کو اندر سمیٹ لے گی۔
مصورہ کے شوہر کا کردار نامکمل محسوس ہوا، اس کو تھوڑا اور بڑھا دیا جاتا تو عام فلم بینوں کے لیے کہانی آسان ہوجاتی۔ تجریدی انداز کی تفہیم ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں ہوتی لیکن دیکھا جائے تو یہی اس کہانی کا حُسن ہے۔ چھوٹے چھوٹے مناظر، سادہ مگر بامعنی مکالمے، چہروں کے بنتے بگڑتے نقوش، اجسام سے بیان ہوتی کیفیات، جبلت کی ضرورتوں کا ڈھکا چھپا تذکرہ، سب نے مل کر کہانی کو ایسا کردیا کہ آپ اس میں جذب ہوجائیں۔
پس پردہ موسیقی، نغمات اور شاعری
اس فلم کی عمدہ کہانی کے بعد دوسری سب سے دلکش چیز موسیقی ہے جس میں شعری جمالیات اپنے عروج پر ہیں۔ اس فلم کے موسیقار سعد سلطان اور عزت مجید ہیں جنہوں نے فلم کے تمام گیت بہت مدھر دھنوں سے تخلیق کیے ہیں اور بیک گراؤنڈ میوزک کو بھی اپنی میٹھی موسیقی سے شیریں کردیا ہے۔ نرماہٹ لیے ان نغموں نے فلم کے منظرنامے پر ایسے رنگ بھرے کہ زندگی سانس لیتی محسوس ہونے لگی۔
فلم میں ریشماں جی کی آواز میں ایک گانا ’مینوں توں‘ شامل کیا گیا ہے جو ایک طرح کا اس عظیم گلوکارہ کے لیے خراج عقیدت بھی ہے۔ عاطف اسلم کی آواز میں شامل گیت ’مکھڑا‘ بابا بلھے شاہ کا کلام ہے جس کو عاطف اسلم نے روح سے گایا ہے۔ باقی گیتوں میں زیب بنگش، آمنہ راہی، عزت مجید، زینب فاطمہ اور نمرہ گیلانی کی آوازوں نے کہانی کے کینوس پر گہرے رنگ ثبت کیے ہیں۔
یہ تمام نغمات ایک عرصے تک سماعتوں سے موسمِ برسات کو رخصت نہیں ہونے دیں گے بالکل ویسے ہی جیسے اس فلم کی کہانی میں برسات اور پانی، کرداروں کے سنگ بار بار آتے رہے۔ دھیمے اور مدھم سروں کے ساتھ خود کلامی پر آمادہ کرنے والی یہ موسیقی لاجواب ہے۔ ان نغمات کے لیے بابا بلھے شاہ کے کلام کے علاوہ جن شعرا کی شاعری سے استفادہ کیا گیا ہے ان میں شکیل سہیل، انجم قریشی، سہیل شہزاد اور عزت مجید شامل ہیں۔
اداکاری
اس فلم میں کہانی کا سارا وزن صبا قمر اور ثانیہ سعید کے کندھوں پر رہا اور دونوں نے اس کو خوب نبھایا۔ رواں برس پاکستان کی طرف سے اگر کوئی فلم آسکر کی نامزدگی کے لیے جاتی ہے تو وہ یہی فلم ہونی چاہیے۔ بے شک یہ پاکستان کا تخلیقی چہرہ دنیا بھر میں نمایاں کرے گی اور عالمی طور پر فلم بین محسوس کرسکیں گے کہ کس طرح زمین سے جڑی ہوئی کہانی کو بیان کیا جاتا ہے۔
صبا قمر اور ثانیہ سعید کے ساتھ ساتھ نمرہ بچہ، حمزہ خواجہ، عمیر رانا اور دیگر نے بھی عمدہ کام کیا مگر ان دونوں کا موازنہ باقی فنکاروں سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس قدر شاندار اداکاری کا مظاہرہ تب ہی ہوسکتا ہے جب کہانی کا کردار صرف کردار نہ رہے بلکہ وہ آپ ہوجائیں اور آپ پھر آپ نہ رہیں، وہ کردار ہی ہوجائیں۔ اس فلم میں دونوں اداکاراؤں نے فنِ اداکاری کے بام عروج کو پالیا۔ ان کے لیے بہت دیر تک تالیاں بجائی جاسکتی ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے اس کے پریمیئر میں فلم کے اختتام پر بجائی گئی تھیں۔
یہ فلم کیفیت کی مسلسل ہونے والی بازگشت ہے جس میں چیخیں ہیں، سسکیاں ہیں اور آہیں بھی، جن کا مداوا اور متبادل کوئی چیز نہیں ہوسکتی ہے۔
فلم سازی، پروڈکشن ڈیزائن اور دیگر شعبہ ہائے فلم
اس فلم کا پروڈکشن ڈیزائن بالکل اوریجنل ہے۔ انتہائی دیدہ زیب اور دل کو بھا جانے والی دھنوں پر شاندار ویڈیوز بنائی گئی ہیں۔ اس فلم کے پوسٹر سے لے کر گیتوں کی تمام ویڈیوز اور فلم کے اندر کا تمام آرٹ ورک بہت محنت سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ سینماٹوگرافی اویس گوہر کی ہے اور بہت مہارت سے لوکیشن کو کہانی میں ڈھالا گیا ہے۔
چکوال کے نواحی علاقے میں عکس بند ہونے والی یہ فلم پوٹوھاری علاقے کی خوشبو کی طرف لے کر جاتی ہے، البتہ فلم ساز نے اس علاقے کے اصل لب و لہجے کو استعمال نہیں کیا۔ اگر وہ ایسا کرتے تو شاید کہانی کی کشش مزید بڑھ جاتی۔ البتہ پنجابی اور انگریزی کا چیدہ چیدہ استعمال بہت برمحل اور لطیف تھا۔
فلم کی شوٹنگ میں ڈرون کیمروں کے شاٹس، فریمز، لائٹننگ، ایڈیٹنگ اور کاسٹیوم سے فلم کی جمالیات کو چار چاند لگ گئے۔ اس فلم کی پروڈیوسر کنول کھوسٹ ہیں، اس اعلیٰ پروڈکشن ڈیزائن پر وہ بھی ستائش کی حقدار ہیں۔
اس فلم کے ٹیزر اور ٹریلر کو بہت مناسب انداز میں کاٹا گیا ہے۔ فلم کے ایڈیٹر صائم صادق ہیں، جنہوں نے اپنا کام بخوبی کیا ہے، اس کام میں ندیم عباس ان کے معاون تھے۔ فلم کی آرٹ ڈائریکشن مجید بیگ اور ارم ثنا کی تھی، کاسٹیوم عثمان خان جالندھر کے تھے اور اس میں ان کو زویا حسن کا تعاون حاصل تھا۔
فلم کی ہدایت کار کی معاون اور ذیلی ڈائریکشن ٹیم میں سندس ہاشمی، ماہ نور زیدی اور فلم کی مصنفہ فاطمہ ستار شامل ہیں۔ فاطمہ ستار نے اس فلم کے دیگر تکنیکی پہلوؤں پر بھی کام کیا۔ رقص کے لیے گیلانی روڈس نامی ادارے کی خدمات حاصل کی گئیں۔ فلم کی تکنیکی ٹیم میں اکثریت خواتین ممبران کی ہے جن میں سے کئی تھیٹر کرنے کا تجربہ بھی رکھتی ہیں، تو ان پہلوؤں نے بھی کہانی میں جان ڈال دی، جمالیات اور سگھڑ پن کہانی کے ہر ورق میں جذب نظر آتا ہے۔
حرفِ آخر
کھوسٹ فلمز کی پروڈکشن کے تحت پیش کی جانے والی یہ فلم سینما جاکر ضرور دیکھیں تاکہ اگر زندگی کی تیز رفتاری اور ہنگامہ خیزی میں آپ خود سے بچھڑ چکے ہیں تو آپ اپنے باطن سے ملاقات کرسکیں۔ زندگی کی تلخی اور نرماہٹ کو محسوس کیجیے، مدھم سُروں اور دھیمے سازوں پر سر دُھنیے، یہی اس کملی فلم کا کمال ہے۔