ترقیاتی بجٹ میں بلوچستان کو ترجیحی بنیادوں پر فنڈنگ دیں گے، احسن اقبال
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ اس سال ترقیاتی بجٹ میں بلوچستان کی سڑکوں اور انفرااسٹرکچر کو ترجیحی بنیادوں پر فنڈنگ دیں گے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا اسلام آباد میں نیوز بریفینگ میں کہنا تھا کہ جب سڑکوں کا جال پھیلتا ہے اسی کے ذریعے پسماندہ علاقوں میں ترقی کا پہیہ چل کر جاتا ہے، بلوچستان کے زیرالتوا منصوبے جنہیں فنڈنگ نہیں ملتی تھی ہم نے ان کو بھرپور فنڈنگ کی ہے تاکہ اگلے دو سے تین سال میں بلوچستان میں رابطوں کو جال پھیلایا جاسکے جس کے ذریعے تعلیم، صحت اور روزگار کے بہتر مواقع ملیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح مکران کے کوسٹ پر بجلی کی تنگی تھی پاکستان ایران سے 100 میگا واٹ بجلی حاصل کررہا تھا لیکن وہ مکران کی ساحلی ضرورت کے پیش نظر کافی نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: گوادر میں ترقیاتی کاموں کی رفتار تسلی بخش نہیں ہے، وزیراعظم
ان کا کہنا تھا کہ آج میری ایران کے سفیر سے ملاقات ہوئی ہے، انہوں نے یقین دلایا ہے کہ 100 میگا واٹ اضافی بجلی مکران کوسٹ کے لیے فراہم کرنے کے لیے جلد معاہدہ کرلیا جائے گا، بدقسمتی سے پاکستان نے جو اپنے حصے کا کام کرنا تھا وہ نہیں کیا، تقریبا 29 کلومیٹر کی ٹرانسمیشن لائن نامکمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہے ہم نے وزارت توانائی کو اس ٹرانسمیشن لائن کو 4 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح بلوچستان اور نیشنل گرڈ کے لنک کو پورا کرنے کے لیے وزیر اعظم نے خصوصی دلچسپی لی ہے اور وزرات توانائی کو ہدایات جاری کی ہیں، اور خضدار اور پنجگور کے مسنگ لنک کو ایف ڈبلیو او کے ذریعے 2023 میں مارچ کے مہینے تک مکمل ہو جائے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ وزیراعظم نے کل گودار کے دورے کے نتیجے میں چین کی کمپنیوں اور پاکستانی حکام کو بلا کر اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ گوادر میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پانی فراہم کرنے کی اسکیم کی پائپنگ پر ستمبر تک کام مکمل کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح 1.2 ملین گلین پانی کے ڈی سیلینیشن پلانٹ پر اکتوبر میں کام مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ وہاں کی آبادی کو پانی کا مسئلہ نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز کی فراہمی روک دی گئی
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ ساحلی علاقوں میں چھوٹی چھوٹی بستیوں کے لوگوں کو بھی صاف پانی دینے کے لیے موبائل ڈی سیلینیشن پلانٹ کے آپشن کو دیکھا جائے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سول ایوی ایشن کو مارچ 2023 تک کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ گوادر میں نئے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کو مکمل کریں، گوادار انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر طویل دورانیے کی فلائٹس جو امریکا، یورپ سے فار ایسٹ یا آسٹریلیا کی طرف جاتی ہیں یہاں پر فیولنگ کے لیے رک سکتی ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ سی ڈی ڈبلیو پی میں یونیورسٹی آف گوادر کا منصوبہ بھی منظور کیا ہے جو ان کا دیرینہ مطالبہ ہے، ہم نے 2016-17 میں یونیورسٹی کیمپس قائم کر دیا تھا لیکن چار سالوں میں عارضی یونیورسٹی کیمپس کو گھر نہیں مل سکا۔ ان شااللہ دو سالوں میں یہ منصوبہ بھی مکمل ہو جائے گا۔
مزید پڑھیں: 300 ارب اضافی ریونیو کی وصولی کیلئے حکومت کا بجٹ میں نئے ٹیکس لگانے پر غور
وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ جاری بڑے منصوبوں کو برقرار رکھا جائے، سی پیک کو تیز کیا جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں اور بالخصوص بلوچستان کے لیے خصوصی کوششیں ہیں کہ ان کی طرف ہم توجہ دے کر ان کی ترقی کے لیے امکانات پیدا کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی یہ ہوا ہے کہ فنڈ مختص کیے گئے لیکن وہ استعمال نہیں ہوسکے، ان بڑے منصوبوں کے لیے جو بھی ان کی ضرورت ہوگی اس کو پورا کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح ایم ایل ون پچھلے چار سالوں سے رکا ہوا تھا، وزیراعظم نے چین سے حالیہ بات چیت میں دونوں طرف سے ایم ایل ون منصوبے کو بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے، چونکہ ہمارا ریلوے کا انفراسٹرکچر توڑ پھوڑ کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے کئی سالوں سے ریلوے کی مینٹیننس نہیں ہوسکی، 20 سالوں میں اس لیے نہیں ہوسکی کہ ریلوے کو پرائیوٹائزیشن میں رکھ دیا تھا، جبکہ گزشتہ سات، آٹھ سال سے اس لیے انفرااسٹرکچر پر کام نہیں ہوا کیونکہ یہ ایم ایل ون میں آگیا تھا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم نے بجٹ پر مشاورت کیلئے معاشی ماہرین کو طلب کرلیا
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ ہم نے چین سے بات کی ہے کہ تیزی سے اس منصوبے پر کام کیا جائے تاکہ ریلوے ٹریک پر اگر فوری طور پر کام شروع نہ کیا گیا تو مزید خطرات پیدا ہوسکتے ہیں، یہ جو حادثے ہوتے ہیں ان میں ٹریک کی بُری حالت کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم ایل ون کو بھی ہم ایک سال کے اندر فعال کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے 4 سالوں میں ایم ایل ون پروجیکٹ مکمل طور پر سردخانے میں چلا گیا تھا، چونکہ حکومت نے اس منصوبے پر چار سالوں میں کام نہیں کیا، لہٰذا منصوبے کے کنٹریکٹر لاگت پر نظرثانی کا کہہ رہے ہیں، لاگت کے حوالے سے پاکستانی ریلوے حکام اور چین کی طرف سے ماہرین مل کر اس کی لاگت کا تخمینہ لگارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم ایل ون منصوبے کے ‘ٹرمز آف فنانسنگ’ پر بھی بات چیت ہوگی، لہٰذا اگر ہم تیز رفتاری سے بھی چلیں تو ‘ٹرمز آف فنانسنگ’ کو حتمی شکل دینے میں اور منصوبے کی لاگت کو ازسرنو تخمینہ لگانے میں چند ماہ لگیں گے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے مزید کہا کہ پچھلی حکومت نے 500 ارب کے بجٹ میں ایس ڈی جیز کے لیے 68 ارب روپے رکھے تھے، ہم 800 ارب روپے کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں 65 یا 70 ارب رکھیں تو اس کا تناسب بہت کم ہوگا، ہم نے بجٹ میں ایس ڈی جیز کا تناسب گھٹایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئندہ بجٹ میں مسلح افواج کیلئے 14 کھرب 53 ارب روپے مختص کیے جانے کا امکان
ان کا کہنا تھا کہ تقریبا 88 فیصد کے رقم جاری منصوبوں کے لیے مختص کی گئی ہے جبکہ 12 فیصد کے قریب رقم نئے منصوبوں کے لیے رکھی جائے گی، یہ نمبرز بذات خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم نے محتاط طریقے سے بجٹنگ کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے مجموعی طور پرتقریباً 800 ارب روپے رکھے جائیں گے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری ‘سی پیک’ کے تین مرحلے تھے، 2020 تک انفرااسٹرکچر مکمل کرنا تھا، جبکہ ہم نے 2018 تک بڑی حد تک انفرااسٹرکچر مکمل کرلیا تھا، اسی طرح 2020 سے 2025 کے درمیان صنعتی تعاون کا مرحلہ تھا جس کے لیے ہم نے 2017 میں 9 صنعتی زونز کی نشاندہی کر لی تھی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے 2020 تک ان صنعتی زونز کا انفرااسٹرکچر تیار کرنا تھا، آج 2022 میں اب تک ایک بھی صنعتی زون کا انفرااسٹرکچرتیار نہیں ہے
ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے ہم نے پی ایس ڈی پی میں اکنامک زونز کے لیے انفرااسٹرکچر کی فنڈنگ کی ہے تاکہ جلدازجلد ان کو مکمل کیا جائے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ 9 میں سے 5 صنعتی زونز میں کام ہی شروع نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا اس غفلت کو یہ نقصان ہوا ہے کہ جو چینی سرمایہ کار 2017-18 میں سرمایہ کاری کے لیے پُرجوش تھے ان کو مایویسی ہوئی ہے، کوشش کررہے ہیں کہ چینی سرمایہ کاروں کو دوبارہ اس جانب راغب کیا جائے۔
پی ایس ڈی پی میں صوبوں کے حصے کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پچھلے 4 سالوں میں سندھ کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی ہے لہٰذا پی ایس ڈی پی کی صوبائی تقسیم میں سب سے بڑا غیر معمولی 100 ارب سے زیادہ کا حصہ بلوچستان کے لیے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ڈی پی میں تقریبا اکسٹھ ارب روپے کا حصہ صوبہ سندھ کے لیے فنڈز مختص کے گیے ہیں۔ چار سالوں کی غلطی ایک سال میں پوری نہیں کرسکتے۔
نارووال اسپورٹس کمپلیس کے قومی منصوبے کی بابت انہوں نے کہا کہ اگر نارووال اسپورٹس کمپلیس بروقت مکمل ہو جاتا تو شاید پاکستانی ایتھلیٹس اولمپکس میں کوئی تمغے جیت کر لے آتے۔ اس منصوبے کو سیاست کی نذر کیا گیا، چار سال سے یہ منصوبہ بند رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس منصوبے کی لاگت میں اضافے کا بل عمران خان کو بھیجیں گے، جہنوں نے قومی منصوبے کو سیاست کی نذر کیا۔