• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

کیا مستقبل قریب میں تیل کی قیمتوں میں کمی ممکن ہے؟

شائع June 9, 2022
لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نائب گورنر رہ چکے ہیں
لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نائب گورنر رہ چکے ہیں

حکومت نے بلآخر ہمت کا مظاہرہ کرکے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا اضافہ اس حکومت کے آنے کے ایک ماہ سے کچھ زائد عرصے بعد مئی میں ہوا جبکہ دوسرا اضافہ گزشتہ جمعرات کی شب کیا گیا۔

ہمارا ملک پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور اسے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ کیا قیمتیں بڑھانے کے حوالے سے حکومت کا خوف منطقی تھا؟ کیا ہمیں تیل کی قیمتوں میں ہونے والے مزید اضافے سے ڈرنا چاہیے یا پھر اس کی عدم دستیابی سے یا پھر دونوں سے؟

گزشتہ حکومت نے اپنے خاتمے سے قبل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی تھی۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جسے واپس لینے میں موجودہ حکومت تردد کا شکار تھی۔ کیا ہمیں اپنے حکمرانوں کے اس 'احسان' پر شکرگزار نہیں ہونا چاہیے؟

ہم کسی پری ستان میں نہیں رہتے اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے۔ تیل کی تلاش ایک بہت ہی مشکل کام ہے اور اس میں کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ اکثر ساری کوششوں کے باوجود بھی تیل حاصل نہیں ہوتا۔ عالمی سطح پر اوسط یہ ہے کہ اگر پراسپیکٹر 10 کنوؤں پر ڈرلنگ کرتا ہے تو صرف ایک میں سے تیل نکلتا ہے۔ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمارے یہاں سرمایہ کاروں کو ہر 4 میں سے ایک کنویں میں تیل ملا ہے لیکن اس کے باوجود بھی مالی سال 2020ء میں ملک میں تیل کی مقامی پیداوار 77 ہزار بیرل روزانہ کی رہی (جو سالانہ تقریباً 2 کروڑ 81 لاکھ بیرل بنتی ہے)۔ اس دوران ہم نے 67 لاکھ ٹن خام تیل درآمد کیا۔ درآمد شدہ اور مقامی تیل ہماری ریفائنریوں میں صاف ہوا اور اس سے 97 لاکھ ٹن پیٹرولیم مصنوعات تیار کی گئیں۔

ملک میں پیٹرولیم مصنوعات (ڈیزل، پیٹرول، ہائی آکٹین وغیرہ) کی طلب ایک کروڑ 73 لاکھ ٹن تھی۔ پاکستان انرجی ایئر بُک 2020ء کے مطابق مالی سال 2020ء میں ہم نے اس طلب کو پورا کرنے کے لیے 75 لاکھ ٹن پیٹرولیم مصنوعات درآمد کیں لیکن پاکستان بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس کے مطابق اس درآمد کا حجم ایک کروڑ 9 لاکھ ٹن تھا اور اس پر کُل 4 ارب 70 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔

مزید پڑھیے: توانائی کا بحران اور اس کا حل

ہم اعداد و شمار کے تضاد کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس اہم نکتے کو دیکھتے ہیں کہ مالی سال 2020ء کے دوران عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں 22 سے 66 ڈالر فی بیرل کے درمیان رہیں جبکہ مالی سال 2022ء میں یہ قیمت 78 سے 110 ڈالر کے درمیان رہیں یعنی 2 سالوں میں تقریباً 67 فیصد اضافہ ہوا۔

ملک میں خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے باعث پیٹرولیم (خام، ریفائنڈ، ایل پی جی، ایل این جی) کی درآمدی قیمت جولائی سے اپریل (مالی سال 2022ء) کے دوران 14 ارب 50 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکا ہے جبکہ مالی سال 2021ء کے دوران اسی عرصے میں یہ قیمت 7 ارب 60 کروڑ ڈالر تھی۔ یہاں قیمت کا اثر غالب دکھائی دیتا ہے لیکن درست قیمت کے تعین کے لیے درآمدی حجم کا معلوم ہونا ضروری ہے جو ابھی مرتب کیا جارہا ہے۔ یعنی یہ بات تو واضح ہوگئی کہ حکومت اب تک مہنگے داموں تیل خرید کر اسے سستے داموں فروخت کررہی تھی۔ اس حماقت کو تو کوئی عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو کم رکھ کر حکومت ادھار لیے گئے وسائل کو نسبتاً امیر افراد پر خرچ کررہی تھی۔ بلاشہ گاڑی اور موٹر سائیکل استعمال نہ کرنے والے غریب لوگ بھی بسوں میں سفر کے ذریعے بلواسطہ پیٹرولیم مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں لیکن جو لوگ غریب نہیں تھے وہ بھی اس غیر ضروری سہولت کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔

تیل پر سبسڈی سے طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور امیروں کو فائدہ ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی معیشت کے تناظر میں دیکھیں تو یہ معاملہ صرف تیل پر سبسڈی تک محدود نہیں ہے۔ اس میں وہ بلواسطہ اور بلاواسطہ سبسڈی بھی شامل ہیں جن سے چینی، ٹیکسٹائل، زراعت اور ریئل اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یوں ایک 'ڈاکو اشرافیہ' وجود میں آتی ہے جو پاکستان میں انسانی اور دیگر وسائل کا استحصال کرکے اپنا منافع حاصل کرتے ہیں۔ اکثر پاکستانیوں نے 'ایلیٹ کیپچر' کی اصطلاح شاید نہ سنی ہو لیکن انہیں معلوم ہے کہ یہ کیا ہے کیونکہ وہی اس کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے: سائیکل چلائیں، ڈالر بچائیں

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں یہ منافع کس طرح حاصل ہوتا ہے؟ مثال کے طور پر ہم ریئل اسٹیٹ کو دیکھ لیتے ہیں کیونکہ ملک میں یہی نظام غالب ہے۔ غریب لوگوں کے پاس نہ ہی زمین ہوتی ہے اور نہ ہی پیسہ۔ جو لوگ اتنے غریب نہیں ہوتے ان کے پاس اگر پیسہ نہ ہو تو وراثت کی زمین ہوتی ہے۔ ریئل اسٹیٹ سے متعلق افراد بہت ارزاں قیمت پر یہ زمینیں خرید لیتے ہیں اور بہت ہی مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ اس دوران اگر کسی چیز کا اضافہ ہوتا ہے تو صرف انہیں حاصل ہونے والا منافع ہے جس پر آسانی سے ٹیکس بچایا جاسکتا ہے۔

مجھے یہ تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ریئل اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے یہ افراد کون ہیں۔ اتنا کہنا کافی ہوگا کہ یہ اس ڈاکو اشرافیہ میں بدترین لوگ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے کاروبار میں کوئی پیداواری عمل شامل نہیں ہوتا۔ شاید چینی کی صنعت سے وابستہ لوگ بھی ان سے بہتر ہوں کیونکہ اس شعبے میں کچھ نہ کچھ پیداوار تو ہوتی ہے۔ صنعت کار اشرافیہ کی مثال بھی ایسی ہے۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ اشیا کی قیمت اس کی قدر کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ چینی کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ شوگر مل مالکان کو مزید پیداوار کے لیے راغب کرتا ہے۔ اسی طرح گنے کی قیمت میں اضافہ کسانوں کو مزید گنا اگانے کی ترغیب دیتا ہے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں سے جہاں ایک جانب صارف پریشان ہوتا ہے تو وہیں دوسری جانب سرمایہ کار کو اس سے زیادہ منافع حاصل ہوتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کے قیمتوں میں اضافہ مارکیٹ پر مبنی ہے یا جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ یہ صارف کے لیے نقصان اور اشیا تیار کرنے والے کے لیے منافع کا باعث ہوتا ہے۔

ہم اپنے خاندان اور حکومتی بجٹ پر تیل کی قیمتوں کے اثرات پر افسوس تو کرتے ہیں لیکن ہمیں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو بھی اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب ہے کہ اس کی تلاش اور ڈرلنگ پر منافع میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس سے نہ صرف پیٹرولیم کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کے امکانات میں اضافہ ہوگا بلکہ تیل کی پہلے سے زیادہ پیداوار بھی ممکن ہوسکے گی۔ یوں قیمت میں ہونے والا اضافہ ملک کو خود انحصاری کی جانب لے جانے میں مدد دے گا جس سے درآمد پر انحصار کم ہوگا۔ یہی تجزیہ گندم کی قیمت پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ گندم کی قیمت میں اضافے کو صارفین تو ناپسند کرتے ہیں لیکن کسان اس سے خوش ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے: نئی اتحادی حکومت کو درپیش معاشی مسائل

یہی وجہ ہے کہ حکومت کے پاس امدادی قیمتوں کا ایک نظام ہوتا ہے جس سے وہ کسانوں کو زیادہ سے زیادہ گندم اگانے کی ترغیب دیتی ہے۔ اگر یوکرین میں جنگ نہ ہوتی تو تیل کی قیمتوں میں اتنا زیادہ اضافہ نہ ہوتا۔ تو کیا یوکرین میں جاری بحران ماضی قریب میں ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے؟ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس کے برعکس صورتحال نظر آتی ہے۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا یہی ہے کہ مستقبل میں تیل اور گندم کی قیمتوں میں اضافہ برقرار رہے گا (دنیا میں گندم کی مجموعی تجارت میں 30 فیصد حصہ روس اور یوکرین کا ہے)۔ اس صورتحال میں (سبسڈی کے ذریعے) تیل اور گندم کی قیمتوں کو کم رکھنا نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے اور اس سے تیل اور گندم کی پیداوار میں بھی کمی آسکتی ہے۔

اس کے علاوہ حکومتی خزانہ بھی محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے کچھ تردد کے ساتھ ہی سہی لیکن دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ ہونے دیا ہے۔ اب حکومت کو اپنی تمام تر توانائیاں ماندہ سبسڈیوں کو ختم کرنے، ادائیگیوں کے توازن کو مستحکم کرنے اور خزانے میں اضافے پر مرکوز کرنی چاہیے۔

شیکسپیئر نے کہا تھا کہ 'جو کام عمدگی اور احتیاط کے ساتھ کیے جاتے ہیں، وہ خود کو خوف سے مستثنیٰ رکھتے ہیں'۔


یہ مضمون 4 جون 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوئے۔

ریاض ریاض الدین

لکھاری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نائب گورنر رہ چکے ہیں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024