بہتر مستقبل کے لیے ماحول دوست طرز زندگی اپنانا ہوگی، صدر عارف علوی
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے پائیدار طرز زندگی اپنانے، قدرتی آبی وسائل کی حفاظت کے ساتھ ساتھ زمین کو بچانے، زرخیز مٹی کی حفاظت کو یقینی بنانے اور عالمی سطح پر تبدیلی لانے کے لیے شراکت داری کو فروغ دینا ہوگا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ’اے پی پی‘ کے مطابق ایوان صدر سے جاری عالمی یوم ماحولیات کے حوالے سے بیان میں صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے حکومت اور پاکستانی عوام کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز، غیر متوقع بارشوں اور خشک سالی سے متاثر ہو رہا ہے۔
مزید پڑھیں: خشک موسم کے باعث پانی کی شدید قلت کا خدشہ
صدر مملکت نے کہا کہ نوجوانوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے بارے میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے اور بہتر مستقبل کے لیے ماحول دوست طرز زندگی اپنانا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ ایوان صدر، آئی ایس او سے تصدیق شدہ دنیا کے ماحول دوست صدارتی دفاتر میں پہلی فہرست میں شامل ہے، ایوانِ صدر ایک میگاواٹ کے سولر پاور منصوبے سے نہ صرف اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ قومی بجلی گھر میں بھی فراہم کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں تمام اداروں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ گرین پریزیڈنسی منصوبے سے سیکھیں، توانائی کی بچت کریں تاکہ مؤثر انداز میں عوام کی خدمت کی جاسکے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے جنگلات، حیاتیاتی تنوع اور جنگلی حیات کے وسائل کو موسمیاتی تبدیلیوں، زمین کے استعمال میں تبدیلی اور آبادی میں اضافے کے باعث منفی اثرات کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جنوبی ایشیا میں پانی کی قلت نے وائٹ ہاؤس میں خطرے کی گھنٹی بجادی
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی اور پروگراموں کے تحت متعدد اقدامات کے ذریعے مسلسل کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ جنگلی وسائل ماحولیاتی استحکام کے لیے اہم ہیں، جنگلات، جنگلی حیات اور حیاتیاتی تنوع کے شعبوں کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ اقوام متحدہ کا عالمی یوم ماحولیات ماحول سے متعلق مسائل پر توجہ مرکوز کرنے اور مثبت اقدامات کرنے کے لیے وقف ہے، اس دن کا مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو فطرت سے اپنے تعلق کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی کے17 اہداف میں سے کئی ایک کو پورا کرنے میں صحت مند ماحول کا کلیدی کردار ہے، 2030 کے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں 8 سال باقی ہیں، دنیا کو معاشروں اور معیشتوں کو آلودگی، موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کی تباہی سے بچانے کے لیے تیز رفتاری سے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو موسمیاتی تبدیلی آئندہ نسلوں کیلئے نقصان دہ ہوگی، شیری رحمٰن
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم نہ کیا گیا تو یہ ملک اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہوگی۔
مزید پڑھیں: سندھ، پنجاب کو پانی کی سنگین قلت کا سامنا
وفاقی وزیر نے وڈیو پیغام میں کہا کہ ’یوم ماحولیات‘ منانے کا مقصد لوگوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے آگاہی دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف پاکستان اور جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کے غیر معمولی اثرات سے متاثر ہو رہی ہے، موسمیاتی تبدیلی 21ویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم بحیثیت پاکستانی قوم عالمی موسمیاتی ایمرجنسی میں سب سے آگے کھڑے ہیں، پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات اور خطرات کا سامنا ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ ہمیں شدید درجہ حرارت اور شدید خشک سالی کا سامنا ہے، ہمارے جنگلات جل رہے ہیں، گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور دریا خشک ہو رہے ہیں، ہمیں پانی کے استعمال میں احتیاط برتنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ انسان زمین اور قدرتی ماحول کے ساتھ بہت زیادہ ناانصافی کر رہے ہیں، ہمیں سمندر، ہوا اور اپنی زمین کو آلودگی سے بچانا چاہیے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کو پانی کی کمی سے نمٹنے کے لیے جامع طرز حکمرانی کی ضرورت ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک
وفاقی وزیر نے تجویز پیش کی کہ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے موسمیاتی کلچر کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی شہری کو ماحولیات کے تحفظ اور اپنی مادر وطن کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، صاف ستھرا اور صحت مند ماحول اسی وقت ممکن ہے جب ہر شہری اپنی قومی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرے۔
وڈیو پیغام میں انہوں نے عوام پر زور دیا کہ اس کرہ ارض پر صرف ایک ہی پاکستان ہے اور ملک کے ماحول کو تحفظ دے کر ہی ہم اپنے ملک کو بچا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس کی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں بین ریاستی آبی تنازعات بڑھ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ: پانی کی قلت سے تباہ کن حالات
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ 'چھ دہائیوں اور چار جنگوں کو برداشت کر چکا ہے لیکن اب اسے آبادی میں اضافے اور پن بجلی کے استعمال پر اختلاف سے علاقائی دباؤ کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی پیش گوئی کی گئی ہے کہ 2040 تک افغانستان، کرغزستان، قازقستان، پاکستان، ترکمانستان اور ازبکستان دنیا کے سب سے زیادہ پانی کی کمی کا شکار ممالک میں شامل ہوں گے
پیپر میں مزید کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی پہلے ہی خطے کو متاثر کر رہی ہے، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، کم بارشوں اور گلیشیئرز کے اپنی جگہ سے ہٹنے کے باعث پانی کی فراہمی پر مزید دباؤ پڑ رہا ہے'۔