ضمنی انتخاب کے کچھ غیر متوقع نتائج، لیگی سبقت مستحکم

اسلام آباد: ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات سرکاری اور غیر سرکاری نتائج کا اعلان ہو چکا ہے جس میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے ایک بار پھر اپنی برتری ثابت کرتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلی کی 39 نشستوں میں سے 19 پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔
اس خبر کی مکمل اپ ڈیٹس کیلیے یہاں کلک کریں
گزشتہ حکومت میں پانچ سال تک اتحادی رہنے والے پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی) کو عام انتخابات میں دہشت گردی کے باعث انتخابی مہم میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ضمنی انتخابات میں دونوں پارٹیوں نے نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سونامی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے کامیابی حاصل کی اور بعدازاں انہوں نے راولپنڈی کی سیٹ(این اے- 56) اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا لیکن پی ٹی آئی کو حالیہ ضمنی انتخابات میں پشاور کی نشست این اے- 1 اور میانوالی سے عمران خان کی آبائی سیٹ این اے- 71 پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
جمعرات کو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی پندرہ اور صوبائی اسمبلی کی 26 سیٹوں پر 519 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔
قومی اسمبلی کی دو نشستوں این اے- 5 نوشہرہ اور این اے- 27 لکی مروت پر خواتین کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی اطلاعات پر الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے دوبارہ الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے۔

ملک کے بیشتر حصوں میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ انتہائی کم ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق ضمنی انتخابات میں لوگوں کی عدم دلچسپی کے باعث بہت کم لوگوں نے انتخابات میں حصہ لیا، ٹرن آؤٹ کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کوئی آفیشل ڈیٹا موصول نہیں ہو سکا۔
ایک اندازے کے مطابق عام انتخابات کی نسبت ضمنی انتخابات میں مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ تقریباً نصف سے کم رہا، ان انتخابات میں خواتین کی دلچسپی پہلے سے خاصی کم رہی اور بعض حلقوں میں خواتین ووٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
ضمنی انتخابات میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 32 جھل مگسی میں رہا جہاں سے آزاد امیدوار نوابزادہ طارق مگسی کامیاب قرار پائے۔ اس حلقے میں مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 70.06 رہا۔
تاہم سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے پہلے غیر سرکاری نتیجے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سیالکوٹ سے پنجاب اسمبلی کی نشست پی پی- 123 پر ووٹرز ٹرن آؤٹ صرف 18 فیصد رہا۔
ملک میں کہیں کہیں سے پولنگ اسٹیشنز پر تناؤ کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں تاہم مجموعی طور پر پولنگ کا عمل پرامن رہا۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن ایک بار پھر سب سے کامیاب جماعت ابھر کر سامنے آئی جہاں اس نے قومی اسمبلی کی چھ میں سے پانچ اور صوبائی اسمبلی کی 15 میں سے 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کی دو صوبائی نشستوں پر میدان مار لیا۔
تاہم مسلم لیگ ن کو تین صوبائی نشستوں پر شکست کی صورت میں شدید دھچکا لگا جہاں راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کی نشستوں پر پی ٹی آئی اور اوکاڑہ کی سیٹ پر پیپلز پارٹی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
راجن پور سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی- 247 میں پی ٹی آئی کے سردار علی رضا دریشک نے مسلم لیگ ن کے انتخابی امیدوار عبدالقادر خان ممڈوٹ کو شکست دی، یہ نشست وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے خالی کی گئی تھی۔
مسلم لیگ ن کو ڈیرہ غازی خان کی نشست پی پی- 243 پر بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا جہاں تحریک انصاف کے احمد علی دریشک نے حسام الدین کھوسو کے خلاف کامیابی حاصل کی۔
سردار علی رضا دریشک اور سردار احمد علی دریشک آپس میں کزن ہیں جبکہ سردار علی رضا کے والد بزرگ پارلیمنٹرین سردار نصر اللہ خان دریشک بھی اس وقت آزاد رکن پنجاب اسمبلی ہیں ۔
اوکاڑہ میں بھی مسلم لیگ ن کو اپنی سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑا جہاں پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر منظور احمد وٹو کے بیٹے جہانگیر وٹو نے نور الامین کو شکست سے دوچار کیا۔
لیکن دوسری جانب مسلم لیگ ن نے میانوالی سے قومی اسمبلی کی نشست این اے- 71 پر تحریک انصاف کو دھچکا پہنچاتے ہوئے چیئرمین عمران خان کی آبائی سیٹ سے محروم کر دیا جہاں عبیداللہ شادی خیل کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔
مسلم لیگ ن کے سردار شفقت حیات خان نے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی جانب سے خالی کی گئی سرگودھا سے قومی اسمبلی کی نشست این اے- 68 سے کامیابی حاصل کی۔
مظفر گڑھ این اے- 177 میں پیپلز پارٹی کے ملک نور ربانی کھر نے کامیابی حاصل کی، اس نشست کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کرنے والے جمشید دستی نے خالی کیا تھا۔
تحریک انصاف نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے اپنی سیٹ برقرار رکھی جسے مخدوم جاوید ہاشمی نے خالی کیا تھا، اس نشست پر اسد عمر نے اپنے ن لیگی حریف اشرف گجر کو شکست سے دوچار کیا۔
پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے عام انتخابات میں شکست کا ازالہ کرتے ہوئے سانگھڑ سے قومی اسمبلی کی نشست این اے- 235 پر پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے خدا بخش درس کو ہرا دیا۔

ضمنی انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کی پوزیشن میں بھی بہتری آئی جہاں پشاور سے قومی اسمبلی کی سیٹ این اے- 1 پر غلام احمد بلور نے اپنی سیاسی حریف جماعت تحریک انصاف کے گل بادشاہ کو شکست دی، اس سیٹ سے مئی میں عمران خان کامیاب ہوئے تھے۔
قائم مقام الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی کے کراچی کے مختلف پولنگ اسٹیشنز کا دورہ کیا اور کہا کہ اگر دھاندلی کی اطلاعات موصول ہوئیں تو سخت ایکشن لیا جائے گا۔
کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 254 سے ایم کیو ایم کے محمد علی راشد کامیاب قرار پائے، انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے محمد نعیم کو شکست دی جبکہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 237 ٹھٹھہ میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کی شمس النساء نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سید ریاض حسین شاہ شیرازی کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔
سندھ سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 95 کراچی کے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدوار محمد حسین خان نے پیپلزپارٹی کے امیدوار محمد جمیل ضیا کے خلاف کامیابی حاصل کر لی۔
سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس12 شکار پور کے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے عابد حسین بھائیو نے آزاد امیدوار امیر علی جتوئی کو شکست دے کر کامیابی حاصل کر لی ہے، میر پور خاص سے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 64 میرپور خاص کے ضمنی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر ظفر کمال کامیاب رہے۔ انہوں نے پی پی پی پی کے عبدالسعید قریشی کو شکست دی۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور ان کی اتحادی پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے بلوچستان سے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی کی تین نشستیں برقرار رکھیں۔
صوبے کے بااثر مگسی خاندان نے اپنی آبائی صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر بھاری مارجن سے کامیابی حاصل کی۔
مذہبی ووٹ بٹنے کے باعث جے یو آئی-ف اور جے یو آئی نظریاتی کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام رہیں جس کی بدولت پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے قلعہ عبداللہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کر لی، ضمنی انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان کو اےاین پی کی حمایت بھی حاصل تھی۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے عبدالقہر وحان نے قلعہ عبداللہ سے قومی اسمبلی کی نشست این اے- 262 پر جے یو آئی ف کے حاجی قاری شیر کو شکست دی، عام انتخابات میں یہ نشست پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے جیتی تھی۔
مسلم لیگ ن نے لسبیلہ اور نصیرآباد سے صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ آزاد امیدوار نوابزادہ طارق حسین مگسی جھل مگسی سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی بی- 32 اپنے نام کی۔
خان آف قلات کے پوتے پرنس احمد علی احمد زئی لسبیلہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی بی- 32 جیتنے میں کامیاب رہے۔