حکومت کو ایک ہفتے میں ای سی ایل قوانین میں تبدیلیاں قانونی دائرہ کار میں لانے کی ہدایت
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے قوانین میں حالیہ تبدیلیوں کو ایک ہفتے کے اندر قانون کے دائرے میں لانے کی ہدایت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ہدایت پر عمل نہ کیے جانے کی صورت میں حکم جاری کیا جائے گا۔
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے 22 اپریل کو کہا تھا کہ حکومت نے ای سی ایل قوانین میں اہم تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں تاکہ برسوں اور دہائی سے زائد عرصے تک لوگوں کو نام ای سی ایل میں رکھنے کے رواج کو ختم کیا جاسکے۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے انصاف کے عمل کو بااختیار لوگوں کے ذریعے کمزور کیے جانے کے خدشات کے پیش نظر اس پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ازخود نوٹس کیس: ای سی ایل سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب
آج ازخود نوٹس پر سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ہدایت دی کہ حکومت ترمیم کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے مناسب اقدامات کرے، ہم فی الوقت انتظامی اختیارات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف سے ای سی ایل سے نام نکالنے کے طریقہ کار سے متعلق استفسار کیا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کے لیے کون کہتا ہے، کبھی کسی سے پوچھا ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمارے پاس ایک خط آتا ہے کہ متعلقہ شخص سے تفتیش جاری ہے اس لیے نام ای سی میں ڈال دیں، بیرون ملک سفر اور آزادنہ نقل وحرکت ہر شہری کا آئینی حق ہے، کسی فرد کے خلاف نیب میں تحقیقات یا کسی ایجنسی کے تحقیقات کے سبب نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جاسکتا۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا حکومتی شخصیات کے کیسز میں 'مداخلت کے تاثر' پر از خودنوٹس
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کسی شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے پہلے نقل و حرکت کی آزادی اور اس پر لگائے گئے الزامات کا جائزہ لیتی ہے، حکومت نے تمام قانونی تقاضے پورے کرکے ای سی ایل رولز میں ترمیم کی، وفاقی کابینہ نے ای سی ایل رولز ترمیم میں لکھا کہ ان کا اطلاق ماضی سے ہوگا، ای سی ایل رولز میں ترمیم وفاقی حکومت کی صوابدید ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ میں شامل افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی وجہ آزادنہ حکومتی امور کی انجام دہی ہے، کسی قانون میں نہیں لکھا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے نیب سے مشاورت ضروری ہے۔
'ایسے شخص کو بھی رہا کردیا گیا جسے عدالت نے جیل بھیجنے کا حکم دیا'
چیف جسٹس نے کہا ہمیں معلوم ہے آپ نے ایک ایسے فرد کو بھی چھوڑ دیا ہے جسے ہم نے قید میں رکھنے کا حکم دیا تھا، جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کے خلاف ریفرنس 2018 کا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا آرڈر 2021 کا تھا، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کے حکم پر عملدرآمد کیا گیا، اس کی رہائی ریفرنس کے فیصلے کے نتیجے میں ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نیب یا کوئی تحقیقاتی ادارہ کسی کے خلاف تحقیقات کر رہا ہو تو آپ کو اس ادارے سے مشاورت کرکے ای سی ایل سے نام نکالنا چاہیے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ چیئرمین نیب کی ہدایت پر نام ای سی ایل میں شامل کیے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے نیب سوچ سمجھ کر ہی نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہتا ہے، کرپشن سنگین جرم ہے اور نیب کا ہر کیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے، نیب ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتا، نیب کے مطابق اربوں روپے کی کرپشن کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد کردی
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نیب کو ضرورت ہو تو نام دوبارہ شامل کرنے کے لیے رجوع کر سکتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کو نام نکالنے کا پتا ہوگا تو ہی رجوع کر سکے گا، ایسے ملزم کا نام بھی ای سی ایل سے نکالا گیا جو سپریم کورٹ نے شامل کروایا تھا۔
سماعت کے دوران جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوتا کہ ہر کیس کا الگ جائزہ لے کر نام نکالے جاتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایگزیکٹو کے فنکشنز میں مداخلت نہیں کر رہے، ایک وزیر مالی معاملات پر کام کر رہا ہے، ہم آپ کو کچھ وقت دیتے ہیں، آپ قانون کے مطابق عمل کریں، ہم آپ کو 2 ہفتوں کا وقت دیتے ہیں، ہم چاہتے ہیں قانون پر عملدرآمد کر کے سب سے یکساں انصاف ہو۔
’رشتہ داروں یا دوستوں کو فائدہ ہورہا ہو تو کیا ایسی ترمیم ہونی چاہیے؟‘
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کا اطلاق ماضی سے کیوں کیا گیا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ماضی سے ترمیم کے اطلاق کا مقصد مخصوص افراد کے لیے نہیں تھا، اس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ترمیم کرنے والوں کے اگر رشتہ داروں یا دوستوں کو فائدہ ہو رہا ہو تو کیا ایسی ترمیم ہونی چاہیے؟
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے لکھا ہے کہ ملک سے باہر جانا ایک بنیادی حق ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم نے کہا ہے کہ آزادانہ نقل و حرکت ایک شہری کا بنیادی حق ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی کیا جلدی تھی؟ ای سی ایل رولز میں ترمیم کا اطلاق گزشتہ تاریخوں سے ہونے کا ذکر نہیں، ای سی ایل میں شامل وزرا نام نکالنے کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: ہوا میں فیصلہ نہیں دے سکتے، تمام سیاسی جماعتوں کا احترام ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ سعد رفیق کا نام عدالت نے شامل کرایا تھا، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سعد رفیق کابینہ اجلاس میں موجود نہیں تھے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ کے مطابق سعد رفیق نے ای سی ایل رولز کی منظوری دی ہے، کیا وزرا کو خود معاملے سے الگ نہیں ہونا چاہیے تھا؟ ذاتی مفاد کے لیے کوئی کیسے سرکاری فیصلے کر سکتا ہے؟ کیا وزرا کے لیے ذاتی کیس سے متعلق کوئی ضابطہ اخلاق ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ضابطہ اخلاق کے تحت ذاتی نوعیت کا کیس وزیر کے پاس نہیں جاتا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر وزیر اعظم کا نام ای سی ایل میں ہو تو کیا کابینہ فیصلہ ہی نہیں کرے گی؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مناسب ہوگا اگر کابینہ ہی ایسی بنے جس کا نام ای سی ایل پر نہ ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو سزا دینے کے لیے کارروائی نہیں کر رہے۔
حکومت کو ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرہ میں لانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہیں ورنہ حکم جاری کریں گے، ممکن ہے عدالتی حکم مشکلات پیدا کردے، ایک ہفتے میں مناسب اقدامات کر لیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایگزیکٹو اختیارات میں فی الحال مداخلت نہیں کرنا چاہتے، نام نہیں لیتے لیکن ایک وزیر اہم معاشی امور سرانجام دے رہا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ای سی ایل ترامیم کا گزشتہ تاریخوں سے نفاذ کا فیصلہ کس نے کیا؟
مزید پڑھیں: وزیراعظم، صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہونگے، سپریم کورٹ
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نام نکالنے اور گزشتہ تاریخوں سے نفاذ کا فیصلہ سب کمیٹی کی سفارشات پر ہوا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ حکومت کہتی ہے بیرونِ ملک جانا بنیادی حق ہے، اگر بیرون ملک جانا بنیادی حق ہے تو پھر ای سی ایل کا کیا جواز رہ گیا؟ جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری رائے میں تو ای سی ایل ہونی ہی نہیں چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس میں ذاتی رائے پر نہیں جائیں گے، اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایمانداری، منصفانہ اور شفافیت کو مدنظر رکھا جائے۔
نظام عدل پر چیف جسٹس کے ریمارکس
عدالت کی جانب سے طلب کیے گئے ڈی جی ایف آئی اے طاہر رائے نے سماعت کے دوران بتایا کہ پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن سمیت 8 افراد بیرون ملک گئے اور بعد میں واپس نہیں آئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے فہرست میں تاریخیں درست انداز میں نہیں لکھی گئیں، ٹرائل کے دوران پراسیکیوٹر کہے ریکارڈ نہیں مل رہا تو تکلیف ہوتی ہے، نیب کے کیسز میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ ریکارڈ نہ ملا ہو۔
انہوں نے کہا کہ کسی کیس میں مواد نہ ہو تو الگ بات ہے، عدالت کو تشویش آزادانہ تفتیش اور ٹرائل کے حوالے سے ہے، ایسا نہ ہو کہ مواد موجود ہو اور گواہان کو خاموش کروا دیا جائے، نیب کے جن مقدمات میں شواہد نہیں ہیں انہیں واپس لے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت ختم ہوگئی ہے، پی ٹی آئی رہنما
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پراسیکیوشن کے درست کام نہ کرنے سے نظام انصاف پر برا اثر پڑتا ہے، نظام انصاف کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان کی عدلیہ 128ویں نمبر پر ہے، پاکستان کی رینکنگ ڈیٹا نہیں بلکہ تاثر کی بنیاد پر کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ کسی بے گناہ کو جیل میں نہیں رہنا چاہیے، غلط فیصلے اعلیٰ عدلیہ سے تبدیل ہو جاتے ہیں، 90 فیصد فیصلے اعلیٰ عدلیہ میں برقرار رہتے ہیں، عدالتی فیصلوں کے بعد لوگ اللہ کے نام پر معاف کر دیتے ہیں، دیکھنا ہوگا سنگین جرائم والوں کو معافی ملنی چاہیے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی زبردستی کیس بنوانے کی بات کرے تو عدالت کو آگاہ کریں، آپ سول سرونٹ ہیں کسی کی مداخلت تسلیم نہ کریں، اگر کوئی دباؤ ڈالتا ہے تو عدالت کو بتائیں آپ کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
ایف آئی اے اور نیب کے ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ طلب
سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے ایف آئی اے اور نیب کے ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ طلب کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ تمام شواہد اور ریکارڈ کی سافٹ کاپی سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے، اگر ریکارڈ گم ہوا تو سپریم کورٹ سے آپ کو مل جائے گا، ایف آئی اے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر کے علاوہ دیگر افسران کو تبدیل کر سکتا ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ نیب کو مقدمات کا جائزہ لینے کے لیے وقت دیا جائے، چیئرمین نیب کی تعیناتی کے بعد ہی احکامات پر عمل ممکن ہوگا۔
چیف جسٹس نے تنبیہ کی کہ نیب پر اگر کوئی دباؤ ڈالے تو عدالت کو آگاہ کریں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا چیئرمین نیب کا چارج کسی افسر کو دیا گیا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین نیب کے حوالے سے توقع ہے کہ حکومت سوچ سمجھ کر تعیناتی کرے گی، معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، حکومت سے اچھی توقع ہے، توقع ہے صاف، ایماندار، قابل اور نیک نام شخص کو چیئرمین نیب لگایا جائے، سسٹم کے باہر سے کوئی دباؤ قبول کیا جائے نہ ہی تعیناتی کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت کے فیصلوں پر تنقید کریں، ججز پر نہیں، جسٹس عمر عطا بندیال
انہوں نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے جو کہنا چاہ رہا ہوں آپ سمجھ گئے ہوں گے، نیب بھی یقینی بنائے کہ اس کا ادارہ کسی کے خلاف انتقام کے لیے استعمال نہ ہو۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکلنے کے بعد 30 لوگ بیرون ملک گئے، 23 لوگ واپس آگئے، 7 لوگ واپس نہیں آئے، شرجیل انعام میمن بھی باہر گئے اور واپس نہیں آئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے لیے شرمندگی ہوتی ہے جب پراسیکیوٹر کہتا ہے ریکارڈ نہیں ملا، نیب کے مقدمات میں ایسا ماضی میں ہو چکا ہے، جن مقدمات میں شواہد نہیں وہ عدالتوں میں نہیں جانے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تشویش ہے کہ آزادانہ تحقیقات ہوں اور شفاف ٹرائل ہو، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ریکارڈ گم ہو جائے یا گواہوں کو خاموش کرا دیا جائے۔
بعد ازاں کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کردی گئی۔
پس منظر
خیال رہے کہ 18 مئی کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی شخصیات کی جانب سے زیر التوا مقدمات کی تحقیقات میں مداخلت پر اثر انداز ہونے کے تاثر پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ‘موجودہ حکومت میں موجود افراد سے متعلق زیر التوا کرمنل معاملات کی پراسیکیوشن اور تفتیش کے لیے پراسیکیوشن برانچ کے اختیارات اور فرائض کی ادائیگی میں مداخلت کا خدشہ ہے’۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ‘خدشہ ہے کہ اس طرح کی مداخلت سے مقدمات کی تفتیش، عدالتوں میں شہادتوں میں ردوبدل یا غائب کرنے یا تفتیشی اداروں کے قبضے میں اور اہم عہدوں پر تبادلے اور تعیناتیوں میں اثر انداز ہو سکتے ہیں’۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف پر فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر
ازخود نوٹس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ‘احتساب کے قوانین میں تبدیلی کی اس طرح کی کارروائیوں، میڈیا رپورٹس کے ساتھ ملک میں نظام انصاف کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے’۔
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ‘یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے جو معاشرے پر بطور مجموعی اثر انداز ہو رہا ہے اور ملک میں عوام کا قانون اور آئین کی بالادستی پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے’۔
19 مئی کو عدالت عظمیٰ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد کردی تھی اور قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتی فورم سے واپس لینے سے روک دیا تھا۔
مزید پڑھیں: شہباز شریف پر فرد جرم عائد نہ کی جاسکی
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کن زیر التوا مجرمانہ معاملات کا حوالہ دے رہی ہے، تاہم وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اس وقت وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی پیروی کر رہی ہے جن پر فرد جرم فروری سے تاخیر کا شکار ہے۔
یہ نوٹس ایسے وقت میں سامنے آیا جب پی ٹی آئی کی جانب سے یہ الزامات عائد کیے جارہے تھے کہ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد موجودہ مخلوط حکومت مبینہ طور پر کرپشن کے الزامات سے متعلق مختلف مقدمات پر اثر انداز ہونے لگی اور تفتیش کاروں یا مقدمات کی نگرانی کرنے والے افسران کے تبادلے شروع کر دیے۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ نے گزشتہ ماہ نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 منظور کیا تھا جس میں نیب کے بیشتر اختیارات کو ختم کیا گیا تھا۔